ایک طالب علم کی زندگی میں استاد کی رہنمائی کا عکس ہوتا ہے۔ اس لیے جب طالب علم ترقی کرتا ہے تو استاد کے عزت و احترام میں اضافہ ہوتا ہے۔ حالاں کہ مثبت پہلو ہے، اس کا منفی پہلو استاد کے دامن کو سیاہی سے بھی بھرسکتا ہے اور اگر ایک نالائق طالب علم کا سامنا گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والے اساتذہ سے ہوا ہوتو پھر مستقبل جہالت کے اندھیرے میں ڈوب جاتا ہے۔ افغانستان میں کچھ ایسا ہی ہوا ہے جہاں طالبان(طالب علم) کی زندگی میں شروعات سے وسط تک استاد کا کردار امریکہ نے نبھایا، لیکن سوائے مطلب پرستی کے طالبان نے کچھ نہیں سیکھا۔ پھر وسط سے شمال کی اعلیٰ سطح تک پاکستان نے اسلام کے نام پر ڈھونگ کرنا سکھایا اور اب یہی ڈھونگ اور مطلب پرستی طالبان کا چہرا ہے جسے مہین استحکام کے لبادے سے ڈھکا گیا ہے، مگر سچائی اس کے بالکل برعکس ہے۔
سچائی یہ ہے کہ دنیا میں کچھ بھی مستقل نہیں ہے۔ افغانستان میں 20سال سے گڑا امریکی فوج کا خیمہ بھی آخرکار اکھڑ ہی گیا۔ اپنے فوجیوں کی واپسی پر امریکہ بھلے ہی جواز پیش کررہا ہو کہ کابل جانے کا اس کا مقصد القاعدہ کو9/11کا سبق سکھانا تھا اور وہ مقصد کامیابی کے ساتھ پورا ہوگیا ہے، لیکن حقیقت یہی ہے کہ امریکہ کا حال بھی سوویت فوج اور ناٹو کی ہی طرح ’بڑے بے آبرو ہوکر، تیرے کوچے سے ہم نکلے‘ والا ہی رہا ہے۔ دودہائی کا وقت اور اربوں ڈالر خرچ کرنے کے بعد بھی امریکہ اسلامی شدت پسند طالبان کو ختم نہیں کرپایا، اس کے برعکس اسے اپنے کئی ہزار جوانوں کی قربانی دینی پڑگئی۔ امریکہ نے ایگزٹ پلان کے لیے طالبان کے سامنے اپنی زمین پر القاعدہ کو نہ پنپنے دینے کی شرط رکھی ہے، جسے طالبان نے بغیر وقت ضائع کیے تسلیم کرلیا ہے۔ جس بات پر کوئی غور نہیں کررہا ہے، وہ یہ ہے کہ اس معاہدہ میں امریکہ نے بھی غیررسمی طور پر ایک بات مانی ہے۔ افغانستان میں ابھی اشرف غنی کی حکومت اقتدار سے باہر نہیں ہوئی ہے، لیکن طالبان سے ڈیل کرکے امریکہ نے بھی جیسے تسلیم کرلیا ہے کہ افغانستان میں آنے والا وقت طالبان کا ہی ہے۔ افغانستان میں حالت یہ ہے کہ امریکی فوجی اور طالبانی دہشت گرد ایک ساتھ لوٹ رہے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ دونوں کی منزلیں الگ الگ ہیں۔ نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ اب بھی آدھی امریکی فوج افغانستان میں موجود ہے اور افغان طالبان آدھے افغانستان پر قبضہ کرچکے ہیں۔ ایران، پاکستان، ازبکستان اور تازکستان سرحد کی زیادہ تر چوکیاں اب طالبان کے کنٹرول میں ہیں۔ اب جو طالبان اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے اتنے بے قرار نظر آرہے ہیں، وہ امریکہ سے کیے گئے معاہدہ کو کتنی اہمیت دیں گے، یہ فی الحال کہا نہیں جاسکتا۔ افغانستان کل کو دہشت گردی کا اڈہ نہیں بنے گا یا امریکہ میں دوسرا ’9/11‘ نہیں ہوگا، اس کی کوئی گارنٹی نہیں دے سکتا۔
طالبان کے اقتدار سے ہٹنے کے بعد جب ملک میں جمہوریت کی ہوا چلنی شروع ہوئی تو لوگ بھی اس وقت کو بھولنے لگے۔ خواتین کو گھر سے باہر نکلنے اور یہاں تک کہ الیکشن لڑنے کی آزادی ملی۔ افسوس کہ یہ سنہرا وقت ٹھہر گیا نظر آتا ہے اور پرانی ڈراؤنی یادیں پھر تازہ ہونے لگی ہیں۔ طالبان اپنے قبضہ والے علاقوں میں اپنے بنائے ہوئے اسلامی قوانین نافذ کرتے جارہے ہیں۔
خطرہ امریکہ پر ہی نہیں، طالبان کے ’دوست‘ چین اور پاکستان پر بھی منڈلانے لگا ہے۔ ہندوستان کے لیے تو خیرطالبان کا آنا وارننگ ہے ہی۔ پہلے چین کی بات کریں تو اس کے شن جیانگ صوبہ کی سرحد افغانستان سے ملحق ہے۔ چین نے یہاں اویغور مسلمانوں کو حراستی کیمپوں میں قید کررکھا ہے۔ اس لحاظ سے یہ علاقہ چین کے لیے اسٹریجیکلی کافی حساس ہے۔ یہاں القاعدہ کی حمایت یافتہ دہشت گرد گروہ ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ یعنی ای ٹی آئی ایم طویل وقت سے اویغور مسلمانوں کی حمایت میں بغاوت کرانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اگر افغانستان میں خانہ جنگی کے حالات بنے تو وہاں اسلامک اسٹیٹ کی پکڑ مضبوط ہوسکتی ہے۔ دیرسویر اسلامک اسٹیٹ بھی اویغور مسلمانوں کی مدد کے لیے شن جیانگ کا رُخ کرسکتا ہے۔ ایسا ہوتا ہے تو چین کو آئی ایس اور ای ٹی آئی ایم کے دوہرے چیلنج سے نبردآزما ہونا ہوگا۔ یہ چین-پاکستان اکنامک کوریڈور یعنی سیپیک کے مستقبل کے لیے بھی اچھی خبر نہیں ہوگی۔ سیپیک چین کے جس کاشغر شہر سے شروع ہوتا ہے، وہ شن جیانگ کا جنوبی علاقہ ہے۔ آگے چل کر یہ پاکستان کے قبضہ والے کشمیر سے ہوکر گزرتا ہے، جہاں کچھ دن پہلے ہی طالبانی کمانڈر کی کھلی عدالت لگنے کی خبر ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو یہ سیپیک ہی نہیں، چین کی اکنامی کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔ سیپیک کے ذریعہ چین گلگت-بلتستان سے ہوتے ہوئے گوادر پورٹ تک اپنی پہنچ تو بنا چکا ہے۔ اس کے آگے وہ ون بیلٹ، ون روڈ منصوبہ کے ذریعہ وسطی ایشیائی ممالک تک پہنچنا چاہتا ہے۔ لیکن اس کا یہ خواب افغانستان کو اپنے بس میں کیے بغیر پورا نہیں ہوسکتا جہاں فی الحال حالات یہ ہیں کہ چین کو افغانستان کی آگ میں اپنا سارا سرمایہ خاک ہوتا نظر آرہا ہے۔
دوسرے ممالک کے مقابلہ پاکستان فی الحال بھلے ہی خود کو بہتر حالت میں دکھانے میں مصروف ہو، لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ اس کے ہاتھ کوئی لاٹری لگ گئی ہو۔ افغانستان پر طالبان کے مکمل قبضہ کے بعد پانسہ پلٹ بھی سکتا ہے۔ طالبان پہلے ہی پاکستان کو بتاچکے ہیں کہ وہ اپنے خیالات ان پر تھوپنے کی کوشش نہ کرے، یعنی اس مرتبہ طالبان سب کچھ اپنی شرائط پر کرنا چاہتے ہیں۔ افغان طالبان نے قندھار میں اسپن بولڈک نام کی جس اہم سرحد پر قبضہ کرلیا ہے، وہ بلوچستان میں کوئٹہ کے پاس چمن نامی جگہ میں ملتی ہے۔ افغان پناہ گزینوں کی زبردست دراندازی کے ڈر سے پاکستان کو مجبوری میں اس بارڈر کو سیل کرنا پڑا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کو گھر کے اندر سے بھی خطرہ ہے۔ پاکستان کے تحریک طالبان اور افغان طالبان میں نزدیکی کی پاکستان کو بڑی قیمت چکانی پڑسکتی ہے۔ افغان طالبان کا عروج تحریک طالبان کو طاقت دے گا جو پاکستان میں دہشت گرد گروہوں کو مزید سرگرم کرے گا۔ اس کا ایک نمونہ اسی ہفتہ نظر بھی آگیا جب تحریک طالبان نے پاکستانی فوج کو ہی اپنے نشانہ پر لے لیا۔ اس حملہ میں پاکستان کے 15فوجیوں کی موت ہوگئی، وہیں 60جوان اغوا کرلیے گئے۔ اس کے علاوہ کنسٹرکشن کے کام میں مصروف چینی انجینئروں پر بھی دہشت گردانہ حملہ ہوا تھا جو بتاتا ہے کہ طالبان کی آگ سے پاکستان بھی محفوظ نہیں ہے۔
ہندوستان کے نظریہ سے تو طالبان کا عروج کسی لحاظ سے اچھی خبر نہیں ہے۔ ملک کی شمالی سرحد پر چین، پاکستان کے ساتھ ہی ہندوستان کو اب ایک اور چیلنج سے دوچار ہونا پڑسکتا ہے۔ خاص طور پر کشمیر میں طالبان کے پرانے تجربات کو دیکھتے ہوئے ہندوستان کو مزید الرٹ رہنے کی ضرورت پڑے گی۔ طالبان-پاکستان کی سازباز نے کشمیر میں دہشت گردی کی فصل تیار کرنے میں کھاد-پانی کا کام کیا ہے۔ آئی ایس آئی نے جس جیش کو جنم دیا، اس کی پرورش کا کام طالبان نے ہی کیا۔ قندھار طیارہ اغوا(قندھار پلین ہائی جیکنگ) کو سیڑھی بناکر رہا ہوا جیش کا سربراہ مسعود اظہر طویل عرصہ تک طالبان کی خوراک پر پلتا رہا۔ لشکر کے سربراہ حافظ سعید کا بھی طالبان سے یارانہ پرانا ہے۔ طالبان سے وابستہ ایسی تقریباً 20دہشت گرد تنظیمیں ہیں، جن کے تار ہندوستان سے روس تک پھیلے ہوئے ہیں۔ اس لیے آرٹیکل 370 کے ہٹنے پر طالبان نے بھلے ہی کشمیر کو ہندوستان کا اندرونی مسئلہ بتایا ہو، لیکن گزشتہ تجربات کو دیکھتے ہوئے کشمیر پر اس کی رائے میں تبدیلی نہ آئے، یہ کہنا تھوڑا مشکل ہوگا۔
سال1996سے سال2001کے دوران کے ان پانچ سال سے متعلق افغانی عوام کے ذہن میں بھی کبھی نہ بھولنے والی کئی ڈراؤنی یادوں نے جگہ بنالی تھی۔ طالبان کے اقتدار سے ہٹنے کے بعد جب ملک میں جمہوریت کی ہوا چلنی شروع ہوئی تو لوگ بھی اس وقت کو بھولنے لگے۔ خواتین کو گھر سے باہر نکلنے اور یہاں تک کہ الیکشن لڑنے کی آزادی ملی۔ مذہب سے وابستہ پابندیوں میں ڈھیل آئی اور تعلیم، صحت جیسی بنیادی ضرورتوں کے ساتھ ہی ملک کی تعمیرنو کو جدید نظریہ ملا تو افغانستان نے بھی دنیا کے ساتھ قدم ملانے کے لیے قدم بڑھائے۔ افسوس کہ یہ سنہرا وقت ٹھہر گیا نظر آتا ہے اور پرانی ڈراؤنی یادیں پھر تازہ ہونے لگی ہیں۔ طالبان اپنے قبضہ والے علاقوں میں اپنے بنائے ہوئے اسلامی قوانین نافذ کرتے جارہے ہیں۔ ان علاقوں کے مقامی مذہبی لیڈروں سے 15سال سے زیادہ عمر کی لڑکیوں اور 45سال سے کم عمر کی بیواؤں کی فہرست طلب کی گئی ہے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ ان کے علاوہ وہ غیرمسلم لڑکیوں کو بھی پہلے اسلام میں داخل کریں گے اور پھر اپنے جنگجوؤں سے ان کی شادی کروائیں گے۔ بڑے بزرگوں کو ڈر ہے کہ یہ ان کی بیٹیوں کو غلام بنانے کی سازش ہے۔ کئی کیمپوں میں بے یارومددگار زندگی گزار رہی لڑکیوں-خواتین کو اپنے جنسی استحصال اور جسم فروشی میں دھکیلے جانے کا ڈر ستانے لگا ہے۔ ہندوستانی صحافی دانش صدیقی کا قتل بھی اسی طالبانی سوچ کی ایک نمائش ہے۔ بدقسمتی سے افغانستان میں جو صورت حال بن رہی ہے، اس میں آنے والے دنوں میں اس نمائش کی کئی شکلیں دکھنے کا اندیشہ ہے۔
اُپیندررائے
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)