نئے فوجداری قوانین یا استعماری آمریت کا ہتھیار

0

ترنمول کانگریس کی سپریمو اور مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتابنرجی کا کہنا ہے کہ مجوزہ انڈین جسٹس کوڈ چور دروازے سے نوآبادیاتی دور کی سختیوںکو واپس لانے کی کوشش ہے۔وزیراعلیٰ کا کہنا ہے کہ وہ مرکزی وزارت داخلہ کے ذریعہ تعزیرات ہند کی جگہ تیار کیے گئے ضابطۂ فوجداری اور قانون شہادت کی مختلف دفعات کو پڑھنے کے بعد حیران ہوگئی ہیں۔اس نئے قانون میں خاموشی سے انتہائی سخت اور شہری مخالف دفعات متعارف کرانے کی سنجیدہ کوشش کی گئی ہے۔ اس سے پہلے بغاوت کا قانون تھا۔ اب ان دفعات کو واپس لینے کے نام پر مزید سخت اور من مانی اقدامات متعارف کروا ئے گئے ہیں جو شہریوں کو زیادہ شدیدطور پر متاثر کرسکتے ہیں۔وزیراعلیٰ ممتابنرجی نے یہ بھی کہا ہے کہ تجربات کی روشنی میں قوانین کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، لیکن نوآبادیاتی آمریت کو بیک ڈور انٹری کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ انہوں نے ملک کے قانون دانوں اور عوامی کارکنوں سے اپیل کی ہے کہ وہ فوجداری نظام انصاف کے میدان میں جمہوری شراکت کیلئے ان مسودوں کا سنجیدگی سے مطالعہ کریں۔ تجربات کی روشنی میں قوانین میں اصلاحات کی ضرورت ہے، لیکن استعماری آمریت کو پچھلے دروازے سے دہلی میں داخل نہیں ہونے دیا جانا چاہیے۔
یاد رہے کہ تعزیرات ہند1860، ضابطۂ فوجداری1898اور قانون شواہد 1872 کی جگہ مرکزی وزارت داخلہ کیلئے تین نئے قوانین بھارتیہ نیائے سنہتا بل 2023، بھارتیہ شہری تحفظ سنہتا بل 2023 اوربھارتیہ ساکشیہ بل 2023متعارف کرانے کی تیاری کرچکی ہے۔ یہ بل ایوان میں پیش کیے گئے تھے لیکن بعض وجوہ کی بنا پر انہیں پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو بھیجنا پڑا۔بلوں کو پیش کرتے ہوئے وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا تھا کہ ان تین نئے قوانین کا بنیادی مقصد آئین کے ذریعے شہریوں کو دیے گئے تمام حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انگریزوں کے دور کے قوانین اپنی حکمرانی کو مضبوط اور تحفظ دینے کیلئے بنائے گئے تھے اور ان کا مقصد انصاف دینا نہیں بلکہ سزا دینا تھا۔ تین نئے قوانین کی بنیادی روح ہندوستانی شہریوں کو آئین کی طرف سے دیے گئے حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔ مقصد کسی کو سزا دینا نہیں بلکہ انصاف فراہم کرنا ہوگا۔ امت شاہ نے کہا کہ 18 ریاستوں، چھ مرکز کے زیرانتظام علاقوں، ایک سپریم کورٹ، 16 ہائی کورٹس، پانچ عدالتی اکیڈمیوں، 22 لاء یونیورسٹیوں، 142 ممبران پارلیمنٹ، تقریباً 270 ایم ایل اے اور لوگوں نے ان نئے قوانین کے بارے میں اپنی تجاویز دیں۔گہرے مباحثے اور 158 اجلاس کے بعد یہ بل لایاگیا ہے۔اب یہ باقاعدہ بل کی شکل میں عوام الناس اور قانون سے دلچسپی رکھنے والوں کیلئے جاری کیاگیا ہے، جن پر مختلف طبقات کی جانب سے الگ الگ تبصرے سامنے آرہے ہیں۔
یہ درست ہے کہ ہندوستان کے فوجداری نظام انصاف میں اصلاحات کیلئے بنائی گئی مختلف کمیٹیوں نے وقتاً فوقتاً کچھ سفارشیں بھی کررکھی ہیں اور ان کے مطابق ان میں ترمیم بھی کی جاچکی ہے۔ان ہی سفارشات کے مطابق فوجداری انصاف میں شامل مختلف ایجنسیوں جیسے پولیس، عدلیہ، استغاثہ وغیرہ کے درمیان ہم آہنگی اور تعاون کو بہتر بنانے نیز فوجداری انصاف کے ہر مرحلے پر انسانی وقار اور انسانی حقوق کے احترام کو یقینی بنانے کیلئے کئی نئی دفعات بھی شامل کی جاچکی ہیں۔ لیکن نظام عدل و انصاف سے وابستہ افراد کار اور نہ ہی عدالتوں نے ہی کسی نئے قانون کی ضرورت کا اظہار کیا ہے۔ اس کے باوجود اگر حکومت اس پر مصر ہے تو اس کا مقصد وہ نہیں جس کا اظہار ایوان میں وزیرداخلہ کررہے ہیں۔اس کے پس پردہ عزائم کچھ اور ہیں۔قانون بنائے جانے کیلئے تیار کردہ بل میں واضح خامیوں اور بین السطور معنی و مفاہیم سبھی کو گربہ کشتن روز اول کے مصداق پہلے ہی مرحلے میں درست کر لیا جانا چاہیے۔ورنہ اگر یہ بل ایک بار باقاعدہ قانون بن گئے تو یہ حکومت کے ہاتھوں میں ایسا ہتھیار ثابت ہوں گے جن سے اپنے مخالفین کا سر قلم کرنے سے بھی نہیں ہچکچائے گی۔
مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتابنرجی صرف سیاست داں ہی نہیں بلکہ ایک قانون داں بھی ہیں، انہوں نے باقاعدہ قانون کی تعلیم حاصل کررکھی ہے اور قانونی موشگافیوں سے بھی اچھی طرح واقف ہیں۔ نئے قوانین پر ان کی رائے کو سرسری نہیں لیاجاناچاہیے بلکہ وزیراعلیٰ ممتابنرجی نے ان تینوں قوانین میں موجودجن خامیوں کو اجاگر کیاہے، ان پر سنجیدگی سے غور کرتے ہوئے ان کے متبادل تجویز کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعلیٰ نے یہ بجاطورپرکہا ہے کہ ہندوستان میں ’آمریت‘ کیلئے ان قوانین کے ذریعہ حکومت چور دروازے کھول رہی ہے۔ ویسے بھی یہ حقیقت ہے کہ حکومت اور آئینی ادارے اگر کسی فرد یا جماعت سے دشمنی پر اتاروہوجائیں تو قانون کے ہرسقم سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور اپنی منمانی کرگزرتے ہیں۔ بھارتیہ جنتاپارٹی کی نیت بھی سب کے سامنے کھلی ہوئی ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS