کانگریس کی ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ کے جتنی ہنگامہ خیز ہونے کی قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں ، اتنی ہی پرسکون رہی۔ میٹنگ میں نہ تو انفرادی طور پر لیڈروں کے تیور نظر آئے اورنہ اجتماعی طورپر گروپ 23 کے۔ صحیح معنوں میں کسی کے تیور نظر آئے تو وہ پارٹی کی عبوری صدر سونیا گاندھی ہیں، جنہوں نے خود کو کل وقتی صدر بتاکر تمام مخالفین کامنہ بند کردیا اوربڑی خوبصورتی سے تنظیمی انتخابات کو اگلے سال تک موقوف بھی کردیا،کیونکہ ورکنگ کمیٹی نے تنظیمی انتخابات کے طویل مرحلے کا اعلان کرتے ہوئے اگلے سال 20ستمبر تک ہی منتخب صدر ملنے کی بات کہہ دی ۔پنجاب میں جس طرح کانگریس نے وزیر اعلیٰ اورتنظیمی عہدیداران کو تبدیل کیا ،اس سے لگ رہاتھا کہ پارٹی قیادت کے کام کرنے کا انداز بدل گیا لیکن ورکنگ کمیٹی میں تیور بھی بدلے بدلے نظر آئے،جس سے پتہ چلتا ہے کہ آگے پارٹی میںحکومتی اورتنظیمی سطح پر بڑے پیمانے پر تبدیلی ہوسکتی ہے ۔سونیاگاندھی کی یہ بات غورطلب ہے کہ 2019 میںانہیں عبوری صدر کی حیثیت سے کام کرنے کی ذمہ داری ورکنگ کمیٹی نے سونپی تھی ، لیکن انہوں نے کل وقتی صدر کی حیثیت سے سب کو ساتھ لے کر چلنے اور پارٹی کو مضبوط کرنے کی ذمہ داری بخوبی نبھائی ۔ یہ ایک طرح سے پچھلے 2برسوں میں پارٹی کی طرف سے کئے گئے تمام فیصلوں پر مہر ہے ۔ سب سے بڑی بات انہوں نے یہ کہی کہ جس لیڈر نے جو کہا ، اس کو انہوں نے سنا اوراس پر توجہ دی لیکن عوامی پلیٹ فارم یا میڈیا کے توسط سے تنظیمی امور نہیں اٹھائے جاسکتے۔ یعنی جو لیڈران عوامی سطح پر تنظیمی امور اٹھاتے ہیں ، ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔ پارٹی کے ایشوز پارٹی کے اندر اٹھائے جائیں۔ ان کی یہ بات گروپ 23- کے لئے انتباہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
تنظیمی انتخابات کی جس مانگ پر میٹنگ ہوئی تھی،اس پر بھی کانگریس کی صدر نے ایساجواب دیا کہ کوئی کچھ نہیں بول سکا، ان کا کہنا تھاکہ تنظیمی انتخابات کا مطالبہ ہر طرف سے کیا جارہا ہے اورسب کے اپنے اپنے جذبات اورخواہشات ہیں، پارٹی کی مضبوطی کے لئے یہ انتخابات ہونے چاہئیںلیکن اس سے پہلے تمام لیڈروں اورکارکنا ن کو ذاتی مفادات سے اوپراٹھ کر پارٹی کے مفادات کے لئے کام کرنا ہوگا ۔تقریباًایسی ہی بات 2019 لوک سبھا انتخابات میں ہار کے بعد پارٹی کی صدارت سے استعفیٰ دیتے ہوئے راہل گاندھی نے کہی تھی ۔انہوں نے پارٹی ورکنگ کمیٹی کو بھیجے گئے مکتوب میں کہا تھا کہ کانگریس میں طاقتور لوگ اقتدار سے چپکے رہنا چاہتے ہیں،کوئی اقتدار کی قربانی دینے کی ہمت نہیں کرتا۔ ہمیں اقتدار کی چاہت کے بغیر قربانی اور گہری نظریاتی لڑائی لڑنے کی ضرورت ہے، اس کے بغیر ہم مخالفین کو شکست نہیں دے پائیں گے۔ سونیا گاندھی نے جہاں مخالفین کو دوٹوک جواب اورمرکز کی پالیسیوں پر تنقید کرکے ٹھوس پیغام دیا وہیں راہل گاندھی نے اپنی تقریر میں مستقبل کیلئے پارٹی کی سمت اورجہت طے کردی ۔
اس وقت کانگریس میں جس مسئلہ پر سب سے زیادہ ہنگامہ برپاہے ، وہ کل وقتی صدر کا انتخاب ہے۔وہ چہرہ توکھل کر سامنے نہیںآیا لیکن اس بات کے اشارے ضرور ملے کہ چہرہ بھلے ہی بدل جائے لیکن آگے بھی پارٹی صدارت نہرو۔ گاندھی کنبے میں رہے گی جو 39برسوں تک یہ ذمہ داری سنبھال چکا ہے،بلکہ راہل گاندھی نے صاف صاف کہہ دیا کہ اگر ان پرزیادہ دبائو ڈالا گیا تو وہ ذمہ داری نبھانے کیلئے تیارہیں۔ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ کی باتوں اور قیادت کے حالیہ اقدامات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ پارٹی آگے نظریاتی پہچان کو بحال کرے گی اسی کے ذریعہ مضبوطی سے اپنی لڑائی لڑے گی۔ سوچ اورعزائم نئے ہوں گے۔جو بھی صدر بنے گا اس کی نئی ٹیم اورنئی انرجی ہوگی۔ پرانی ٹیم اورپرانے چہروں کی اجارہ داری نہیں ہوگی ۔ نظریات وپالیسی سے سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا ۔اس کی ہلکی سی جھلک پنجاب میں نظر آچکی ہے۔ آگے دیگر ریاستوں میں بھی نظر آئے گی۔جب پارٹی کی قیادت گاندھی کنبے میں رہے گی، کوئی اورجانشین نظر نہیں آرہا ہے تو راہل گاندھی ۔ پرینکاگاندھی کے ذریعہ ہی سارے فیصلے لئے جائیں گے۔ اس طرح ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ سے حالات تو نہیں بدلے البتہ مخالفین ایک بار پھر حاشیہ پر چلے گئے ۔ان کو وہ کامیابی نہیں ملی جس کیلئے میٹنگ کا پرزورمطالبہ کررہے تھے۔ کام کرنے کے طریقے اور انداز میں تبدیلی تو دیکھ ہی رہے تھے اب میٹنگ سے تیور بھی سامنے آگئے۔
[email protected]
کانگریس کے نئے تیور
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS