اگلے چھ مہینے قومی اور انتخابی سیاست کیلئے انتہائی اہم: عبدالسلام عاصم

0

عبدالسلام عاصم

آئندہ سال کے عام انتخابات کے نتائج اُن واقعات پر منحصر ہوں گے جو اگلے چھ مہینوں کے دوران مرتب یا رونما ہوں گے۔ کسی بھی اہم موضوع پر غور کرنے سے پہلے ہمیں اس ادراک سے لازمی طور پر گزرنا چاہیے کہ وطن عزیز میں ہم ایک ایسے خستہ حال معاشرے کا حصہ ہیں جس میں انسانی دکھوں کے خاتمے پر سوچ بچار کرنے کیلئے سماجی و سیاسی جلسے، دینی مجالس اور پارلیمانی اجلاس تو کامیاب ہوتے ہیں لیکن دکھوں کا خاتمہ نہیں ہوتا۔
دہائیوں پر محیط ایسے معاشرے میں کسی تنظیم، مجلس یا ملک کی قسمت کا انتخابی فیصلہ مٹھی بھر ’’باشعور‘‘ لوگ ہرگز نہیں کرتے۔ یہ فیصلہ وہ بھیڑ کرتی ہے جس پر قابو پانے کا بڑے پیمانے پر انتہائی شاطرانہ کاروبار کیا جاتا ہے۔ اس کاروبار میں ’’شاطر‘‘ سیاسی، سماجی، مذہبی و معاشی جماعتیں اپنے اپنے محدود مفادات کے ساتھ ایک دوسرے سے اشتراک کرتی ہیں۔ ایسی بھیڑ پر قابو پانے والے عناصر ملک اور قوم بشمول ملت کو نمائشی فائدہ پہنچا کر اپنا کام نکالتے ہیں۔ بہرحال ایسا نہیں کہ ایسی کسی بھیڑ کو اپنی طرف کرنے میں دو چار یا اس سے کچھ زیادہ موقعوں پر کامیاب جماعت یا محاذکو کبھی شکست نہیں ہوتی۔ مرکز میں کانگریس اور مغربی بنگال میں بایاں محاذ کی ایک سے زیادہ شکست ایسی ناکامیوں کی ترجمان ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کچھ حلقے بھیڑ کو ہمیشہ چوکنا کرنے کے نام پر اپنی طرف راغب کرتے رہتے ہیں اور اس میں وہ کبھی کبھی کامیاب بھی ہوتے ہیں۔ اس کی پہلے ملک گیر نظیر 1977 میں قائم ہوئی تھی اور ماضی قریب اور حال میں مشرق سے جنوب تک بعض اسمبلی انتخابات کے نتائج بھی ایک ہی رُخ پر مرتب نہیں ہوئے۔
کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ عام انتخابات کے محاذ پر 2014 کی طرح کایا پلٹ تبدیلی کا وقت بظاہر اب آ چلا ہے۔بباطن بہرحال ایسا نہیں لگتا۔ یعنی سیاسی ماحول میں ایسا کوئی خلفشار نہیں کہ انقلاب پسند حلقے ایک دم سے ’’کانگریس مکت باتوں‘‘ کی جگہ ’’بی جے پی مکت سیاست‘‘ کی بات چھیڑ دیں۔ ابھی سیاسی گنگا میں بہت پانی(خدا کرے خون نہیں) بہنا باقی ہے۔ عمل اور ردعمل کے انتخابی کاروبار میں ایک سے زیادہ برانڈ کی کشش بھنانے کے سب کے الگ الگ طریقے ہیں۔ آخر دم تک کوئی کسی سے ہار نہیں مانتا۔ اس سلسلے کے جاری سفر میں کچھ سال قبل ممتابنرجی اور چند ماہ قبل راہل گاندھی جس طرح کامیاب رہے، اُس نے سیاسی ماحول کی یک رنگی کو تو غیر یقینی ضرور بنا دیا ہے لیکن رنگا رنگی کا بکھرا ہوا ماحول ابھی پوری طرح منظم ہوتا نظر نہیں آتا۔ اِس لیے قطعیت سے نہیں کہا جاسکتا کہ آئندہ سال کے عام انتخابات کے نتائج کے رُخ پرحکمراں حلقہ اور اس کے مخالفین بھیڑمیں اپنے فائدے کیلئے کتنا شگاف ڈال سکیں گے۔
عصری منظر نامے کو بلا نقص سمجھنے کیلئے ایک نظر گزرے زمانے پر ڈالنا اور یہ سمجھنا ضروری ہے کہ قومی سیاست کی داخلی اور خارجی نوعیت سب کے یہاں مختلف ہوتی ہے۔ باوجودیکہ اس میں ایک توازن ہوتا ہے جو اِس فرق کو کسی ایسے تضاد میں نہیں بدلنے دیتا کہ دیکھنے والے انگلیاں اٹھانے لگیں۔ یہی وجہ ہے بیشتر ترقی پذیر ممالک بھی عالمی اور علاقائی سطح پر جن ناانصافیوں کو ناپسند کرتے ہیں، اُن کی وہ داخلی سطح پر اپنے یہاں بھی حوصلہ شکنی کرتے رہتے ہیں۔ ناوابستہ تحریک اگرچہ عملاً ایک ’’جانبدار تحریک‘‘تھی لیکن اس کے بیشتر ارکان بشمول ہندوستان نے کبھی کسی فائدے کیلئے ایسے کسی جذبے کا بے جا استحصال نہیں کیا جس کے بے قابو ہو جانے سے انسانی رشتوں کی پامالی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ وہ زمانہ امریکہ اور سابق سوویت یونین کے درمیان بٹی ذوقطبی دنیا کی صف آرائی کا زمانہ تھا۔
سابقہ صدی کے آخری عشرے میں جب سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے ساتھ غیر فطری یساری تحریک کو بھی زوال کا منھ دیکھنا پڑا، تواُس سے پیدا ہونے والے خلا کو خلافِ فطرت پُرکرنے کیلئے یمینی فسطائی تہذیب کو پھر سے سر اٹھانے کا موقع مل گیا۔ اس رجعت پسندانہ تبدیلی نے کئی قوموں بشمول ترقی پذیر ملکوں کی داخلی اور خارجی سیاست میں ہم آہنگی باقی نہیں رہنے دی۔ بر صغیر میں اس تضاد کو ہمارے ایک ہمسائے نے بباطن اپنے قیام کے پہلے دن سے ہی عملاً اختیار کر رکھا تھا۔ سوویت کا شیرازہ بکھرنے کے بعد جب یساری خرابیاں یمینی سیاست کی رگوں میں خون بن کر دوڑنے لگیں تو پاکستان نے اس خرابی کو بھی ہتھیار بنا کر کھیلنا شروع کر دیا۔
کہتے ہیں صالح صحبت سے زیادہ طالح صحبت کا اثر تیزی سے مرتب ہوتا ہے۔ سو وطن عزیز کا ماحول بھی اس سے اس قدر متاثر ہوا کہ سیکولرازم کا وجود مجلسی تذکروں تک محدود ہو کر رہ گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ عملی زندگی میں داخلی محاذ پر سیکولرازم کے نام نہاد علمبردار انتہائی محدود مفادات کی سیاست سے وقتی فائدہ اٹھانے کے اقتدار رخی کھیل میں ناقابل واپسی حد تک آگے بڑھتے چلے گئے۔ جب تک انہیں ممکنہ زیاں کا احساس ہونا شروع ہوا تب تک ان کی ہاں میں ہاں ملانے والی یساری پارٹیاں یکے بعد دیگرے ریاستوں میں دم توڑنے لگی تھیں۔ نئی الفی کا پہلا عشرہ گزرتے گزرتے ہارے ہوئے سیاسی جواریوں نے اپنی شکست کے ساتھ سمجھوتے کی راہ ڈھونڈنی شروع کر دی تھی۔ یہ راستہ 2014 میں پوری طرح ہموار ہو گیا۔
واقعاً فاتح کبھی مفتوح کو پلٹ کر وار کرنے کی تیاری میں مصروف دیکھنے کا متحمل نہیں ہوتا۔ سو نئی الفی کی نئی حکومت نے عوام رخی حکومتی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ کانگریس مکت سیاست بھی شروع کر دی۔ اس سیاست کا بازار اتنا گرم کیا گیا کہ منڈی میں افرا تفری مچ گئی اور سب ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں کہیں آپس میں متصادم ہونے لگے تو کہیں فاش غلطیاں کرنا شروع کر دیں۔ میڈیا کے ایک بڑے حلقے نے اگرچہ حکومتِ وقت کی ترجمانی میں پناہ ڈھونڈ لی لیکن بھلا ہو گلوبلائزیشن اور اطلاعاتی ٹیکنالوجی تک عام رسائی کا کہ بے ہنگم طور پر سرگرم حلقوں کی غیر ضروری عجلت کا فائدہ اُنہیں بھی پہنچنے لگا جو اپنی کاہلی سے نجات کے رخ پر کوشاں تھے۔ اس طرح اُن کی بھی کچھ چالیں درست بیٹھنے لگیں۔ کانگریس کی بھارت جوڑ یاترا کچھ اسی انداز میں اپنی ابتدائی کامیابی رجسٹرڈ کرا چکی ہے۔
2024 کے عام انتخابات کے نتائج کے تعلق سے بی جے پی کے اعلیٰ رہنما اورامورِ داخلہ و تعاون کے مرکزی وزیر امت شاہ کا جہاں خیال ہے کہ آئندہ عام انتخابات کی آزمائش سے بھی بی جے پی انتہائی کامیاب گزرے گی، وہیں کانگریس کے فعال رہنما راہل گاندھی کی نظر میں سیاسی منظرنامہ مبتدل ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ 2024 کے نتائج عوام کو چونکانے والے ہوں گے۔ انہیں یقین ہے کہ اپوزیشن کا متحدہ محاذ گزرتے وقت کے ساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جائے گا۔ دوسری طرف وزیر داخلہ کا اندازہ یہ ہے کہ اپوزیشن بالخصوص کانگریس کا رویہ منفی ہے۔ ان کا اشارہ نئی پارلیمانی عمارت کے افتتاح کے تعلق سے کیے جانے والے اعتراضات کی طرف تھا۔ اس افتتاح کا جس جواز کے تحت بائی کاٹ کیا گیا تھا۔ اُس جواز کو بے معنی بتانے کی حکومت کی کوشش اور بھنانے کے اپوزیشن کے موقف کا بازار اُسی طرح گرم کیا جا رہا ہے جس طرح نفرت کا بازار گرم کیا گیا تھا۔ حکمراں اور اپوزیشن دونوں ہی حلقے عوام سے مخاطب ہیں، کیونکہ عوامی ردعمل میں ہی دونوں کی کمائی اور خسارہ ہے۔ اس لحاظ سے جاری سال کے باقی چھ ماہ حکمراں حلقے اور اپوزیشن دونوں کیلئے انتہائی اہم ہیں۔ دونوں حلقے عوام کو اپنی طرف سے فائدہ اور دوسرے کی طرف سے نقصان دکھانے کی برقی اور غیر برقی کوششوں میں رات دن سرگرداں رہیں گے۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ کانگریس اگرچہ سابقہ ایسے دو موقعوں کے مقابلے میں بہتر پوزیشن میں ہے لیکن اس کے اندر ابھی اتنی طاقت نہیں آئی کہ وہ تنہا بی جے پی سے لوہا لے سکے۔ دوسری طرف بی جے پی بھی اب ہر بات منوانے کی پوزیشن میں نہیں، اسے کچھ باتیں مان کر چلنا پڑ رہا ہے۔ ایسے میں آئندہ سال کے وسط سے پہلے کانگریس، ترنمول کانگریس، بی آر ایس، عام آدمی پارٹی اور سماجوادی پارٹی کی سیاست اتنی محوری ضرور ہو جائے گی کہ حکمراں پارٹی کو اس کا اب اور جذباتی نہیں، مدبرانہ نوٹس لینا ہوگا۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS