سماجی ہم آہنگی کی اہمیت اور ضرورت کو اسلام کے علاوہ کسی مذاہب نے ظاہر نہیں کیا

0
سماجی ہم آہنگی کی اہمیت اور ضرورت کو اسلام کے علاوہ کسی مذاہب نے ظاہر نہیں کیا
سماجی ہم آہنگی کی اہمیت اور ضرورت کو اسلام کے علاوہ کسی مذاہب نے ظاہر نہیں کیا

دربھنگہ (فردوس/ایس این بی): سماجی ہم آہنگی کی اہمیت اور ضرورت پر جس طرح اسلام نے زور دیا ہے اس طرح سے کسی اورمذاہب میں اس کی اہمیت کو اجاگر نہیں کیا گیا۔ اس کا اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سماج اور مختلف النوع سماج کا پہلا اتحاد مدینے میں عمل میں آیا۔ ان خیالات کا اظہار مرکزی جمعیت اہل حدیث ہندکے امیر مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی نے دار العلوم احمدیہ سلفیہ کے زیر اہتمام ادارہ ہذا کے احاطہ میں منعقد ہ جلسہ مذاکرہ علمیہ کے سیمینار بعنوان ”سماجی ہم آہنگی کی ضرورت: مسائل اور تقاضے” میں اپنے صدارتی خطاب میں کہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ نبی آخرالزماں جناب محمدرسول اللہ نے ہجرت کے بعد مدینے میں یہودیوں کے ساتھ میثاق ومعاہدہ اور ایگریمنٹ کے ذریعے جس ’’مشترک معاشرہ‘‘ کی بنیادڈالی، وہ انسانی تاریخ میں تکثیری سماج کا پہلا نمونہ تھا۔مدینہ میں پہلا اسلامی اسٹیٹ قائم ہوا اور وہاں کے تمام باشندگا ن کومذہبی آزادی اور شہری حقوق عطا کئے گئے۔

https://www.facebook.com/100045256052414/posts/pfbid02St86dz5W2eJMJ2c9BCCL5picv5hrZtmvm3TqVXm2NBWLU8E2pNcjBRnQQXekFbjHl/?app=fbl

مولانا انصار زبیر محمدی نے اپنے مقالے تکثیری معاشرہ اوراسلامی تعلیمات میں کہا کہ سماجی ہم آہنگی کو قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان فریضہ دعوت، حسن معاملہ اوررواداری، حقوق کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ شبہات کا ازالہ کرتے رہیں۔ سی ایم کالج کے شعبہ اکنامکس کے صدر ابصار عالم نے سماجی ہم آہنگی کی تشکیل میں تاریخ اور سیاست کے استعمال کے پہلو پرروشنی ڈالتے ہوئے مسلمانوں کے لائحہ عمل کو واضح کیا۔ سی ٹی ای مانو کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر افروزعالم نے سماجی ہم آہنگی کے قیام میں مولانا آزاد کے رول پر روشنی ڈالی۔ ہندوستان کی جدوجہد آزادی کی تاریخ میں اس ملک میں بسنے والی دو بڑی اکائیاں یعنی ہندو اور مسلمان کے درمیان تال میل اور اتحاد کے طلسماتی اثرات کو فراموش نہیں کیاجاسکتا۔ خصوصاً جب ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مذہبی اعتبار سے بھی اعتبار پیدا کرنے کا مسئلہ درپیش ہو۔ ڈاکٹر عبد اللہ مشتاق پروفیسر حائل یونیورسٹی سعودی عرب نے کہاکہ اسلام میں متعدد ایسی تعلیمات موجود ہیں جن کی بنیادوں پر سماجی ہم آہنگی کو قائم کیا جاسکتا ہے۔

بی ایچ یو کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عبد السمیع سلفی نے سماجی ہم آہنگی اور آئین ہند پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہندوستان جب تقسیم ہوا تو ہندوستان نے غیرمذہبی یعنی کسی ایک مذہب کے نفاذ کے بجائے کثیرمذہبی دستور بنانے پر رضامندی کا اظہار کیا اور دو برس کی ریاضت، غور وفکر اور بحث و تمحیص کے بعدجب آئین ہند کا مسودہ تیار ہوا تو اسے دنیا کے بہترین دساتیر میں شامل کیا گیا۔ڈاکٹر ابھے کمار نے سماجی ہم آہنگی کو در پیش چیلنجز:تاریخی تناظر کے عنوان سے آن لائن مقالہ پیش کیا۔

پروگرام کی نظامت شکیل احمد سلفی اور احتشام الحق نے مشترکہ طور پر کی جبکہ مجلس صدارت میں مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی اور مولانا عبد الرحمن لیثی شامل تھے۔ دار العلوم کے ناظم انجینئر اسماعیل خرم نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ منتظمین کی جانب سے تمام مہمانوں کا مومنٹو پیش کر استقبال کیا گیا۔

مزید پڑھیں: پتھر دل والے ہی غزہ کی تباہی پر خاموش رہ سکتے ہیں: روسی صدر

پروگرام کا آغاز طالب علم محمد ثمامہ کی تلاوت سے ہوا جبکہ اختتام مولانا اشرف علی سلفی پرنسپل دارالعلوم کے کلمات تشکر پر ہوا۔ جلسہ مذاکرہ علمیہ کی دوسری نشست کی صدارت مولانا محمد خورشید عالم مدنی نے کی جبکہ مولانا محمد علی سلفی نے خطاب کیا۔ نظامت مولانا وحید الزماں سلفی نے کی۔ تادم تحریر پروگرام جاری تھا۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS