کوئی صورت نظر نہیں آتی: زین شمسی

0

زین شمسی

محمدسراج نے لنکا دہن کیا۔ بھارت کو ایشیا کا سرتاج بنا دیا۔ خود کے سر پر مین آف دی میچ کا تاج سجایا اور اپنے انعام کی رقم گرائونڈ مین کو یہ کہتے ہوئے دے دی کہ بارش کے دوران گرائونڈ کو درست رکھنے میں انتہائی مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ لوگ کافی محنت کرتے ہیں تب اتنے بڑے پروگرام کا انعقاد ہو پاتا ہے۔ محمد سراج کشمیری بھی ہے اور غریب بھی ہے مگر سب سے پہلے وہ ایک انڈین ہے اور حب الوطنی کا مظاہرہ اس کے عمل کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔ جس کشمیر کو سیاسی حاشیہ پر رکھنے کی کوشش ہوتی ہے وہی کشمیری نہ صرف بھارت کی جیت کی وجہ بنتا ہے بلکہ انسانیت کا بھی مظاہرہ کرتا ہے۔ نریندر مودی اسٹیڈیم کے پانی میں ڈوب جانے کی خبر رکھنے والے یہ بخوبی جانتے ہیں کہ بارش اور کرکٹ کے درمیان کی لڑائی میں میدان کا منیجمنٹ کتنا اہم ہوتا ہے، مگر یہ جے شاہ اور گوتم گمبھیر جیسے سیاسی کھیل پسندوں کے دماغ میں نہیں آسکتا اور نہ ہی سچن اور سہواگ جیسے امیر ترین کھلاڑیوں کی سمجھ میں آسکتا ہاں سہواگ کے دماغ میں یہ ضرور آسکتا ہے کہ ہندوستانی کرکٹ کی جرسی پر ٹیم انڈیا کی جگہ ٹیم بھارت کا لوگو ہو تو بھارت کا سمان بڑھے گا۔
شاہ رخ خان کی پٹھان حب الوطنی سے سرشار ہونے کے باوجود نفرتی گینگ کے نشانے پر اس لئے آتی ہے کہ فلم کا ہیرو مسلمان ہے۔ پٹھان کے مقابلے غدر2 کا شور اس لئے پیدا کردیا گیا کہ اس کا ہیرو بی جے پی کا سانسد ہے اور اکیلے ایک ہتھوڑا لے کر پاکستان میں سرجیکل اسٹرائیک کرتا ہے اور وہاں کی تمام آرمی کو تہہ وبالا کر دیتا ہے۔مگر جب شاہ رخ جوان لے کر آتا ہے تو اس کی مخالفت اس لئے شروع ہوجاتی ہے کہ اس فلم میں سسٹم کے پس پشت سرکار کے نکمے پن کو اجاگر کر دیا گیا۔ یہ ضرور ہے کہ گزشتہ 9سالوں میں سرکار پر ایسا حملہ نہیں ہوا تھا جیسا جوان کے ذریعہ کیا گیا، عوام کی مشکلات اور خدشات کو ظاہر کرنے کے عوض عوام نے اسے بھارت کی سب سے بڑی فلم بنا دیا۔ حکومت نے غدر 2 کی اسکریننگ پارلیمنٹ میں کر دی، کشمیر فائلز کو باقاعدہ دیکھنے اور دکھانے کا نظم کیا گیا مگر لچر ہوچکے سسٹم کی نشاندہی کرنے والے جوان پر ہر جگہ خاموشی رہی۔ یہاں تک کہ 72 حوروں پر میڈیا کے تمام اینکرز نے زوردار بحث کی مگر جوان پر ان کے ہونٹ تک نہ ہلے۔
روبیکا لیاقت ان اینکروں کی لسٹ میں ہیں جس پر انڈیا اتحاد نے پابندی لگا دی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ خود کو میاں جی کہنے والی اینکر نے جب مودی جی سے اب تک کا سب سے سخت سوال کیا تھا کہ آپ تھکتے کیوں نہیں تبھی سے وہ بھارت کی میڈیا کی سب سے مقبول جرنلسٹ بن کر ابھریں اور ارنب اور سدھیر کے مقابلے میں ان کا شمار ہونے لگا۔ جب انڈیا اتحاد نے ان کے اتنے بڑے قد کا سامنا کرنے سے انکار کردیا تب انہوں نے اپنی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ہم سوال کرنے سے ڈرتے نہیں ہیں۔ میڈیا کا کام سوال کرنا ہے اور اس کے لئے ہمیں جو بھی نقصان سہنا پڑے ،ہم سہیں گے۔ روبیکا نے پھر ایسے سخت سوالات کرنے شروع کئے کہ ایم آئی ایم اور دیگر خودساختہ ماہرین بھی بھونچکے رہ گئے کہ ان کا ہر سوال حکومت سے ہونا تھا مگر سوال کا رخ اپوزیشن کی طرف ہوجایا کرتا تھا۔
دیش میں پہلی بار ایسا ہوا کہ اپوزیشن نے میڈیا کا بائیکاٹ کیا جبکہ اپوزیشن کو سب سے زیادہ میڈیا کی ضرورت ہوتی ہے، مگر میڈیا کی حب الوطنی کا زمانہ شاہد ہے۔
مسلسل اسلاموفوبیا کے ماحول میں اچانک بھارت یہ بھی دیکھنے لگا کہ ہندوراشٹر کے تصور کے درمیان سناتن دھرم کو ہی آڑے ہاتھوں لیا جانے لگے گا۔ سناتن دھرم پر خطرہ اتنا بڑھ گیا کہ خود مودی جی کو ازخود اس کا نوٹس لیتے ہوئے کہنا پڑا کہ انڈیا اتحاد بھارت سے سناتن دھرم ختم کرنا چاہتا ہے۔ گویا اب تک مسلم آبادی بھارت پر قبضہ کرنے والی تھی مگر اب تو اپوزیشن ہی سناتن کو ختم کرنے لگا۔ ہے نا مزے کی بات۔ حب الوطنی اور سناتنی کی پیمائش یہ ہوگئی کہ جو لوگ بی جے پی اور سنگھ کے حامی ہیں وہی دیش پریمی اور سناتنی ہیں۔
بہت مشکل ہے بی جے پی کی سیاست کے لئے کہ وہ دھرم سے الگ ہو کر راجنیتی کرے جیسے ہی وہ اس سے الگ ہوگی ختم ہو جائے گی۔ اسی لئے سماج کو اپنے سیاسی مذہبیت کے جال میں پھنسا کر ہی وہ اپنی منزل پا سکتی ہے۔ عوامی ایشوز پر وہ چار خانے چت ہے۔ خواتین بل بھی ایک سیاسی حربہ ہے جو خواتین خاص کر دلت ایس سی ایس ٹی اور اقلیتی خواتین کو کمزور ترین مخلوق بنا دے گا۔qwr
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS