آئین بدلنے کی مذموم سازش

0

بھارتیہ جنتاپارٹی اپنے باقی ماندہ عہد حکمرانی کو حشر بداماں بنانے کی پوری کوشش کررہی ہے ۔ کبھی ایک ملک -ایک انتخاب کیلئے کمیشن قائم کیاجارہاہے تو کبھی انتخابی کمشنرکے اختیارات کم کرنے کیلئے قانون سازی کا ڈول ڈال رہی ہے تو کبھی ملک کی آدھی آبادی کو ریزرویشن کاکھلونا دور سے ہی دکھاکر مائل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اب خبر ہے کہ آئین کی تمہید سے لفظ ’سوشلسٹ ‘اور ’سیکولر‘ دونوں حذف کردیئے گئے ہیں۔
آج پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس میں خواتین کے ریزرویشن بل پر بحث سے پہلے لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر ادھیر رنجن چودھری اور ترنمول کانگریس کی رکن پارلیمنٹ ڈولا سین نے حکومت پر الزام لگایا کہ نئی پارلیمنٹ میں داخل ہوتے ہی انہیں آئین کاجو نیا نسخہ دیا گیا اس میں ’ سوشلسٹ ‘اور’ سیکولر‘ کے الفاظ نہیں ہیں۔یادرہے کہ منگل کو نئی پارلیمنٹ میں داخل ہوتے وقت تمام ارکان پارلیمنٹ کو بطور تحفہ ایک خصوصی کٹ دی گئی جس میں آئین کا ایک نسخہ بھی شامل تھا۔ ادھیر رنجن چودھری اور ڈولا سین دونوں کا ہی کہنا ہے کہ پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں انہیں موصول ہونے والے آئین کے اس نئے نسخہ سے سیکولر اور سوشلسٹ الفاظ کو ہٹا دیا گیا ہے۔تاہم حکومت کا کہناہے کہ ارکان پارلیمنٹ کو آئین کا وہ اصل نسخہ دیا گیا ہے جسے دستور ساز اسمبلی نے1946میں منظور کیا تھا اس وقت اس میں یہ دونوں الفاظ ’ سوشلسٹ ‘ اور ’ سیکولر‘ نہیں تھے۔ اپوزیشن کے پاس کوئی ایشو نہیں ہے اس لئے وہ بلاوجہ اس معاملہ کو طول دے رہاہے۔
اپوزیشن کا الزام اور حکومت کا جواب دونوں ہی اپنی اپنی جگہ درست اور ناقابل تردید ہیں کیوںکہ دستور ساز اسمبلی میں 13 نومبر 1946کو جب بابابھیم رائو امبیڈکر اوران کے رفقاکار کے تیار کردہ دستور کو پنڈت جواہر لعل نہرو نے پیش کیاتو اس وقت یہ دونوں الفاظ اس میں نہیں تھے ۔ ’سوشلسٹ ‘اور ’سیکولر‘ یہ دونوں الفاظ1976میں آئین کی 42ویں ترمیم کے ذریعہ شامل کئے گئے اور یہ آئین کا مستقل حصہ ہوگئے ۔ آج اگر ہندستان کے آئین کی تمہید سے یہ دونوں الفاظ حذف کردیئے جائیں اور 1946کے آئین کو اصل کہاجائے تو تکنیکی اعتبار سے درست ضرور ہوگا لیکن حقیقتاً یہ ایک کھلی ہوئی مکاری ہے جس کی توقع کسی حکومت سے نہیں کی جاسکتی ہے ۔ آج اگر آئین کا نسخہ تقسیم کرنے کی بات آئے گی تو وہی نسخہ تقسیم کیاجائے گا جو اب تک تقریباً سواسو ترمیمات سے گزر چکا ہے ۔ پرانا نسخہ تقسیم کرنے کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ بھارتیہ جنتاپارٹی کی حکومت آئین سے سردست وہ دونوں الفاظ ہٹانے کیلئے بے چین ہے‘ جو اس کے ہندوراشٹراور برہمن واد کے موذی نظریات پرکاری ضرب لگاتے ہیںاور وہ بے بس ہے ۔اسی بے بسی اور بے چینی کااظہار اس نے ’سوشلسٹ ‘اور ’سیکولر‘ کے بغیر آئین کا نسخہ تقسیم کرکے کیا ہے ۔
سوشلسٹ اور سیکولر ان دونوں نظریات سے بی جے پی یا اس کی سرپرست راشٹریہ سویم سیوک سنگھ(آرا یس ایس) کا اختلاف ہی نہیں بلکہ دشمنی بھی جگ ظاہر ہے ۔وہ ہندستان ’ ایسا بھارت‘ دیکھنے کی آرزومند ہے جہاں مساوات اور اخوات جیسے خوبصورت تصورات سے پاک صرف اور صرف ایک مخصوص فرقہ کے اعلیٰ طبقہ کی حکمرانی ہو ‘ جہاں نہ کسی کو سماجی ‘معاشی اور سیاسی انصاف مل سکے اور نہ ہی خیال، اظہار، عقیدہ، دین اور عبادت کی آزادی کاکوئی نقیب ابھرے۔فرد کی عظمت ‘ قوم کا اتحاد اور ملک کی سالمیت بھی اس کے نزدیک کوئی مقام نہیں رکھتی ہے ۔
ہزاروں ایسے واقعات اور بیانات ریکارڈ پر ہیںجن میں وزرا اور آرا یس ایس کے رہنمائوں نے ’ سوشلسٹ‘ اور’ سیکولر‘ جیسے الفاظ آئین سے نکال کر ملک کو ’ ہندوراشٹر‘ بنانے کا عہدکیا ہواہے ۔کئی ریاستوں کی نصابی کتابوںمیں شامل آئین کی تمہید سے یہ دونوں الفاظ ہٹاکر تجربات بھی کرچکی ہے لیکن باقاعدہ ان الفاظ کو آئین سے ہٹانا اس کیلئے اب تک ممکن نہیں ہو پایا ہے ۔اس لئے اس بار نئی پارلیمنٹ میں بلائے گئے خصوصی اجلاس کے دوران اصل نسخہ کے نام پر ’سوشلسٹ ‘ اور ’ سیکولر‘ کے بغیر آئین کانسخہ تقسیم کیااور اپنی بدنیتی کا کھلا اظہار کردیا ۔اگر حکومت کی نیت صحیح ہوتی اور اصل کاپی دکھانا ہی مقصود ہوتا تو اس کے ہزاروں دوسرے طریقے بھی ہوسکتے تھے، مگر ایسا نہیں حکومت کی نیت صاف نہیں ہے وہ کھل کر ان الفاظ کے خلاف کچھ کہنے سے کتراتی ہے لیکن در پردہ مکاری کی لگام تھامے ’اپنی منزل‘ تک پہنچے کی کوشش کر رہی ہے، یہ معاملہ بھی اسی کوشش کا ایک حصہ ہے۔ لیکن ہندستان کے عوام اب اتنے بھی سادہ لوح نہیں ہیں کہ وہ مکر و فریب ،دھوکہ اور دغا سے آئین بدلنے کی ہورہی مذموم سازش کو نہ سمجھ سکیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS