کوئی ایسا قانون مسلط نہ کیا جائے جو ہندوستانی مسلمانوں کی مرضی کے خلاف ہو: مسلم پرسنل لا بورڈکی لا کمیشن سے اپیل

0

نئی دہلی، (یو این آئی) آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے ا ٓج یہاں لا کمیشن کو تفصیلی جواب پیش کرتے ہوئے کہا کہ بورڈ کو توقع ہے کہ کمیشن ان حقائق کو پیش نظر رکھے گا اور اس امر کو یقینی بنائے گا کہ کوئی ایسا قانون مسلط نہ کیا جائے جو ہندوستانی مسلمانوں (مردوں اور عورتوں) کی مرضی کے خلاف ہو۔
مسلم پرسنل لا کی جاری کردہ ریلیز کے مطابق بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا فضل الرحیم مجددی نے کہا کہ 2018 میں بھی لاکمیشن نے یونیفارم سول کوڈ کے بارے میں ہماری رائے طلب کی تھی۔ ہم نے زبانی اور تحریری طور پر اپنی رائے پیش کی تھی۔ اس کے علاوہ جیسا کہ کمیشن کو درکار تھا ہم نے الکٹرونک شکل میں ۵۹۶، ۴۷، ۸۳، ۴ افراد کے دستخط شدہ مطبوعہ فارم بھی داخل کئے تھے جن میں اس وقت مجوزہ یونفارم سول کوڈ کی مخالفت کی تھی۔ کمیشن نے اپنا مقالہ/رپورٹ دو حصوں میں پیش کیا تھا اور اس رائے کا اظہار کیا تھا کہ اس مرحلے پر یونیفارم سول کوڈ پسندیدہ نہیں ہے اس نے اس معاملے کے بارے میں اتفاق رائے کی سفارش کی تھی۔ ہم پر یہ حقیقت بالکل واضح نہیں ہے کہ اتنے کم عرصے میں اسی عمل کو پھر کیوں دہرایا گیا ہے۔ ایسے بہ تکرار عمل سے عوام کے ذہن میں شکوک اور شبہات پیدا ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا ملک دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے اور کثیر آبادی کا ملک ہے۔ ہمارے ملک میں بہت سے مذاہب، تقافتیں اور رسوم و رواج ہیں۔ ان مذہبی اور تہذیبی گروہوں کے لئے پرسنل لا کی حیثیت ان کی اجتماعی شناخت کی ہے۔ اسی پر ہمارے ملک کے تنوع کا دارومدار ہے۔ اسی لئے مجاہدین آزادی اور ملکی قائدین نے ہمیشہ اس تنوع کو باقی رکھنے کی حمایت کی۔ اگر یونیفارم سول کوڈ کا نفاذ ہوتا ہے تو یہ ہمارے شہریوں اور ہمارے ملک کو تنوع کی خصوصیت سے محروم کردے گا۔
مولانا مجددی نے کہا کہ ہمارا ملک یوروپ کے ملکوں کی طرح نہیں ہے، اگر یوروپ کے تمام ملکوں کو بھی ایک جگہ جمع کردیا جائے تو ان کا ہندوستان کے رقبے سے کوئی مقابلہ نہیں۔ اگر ہم آبادی کی بنیاد پر مقابلہ کریں تو معاملہ اور بھی مختلف ہوجائے گا۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا تمام یوروپی ملک مشترک سول کوڈ کے حامل ہوسکتے ہیں، پہلی بات تویہ ہے کہ ہندوستان جیسے عظیم ملک کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ چھوٹے رقبے اور کم آبادی والے ملکوں کے قانون کی نقالی کرے، رقبے کے لحاظ سے امریکہ دنیا کے وسیع ترین ملکوں میں سے ہے، اس کے علاوہ یہ ایک ترقی یافتہ ملک ہے اور ترقی میں دیگر ممالک سے آگے ہے، یہاں تمام ریاستوں کے الگ الگ قوانین ہیں لیکن اس کے باعث امریکہ کی ترقی اور سا لمیت ہیں کوئی رکاوٹ نہیں پیش آتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک کے مجاہدین آزادی اور اس کے معماروں نے ہمیشہ مختلف اکائیوں خاص کر مسلمانوں کو یقین دلایا کہ مسلم پرسنل لاء کو چھیڑا نہیں جائے گا، خود بابائے قوم مہاتما گاندھی جی نے گول میز کانفرنس لندن منعقدہ 1931ء میں پوری وضاحت کے ساتھ کہا تھا: ’’مسلم پرسنل لاء کو کسی بھی قانون کے ذریعہ چھیڑا نہیں جائے گا ‘‘
آزادی سے پہلے کانگریس ہندوستان کے باشندگان کی نمائندگی کرتی تھی؛ اس نے 1937ء میں ہری پور اجلاس میں اعلان کیا: ’’اکثریت کی طرف سے مسلم پرسنل لاء میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی جائے گی ‘‘۔
جنگ آزادی کے مشہور مجاہد مولانا ابوالکلام ازاد نے فرمایا:
’’اب اگر یونیفارم سول کوڈ لانے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ بات ان یقین دہانیوں کے خلاف ہوگی جو ملک کے معماروں اور اس کی ازادی اور تعمیر کے لیے قربانی دینے والوں نے دی تھی، نہ تو کانگریس ہی کا یہ مقصد ہے اور نہ مسلمان ہی اس مقصد سے قیامت تک متفق ہو سکتے ہیں کہ ہندوستان سے مسلم کلچر، مسلم تہذیب اور مسلم خصائص ختم ہو جائیں اور وہ ہندوستان کی متحدہ قومیت میں جذب ہوکر جرمن یا انگریز قوم کی طرح ہندوستانی قوم کے سوا کچھ نہ رہیں‘‘ ۔ یہ نمونہ ہے ان یقین دہانیوں کا جو کہ اقلیتوں کو دی گئی تھیں:
ؑؑ جب ملک کا دستور بنا تو اس میں بھی اس بات کو ملحوظ رکھا گیا؛ چنانچہ بنیادی حقوق کے تحت ارٹیکل (25) میں ہر شہری کو اپنے مذہب کے مطابق عقیدہ رکھنے، عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کی اجازت دی گئی ہے، جو اس طرح ہے:
-25 (1) ’’تمام اشخاص کو ازادئ ضمیر اور ازادی سے مذہب قبول کرنے، اس کی پیروی اور اس کی تبلیغ کرنے کا مساوی حق ہے، بشرطیکہ امن عامہ، اخلاق عامہ، صحت عامہ اور اس حصہ کی دیگر توضیحات متاثر نہ ہوں‘‘ ۔
دستور کے بنیادی حقوق کی جو اہمیت ہے وہ ظاہر ہے، جس کا ذکر دستور کی دفعہ 13- (2) میں ہے اور اس کے الفاظ اس طرح ہیں:
’’مملکت کوئی ایسا قانون نہیں بنائے گی جو اس حصہ سے عطا کیے ہوئے حقوق کو چھین لے یا ان میں کمی کرے اور کوئی قانون جو اس فقرہ کی خلاف ورزی میں بنایا جائے، خلاف ورزی کی حد تک باطل ہوگا‘‘۔
چنانچہ ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے بیان دیتے ہوئے کہا تھا: ’’بنیادی حق کو کسی وقتی دشواری کے تحت نہ دیکھنا چاہیے؛ بلکہ اس نقطہ نظر سے دیکھنا چاہیے کہ آپ اسے دستور میں مستقل مقام دے رہے ہیں، بنیادی حقوق کے علاوہ دوسرے امور کو خواہ وہ کتنے ہی اہم کیوں نہ ہوں، اس نقطہ نظر سے دیکھنا چاہیے کہ وہ عارضی ہیں‘‘۔
سرلامڈگل مقدمے (19953SCC635) میں معزز سپریم کورٹ نے اس رائے کا اظہار کیا کہ یہ خیال کہ شادی، وراثت اور سیکولر کردار کے دیگر معاملات کا تعلق اس ضمانت سے نہیں ہے جس کا ذکر دستور کی دفعات 25،26 اور27 میں ہے اس پر سوال کھڑے ہوتے ہیں اور مسلم قوم بحیثیت مجموعی ان معاملات کو مذہب سے جدا نہیں سمجھتی ہے اس رائے کا اظہار دفعات 25،26 اور27 کے دائرہ کار اور مختلف مذہبی گروہوں کے عمل کے بارے میں کسی بحث کے بغیر کیا گیا

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS