عبدالسلام عاصم
قومی سطح پر بی جے پی کے خلاف حزب اختلاف کی نئی صف کے امکانات کو سیاسی تجزیہ کار نہ تو دو ٹوک مسترد کر رہے ہیں، نہ ہی انہیں ایسا لگ رہا ہے کہ ترنمول کانگریس مستقبل قریب میں ہی کانگریس کی جگہ لے لے گی۔ اترپردیش، پنجاب اور دوسری ریاستوں کے اسمبلی انتخابات سے عین قبل مرکزی حکومت نے ایک طرف جہاں تینوں متنازع زرعی قوانین واپس لے کر کسان تحریک کی شدت پر قابو پانے کی کوشش کی، وہیں پارلیمنٹ میں ان قوانین کے سقوط کی تصدیق کے موڑ سے حکومت کا غیر جمہوری طریقے سے گزرنا ایک سے زیادہ حلقوں کو پسند نہیں آیا۔ میڈیا کے ساتھ بھی اس حوالے سے حکومت کی ٹھن سی گئی ہے۔سیاسی حالات کے ایسے موڑ پر ترنمول رہنما اور مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی کے بنگال سے باہر تازہ سیاسی دورے نے سیاسی تجزیہ کاروں کو اُلجھا کر رکھ دیا ہے۔
ممتا بنرجی کے تازہ بیانات کا حاصل اگر درکار قومی سیاست میں کانگریس کی محوری حیثیت کی نفی ہے تو یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں۔ ایک متعلقہ ریمارک پر کانگریس کے رہنماؤں کا ردعمل مظہر ہے کہ پارٹی اپنی بقا اور سیاسی بدل بن کر ابھرنے کے اقدامات سے کہیں زیادہ الزامات میں گھر کر رہ گئی ہے۔ایسے میں بظاہرمحترمہ بنرجی وہ راستہ ہموار کرتی نظر آرہی ہیں جس پر سے کبھی کانگریس گزرتی تھی۔تو دوسال میں کیا یہ راستہ ہموار ہو جائے گا! یا مفادات کی سیاست کی جداگانہ کشش ایسا نہیں ہونے دے گی!!اس کا اندازہ آنے والے چند مہینوں میں ہوجائے گا۔ ممتا بنرجی کے اشارے اتنے غیر واضح نہیں کہ بی جے پی اور کانگریس دونوں اس کا بالکل جدا جدا مفہوم نکال لیں اور ان میں سے کوئی ایک دم سے مات کھا جائے۔ اصل میں کانگریس نے، جس کے نام نہاد سیکولرعہد میں عدم رواداری کو فروغ حاصل ہوا، حالیہ دنوں میں کچھ ایسا چولا بدلا ہے کہ دیکھنے والے حیران اور یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اسے ملک عزیز ہے یا چند رہنماؤں کی سیاسی پہچان۔
محترمہ بنرجی نے بی جے پی کے خلاف زیر تبصرہ محاذ کے حوالے سے راست طور پر نہ تو متحدہ ترقی پسند محاذ(یو پی اے) کی بات کی، نہ ہی کرنے والے کو بالواسطہ اس کی اجازت دی۔ ان کا یہ کہنا کہ یو پی اے کیا ہے! تھوڑی دیر کیلئے موقع پر موجود بزرگ سیاستداں شرد پوار کو بھی حیران کر گیا تھا لیکن انہوں نے محترمہ کی طرف دیکھے بغیر بات آگے بڑھا دی تھی۔ جان تو وہ بھی رہے تھے کہ سچ کیا ہے۔ اس کے بعد محترمہ بنرجی نے بھی چابکدستی سے کام لیتے ہوئے اپنی باتوں کی یوں تفہیم کر دی کہ فسطائیت سے چونکہ کوئی نبرد آزما نہیں اس لیے ایک مضبوط متبادل سامنے لایا جانا چاہیے۔ ان کا یہ کہنا ڈرائنگ روم کی سیاست سے زیادہ عملی سیاست کا مظہر تھا کہ جو جس جگہ مضبوط ہے، وہیں سے مقابلہ کرے۔ گویا مہاراشٹر میں شرد پوار کی قیادت کی تائید کی جائے۔
تو کیا ممتا واقعی کانگریس کی محوری حیثیت کے بغیر کوئی متبادل سامنے لانا چاہتی ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ان کی باتوں کا سیاق و سباق سے ہٹ کر مفہوم نکالا جائے تو ایسا لگے گا جیسے وہ کانگریس کو جلا ہوا کارتوس سمجھتی ہیں لیکن ایسا ہے نہیں۔ وہ ایک کمزور گھر کو جو کبھی ان کا آشیانہ تھا، گرانا نہیں سنبھالنا چاہتی ہیں۔ ان کی یہ کوشش اگر کسی سمجھدار یا نادان کو سمجھ میں نہ آئے تو یہ سمجھانے کیلئے آئندہ کے دوسال انتہائی ناکافی ہیں۔البتہ فائنل انتخابی مقابلے میں بی جے پی کو ٹکر دینے والی ٹیم کی کپتانی کی کانگریس اگر متحمل نہیں تو باقی اسٹیک ہولڈروں کے اس سے اتفاق نہ کرنے سے بھی پوزیشن نہیں بدلے گی۔ ٹیم کے اندر کوئی ذیلی ٹیم بنا کر لڑنا چاہے تو اس کا علاج گیلری میں بیٹھ کر نہیں کیا جا سکتا، صرف نتیجہ پہلے سے اخذ کیا جا سکتا ہے۔
ممتا بنرجی نے بنگال میں جب بائیں بازو کی بڑی چھوٹی جماعتوں کو اقتدار کی دہلیز تک پہنچنے کی دوڑ میں شکست دی تھی تو اس وقت وہ ریاستی اور علاقائی سطح پر اپنی صلاحیت کو منوانے میں کامیاب ہوئی تھیں۔ اُن مقابلوں میں مد مقابل مرکز نہیں تھا لیکن سابقہ اسمبلی انتخابات میں چو طرفہ یلغار کا سامنا کرتے ہوئے انہوں نے دوڑنے کی جگہ اپنے پاؤں کی چوٹ کو جس طرح جذباتی انداز میں بیلیٹ پیپر کے ذریعہ بھنایا، اُس کی عصری انتخابی تاریخ میں کہیں کوئی نظیر نہیں ملتی۔
سیاسی حلقوں میں عام خیال یہ ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں محترمہ بنرجی اپوزیشن کی محاذی رہنما کے طور پر حکمراں جماعت اور اتحاد سے لوہا لینے کیلئے میدان میں اتر سکتی ہیں۔ اس کیلئے بہر حال انہیں بنگال سے باہر اپنی پارٹی کی باقاعدہ قومی پہچان قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ غالباً اسی ضرورت کی تکمیل کیلئے انہوں نے ایک سے زیادہ ریاستوں کے دورے تک اپنی سرگرمیاں محدود نہیں رکھیں بلکہ پارٹی کے بیرون بنگال قدم جمانے کے اقدامات بھی کر رہی ہیں۔اب تک ان کی پارٹی میں شامل ہونے والوں میں نہ صرف بچھڑنے والوں کی واپسی نظر آئی بلکہ نئے لوگ بھی شامل ہوئے ہیں جن میں زیادہ تر کا کل تک تعلق کانگریس سے تھا۔ ابھی گزشتہ ہفتہ قومی راجدھانی دہلی میں محترمہ بنرجی نے جب بی جے پی کے خلاف اپنی لڑائی کا دائرہ وسیع کرنے کا واضح عندیہ دیا تھا تو خواہاں سیاسی لیڈر کو ترنمول کانگریس میں شامل ہونے کی کھلی دعوت بھی پیش کی تھی۔
تیزی سے رونما ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کے موڑ پر کسی بھی معاملے میں فوراً نتیجے پر پہنچ جانے والے اکثر کسی کے ردعمل یا تاثر میں وہ باتیں بھی پڑھ لیتے ہیں جو ان کے اپنے ذہن میں ابھرتی ہیں۔ ایسا ہی ان کے دہلی کے دورے میں اس وقت ہوا جب کانگریس کی سربراہ سونیا گاندھی کے ساتھ اُن کی ممکنہ ملاقات کے بارے میں بار بار پوچھے جانے پرمحترمہ نے یہ کہہ دیا کہ کیا یہ ملاقات ’’لازمی‘‘ ہے۔ اس مختصر جواب کے کئی لکھاریوں نے تو قلم برداشتہ افسانے گڑھ لیے۔حالانکہ ایسا ہر گز نہیں محترمہ بنرجی سونیا گاندھی کا بے حد احترام کرتی ہیں۔
قومی سیاست میں آنے والے دنوں میں حکمراں حلقہ اقتدار کی بقا کیلئے زرعی قوانین کے سقوط کے بعد اور کیا قدم اٹھا سکتا ہے، اس کا اندازہ اسمبلی انتخابات کے نتائج پر منحصر ہے۔ اگر یوپی میں یوگی جی کامیاب ہوئے سیاسی فیصلے کچھ اور ہوں گے اور اگر اس حساس ریاست میں بی جے پی بس اپنی حکومت بچا پائی تو سیاست کا رُخ کچھ اور ہوگا۔ دیکھنا ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں ملک اور عوام کے مفادات کو کتنا ترجیح دیتی ہیں اور اپنے محدود مفادات کا کتنا پاس رکھتی ہیں۔ اکثریت اور اقلیت کی سیاست کھیلنے کی امداد باہمی والی حکمت عملی اس مرتبہ بھی کامیاب رہی تو ووٹ ڈالنے والے قطار سے نکل کر پھر اُن صفوں میں بٹ جائیں گے جس کی سیاست سیکولر عہد سے جاری ہے۔ بصورت دیگر کوئی ایسی تبدیلی بھی آسکتی ہے جو ملک و قوم کے مفاد میں امداد باہمی کیلئے اقتدار گنوانے اور پانے والوں کو مشترکہ طور پر راس آئے۔بہتر ہے کہ اچھا ہی سوچا جائے تاکہ کوئی آزمائش سامنے آئے تو دماغ پہلے سے بوجھل نہ ہو۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]