سری نگر (صریر خالد/ایس این بی) : گجرات کی ایک عدالت نے ریاست کے’’اینٹی ٹیررزم اسکارڈ‘‘یا( اے ٹی ایس) کی جانب سے’’دہشت گرد‘‘قرار دے کر گرفتار کئے گئے کشمیری مسلم نوجوان کو رہا کردیا ہے، اس بدنصیب شخص کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے میں 11 سال لگے ہیں۔ عدالت نے کہا ہے کہ کسی بھی شخص کو محض انتشار پھیلنے کے ڈر سے گناہ گار نہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے۔
رعنا واری سری نگر کے بشیر احمد بابا 2010 میں ایک جرمن رضاکار تنظیم’’مایا فاؤنڈیشن‘‘کے تنخواہ دار کارکن کے بطور 15 دن کی خصوصی تربیت کے سلسلے میں گجرات گئے ہوئے تھے،جب انہیں وہاں اے ٹی ایس نے گرفتار کر لیا۔ مایا فاؤنڈیشن دیہی علاقوں کے اْن غریب بچوں کی جراحی کرواتی تھی، جن کے ہونٹ پیدائشی طور پرکٹے ہوئے (کلفٹ لپ) ہوتے ہیں۔ بشیر احمد فاؤنڈیشن کے’’مایا کِلفٹ سنٹر‘‘کے کیمپ کوآرڈی نیٹر تھے اور اسی عہدے کی تربیت کیلئے گجرات آئے ہوئے تھے، لیکن وہاں کے اے ٹی ایس نے اْنہیں حزب المجاہدین نامی جنگجو تنظیم کا رکن بتاکر گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا۔
گو بشیر کے خاندان نے کئی بار سری نگر سے گجرات تک کے اربابِ اختیار کے یہاں اپنے لڑکے کی بے گناہی کی دْہائی دی، یہاں تک کہ جموں وکشمیر پولیس نے بھی مقامی طور پراس کے جنگجوئیانہ سرگرمیوں میں کسی بھی طرح ملوث نہ ہونے کی گواہی دی، تاہم گجرات پولیس ٹس سے مس نہ ہوئی، یہاں تک کہ معاملہ عدالت پہنچا اور بشیر احمد11 برسوں کیلئے جیل کی کال کوٹھری کے باسی بن گئے۔بشیر کے گھر پہنچنے پر پھولے نہ سما پارہے اْن کے سیلز مین بھائی نذیر احمد بابا کہتے ہیں کہ یہ 11 سال جیل میں اْن کے چھوٹے بھائی کیلئے اور جیل کے باہران کے پورے خاندان کیلئے انتہائی تکلیف دہ ثابت ہوئے۔ وہ کہتے ہیں کہ اْن کے خاندان کیلئے قدرتی آفت کی طرح آئی اس مصیبت کے پیدا کردہ حالات سے نپٹنا قیامت سے گزرنے جیسا تھا، تاہم اب وہ اپنے بھائی کو گھرپر دیکھ کر انتہائی خوش ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کے وہ طویل 11 سال لوٹائے تو نہیں جاسکتے ہیں، لیکن شکر ہے کہ ہم نے جیتے جی اسے گھر پہنچتے دیکھا۔
گجرات پولیس نے بشیر احمد کو ’’دہشت گرد‘‘ثابت کرنے کیلئے اْن پر تعذیراتِ ہند کی دفعہ 120(B) یعنی ملک کے خلاف جنگ اور غیر قانونی سرگرمیوں کے انسدادی قانون (یو اے پی اے)کی دفعات نمبر 16,17,18,20 کے تحت مقدمہ بنایا تھا، تاہم دلیل اتنی بے بنیاد اور کمزور تھی کہ طوالت کے باوجود عدالت میں ٹِک نہیں سکی۔ چناچہ گجرات کے سیشن کورٹ نے بشیر احمد بابا کو سبھی الزامات سے بری کرتے ہوئے ان کی رہائی کے احکامات میں درج کیا ہے کہ استغاثہ جذباتی دلیل پر منحصر رہا، حالانکہ کسی شخص کو محض انتشار کے ڈر سے گنہگار نہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج ایس اے ناکْم نے اے ٹی ایس کے مقدمے کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسی کوئی شہادت نہیں ملی ہے کہ ملزم الیکٹرانک آلات کے ذریعہ دہشت گردوں کے رابطے میں تھا جیسا کہ اے ٹی ایس کا الزام تھا۔11 سال بعد اپنے گھر میں بزرگ والدہ کے پہلو میں بیٹھے بشیر احمد بابا کا کہنا ہے کہ وہ عملاً قیامت سے گزر کر آئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس دوران میں اْنہوں نے بہت برا جھیلا ہے، یہاں تک کہ اْنہوں نے گھر لوٹ پانے کی اْمید کھودی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ اْنہیں ابھی تک احساس نہیں ہے کہ بیتے 11 سالوں میں اْنہوں نے کیا کھویا ہے، بلکہ وہ یہ سب جاننے سے ڈر رہے ہیں۔ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ جب کسی کشمیری نوجوان کو بیرونِ ریاست ’’دہشت گردی‘‘کے الزام میں گرفتار کرکے برسوں بعد ’’بے گناہ قرار دیتے ہوئے باعزت بری ‘‘کیا گیا ہو۔ ایسی کئی مثالیں ہیں،جن میں ایک شمالی کشمیر کے ایک ایروناٹکل انجینئر کی ہے، جو ائیر ڈکن میں نوکری اختیار کرنے کے سلسلے میں دہلی میں تھے اور گرفتار ہوئے اور5 سال تک رہا نہیں ہو پائے، جب کہ طارق ڈار نامی ایک میڈیکل ری پرزنٹیٹو ایسے درجنوں معاملات کی ایک اور مثال ہیں۔ ڈار کو دہلی دھماکوں کا ’ماسٹر مائنڈ‘بتاکر گرفتار کیا گیا تھا اور اْنہیں تہار جیل میں 12سال گزارنے کے بعد ’’باعزت بری‘‘کیا گیا تھا۔
دہشت گردی کا الزام: ایک اور بے قصور مسلم نوجوان 11 سال بعد رِہا
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS