نیلم مہاجن سنگھ
آج کے تناظر میںدنیا ایک ’گلوبل ولیج‘ ہے اور ’واسودیو کٹمبکم‘ نے تو دنیا کو ایک کنبہ میں بیان کیا ہے۔ عالمی سطح پر وزیر اعظم نریندر مودی کی ذاتی کوششوں سے ہندوستانی خارجہ پالیسی نے ایک نئی جہت حاصل کی ہے۔ اس میں ڈاکٹر ایس سبرامنیم، وزیر خارجہ کے سابق سکریٹری خارجہ ہونے کا تجربہ بھی مددگار ہے۔ ہندوستان یکم دسمبر 2022 سے 30 نومبر 2023 تک G-20 کی صدارت کرے گا۔وفودکے 43 سربراہان ،G-20 میں،اب تک کے سب سے بڑی سربراہی کانفرنس میں حصہ لیں گے۔’نان الائن مومنٹ(نام)‘ کی اب اہمیت کمزور ہوگئی ہے۔
G-20 گروپ کیا ہے اور ہندوستان کے لیے اس کی صدارت کی کیا اہمیت ہے:
حال ہی میں وزیر اعظم نریندر مودیG-20 سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے ارجنٹینا گئے تھے۔ دارالحکومت بیونس آئرس میں منعقدہ 13 ویںG-20 سربراہی اجلاس میں اس گروپ کے ممالک کے رہنماؤں کی میٹنگ ہوئی اور اب تک ہوئے کاموں کا جائزہ لیا گیا۔
G-20 سربراہی اجلاس آخر کیا ہے اور اس میں کیا کام شامل ہیں:
ستمبر 1999 میں، G-7ممالک کے وزرائے خزانہ نے G-20کی تشکیل ایک بین الاقوامی فورم کے طور پر دی تھی۔ یہ فورم بین الاقوامی مالیاتی استحکام کو برقرار رکھنے کے ساتھ ’برٹین ووڈس انسٹی ٹیوشنل سسٹم‘ کے فریم ورک کے اندر آنے والے منظم اہم ممالک کے درمیان غیر رسمی بات چیت اور تعاون کو فروغ دیتا ہے۔ یہ گروپ (G-20) اپنے اراکین کے بین الاقوامی اقتصادی تعاون اور اہم بین الاقوامی ایشوز پر فیصلہ سازی کا سینٹرل فورم ہے۔ اس میں 19 ممالک اور یوروپی یونین شامل ہیں۔ G-20 کے رہنما سال میں ایک بار میٹنگ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ گزشتہ سالوں کے دوران ممالک کے وزرائے خزانہ اور مرکزی بینک کے گورنر، عالمی معیشت کو مضبوط بنانے، بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور مالیاتی ضابطوں میں اصلاحات لانے اور ہر رکن ملک میں درکار اہم اقتصادی اصلاحات پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے باقاعدگی سے تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ ان میٹنگوں کے علاوہ مخصوص مسائل پر پالیسی کوآرڈینیشن پر کام کرنے والے سینئر حکام اور ورکنگ گروپس کے درمیان سال بھر چلنے والی میٹنگیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ G-20کا آغاز 1999 میں ایشیا میں آئے مالیاتی بحران کے بعد وزرائے خزانہ اور سینٹرل بینک کے گورنروں کے اجلاس کے طور پر ہوا تھا۔ G-20 رہنماؤں کا پہلا سربراہی اجلاس 2008 میں منعقد ہوا تھا اور اس گروپ نے عالمی مالیاتی بحران کا جواب دینے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ اس کے فیصلہ کن اور مربوط اقدام نے صارفین اور کاروباری اعتماد کو تقویت بخشی اور معاشی بحالی کے پہلے مرحلے کی حمایت کی۔ 2008 کے بعد سے G-20کے رہنما آٹھ بار میٹنگ کر کے G-20 مالی استحکام بورڈ’، بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ، اقتصادی تعاون اور ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن، ورلڈ بینک اور ورلڈ آرگنائزیشن کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔ کئی دوسری تنظیموں کو بھی بڑے G-20 اجلاسوں میں شرکت کے لیے مدعو کیا جاتا ہے۔ G-20کے اراکین عالمی جی ڈی پی کا تقریباً 85 فیصد، عالمی تجارت کا 75 فیصد، اور دنیا کی دو تہائی سے زیادہ آبادی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ رکن ممالک کے نام: ارجنٹینا، آسٹریلیا، برازیل، کینیڈا، چین، فرانس، جرمنی، ہندوستان، انڈونیشیا، اٹلی، جاپان، ری پبلک آف جمہوریہ کوریا، میکسیکو، روس، سعودی عرب، جنوبی افریقہ، ترکیہ، برطانیہ، امریکہ، یورپی یونین ہیں۔
G-20سربراہی اجلاس کی تاریخ:
14-15 نومبر 2008 واشنگٹن، امریکہ؛ 2 اپریل 2009 لندن، برطانیہ؛ 24-25، ستمبر 2009 پٹسبرگ، امریکہ؛ 26-27جون، 2010 ٹورنٹو، کناڈا، 11-12، نومبر، 2010 سیول، جنوبی کوریا، 3-4، نومبر، 2011 کینز، فرانس؛ 18-19 جون، 2012 لاس کیبوس، میکسیکو، 5-6، ستمبر، 2013 سینٹ پیٹرزبرگ، روس؛ 15-16 نومبر، 2014 برسبین، آسٹریلیا؛ 15-16 نومبر، 2015 انطالیہ ترکیہ؛ 30 نومبر-یکم دسمبر 2018 بیونس آئرس، ارجنٹینا۔
ہندوستان میں سالانہ سربراہی اجلاس کی تیاریوں کا انحصار وزارت خارجہ کے سینئر عہدیداروں پر ہے۔ جنہیں ’شیرپا‘ کہا جاتا ہے، اور وہG-20 کے رہنماؤں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ آسٹریلیا G-20 سربراہی اجلاس کی تیاری میں آسٹریلیا کئی میٹنگوں کی میزبانی کر رہا ہے جن میں وزرائے خزانہ، تجارت کے وزراء ، روزگار کے وزراء ، شیرپا ئوں، خزانہ کے نائب صدور اور موضوع سے متعلق ورکنگ گروپس کی میٹنگیں شامل ہیں۔ G-20میں ہندوستان کی ہمیشہ اہمیت اور عالمی امن کی پالیسی رہی ہے۔ یہ ممالک دنیا کی 85 فیصد اقتصادی پیداوار اور 60 فیصد آبادی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ورلڈ بینک اور I.M.F. کے سربراہان بھی اس تنظیم کے رکن ہیں۔ G-20کا پہلا اجلاس دسمبر 1999 میں برلن میں ہوا تھا۔
ہندوستان کو G-20جیسے پلیٹ فارم کی ضرورت کیوں پڑی:
G-20کا قیام ابھرتی ہوئی اور ترقی پذیر معیشتوں کے ساتھ مشاورت اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کے مقصد سے کیا گیا تھا۔ دنیا کے سات بڑے صنعتی ممالک کناڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، برطانیہ اور امریکہ پہلی بار G-20میں شامل ہوئے۔
کس ملک کی جی ڈی پی کتنی ہے اور آبادی کتنی ہے، یہ بھی سمجھنا ہوگا۔ درج ذیل مطالعات کافی اہم ہیں:
فرانس: جی ڈی پی 2,420.4، آبادی 6.68کروڑ؛ امریکہ: جی ڈی پی 19,417 آبادی 32.3 کروڑ; انڈونیشیا: جی ڈی پی 1,020.5، آبادی 25.8 کروڑ؛ میکسیکو: جی ڈی پی 987.30 آبادی 12.3 کروڑ؛ جنوبی افریقہ: جی ڈی پی 317.56 آبادی 5.43 کروڑ؛ ارجنٹینا: جی ڈی پی 628.93 اور آبادی 4.38 کروڑ؛ جرمنی: جی ڈی پی 3,423.2 اور آبادی 8.07 کروڑ؛ چین: جی ڈی پی 11,795 اور آبادی 138 کروڑ۔ روس: جی ڈی پی 1,560.7، آبادی 14.2 کروڑ؛ ترکی: جی ڈی پی 793.69آبادی 8.02 کروڑ; برازیل: جی ڈی پی 2,140.9، آبادی 20.58 کروڑ؛ جنوبی کوریا: جی ڈی پی 1,498.1 اور آبادی 5.09 کروڑ؛ ہندوستان: جی ڈی پی 2,454.4 اور آبادی 126 کروڑ (نوٹ: جی ڈی پی ارب ڈالر میں ہے)۔
G-20کی صدارت ہر سال ایک ایسے نظام کے تحت بدلتی ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ علاقائی توازن کو یقینی بناتا ہے۔ ایک غیر رسمی سیاسی فورم کے طور پر اپنی نوعیت کی عکاسی کرتے ہوئے، G-20کا کوئی مستقل سکریٹریٹ نہیں ہے۔ اس کے بجائے دیگر ارکان کے ساتھ G-20 ایجنڈے پر مشاورت اور عالمی معیشت میں ہوئے ہونے والی پیش رفت پر رد عمل کا اظہار کرنے کے لیے انہیں ایک ساتھ لانے کی ذمہ داری G-20کے صدر کی ہوتی ہے۔ اس سمت میں وزیر اعظم نریندر مودی کا اہم رول ہے۔ ٹرمپ، جن پنگ، پوتن اور میکرون سے نریندر مودی کی ملاقاتیں ہوچکی ہیں۔ نریندر مودی کی روسی صدر ولادیمیر پوتن اور فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون سے بھی کئی ملاقاتیں ہوچکی ہیں۔ ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی اب تمام G-20ممالک کی میزبانی کریں گے۔ کئی ممالک کے صدر اور اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل سے بھی ملاقات ہوگی۔
سوال یہ ہے کہ G-8سے G-20 کیسے مختلف ہے:
G-8 دنیا کے سب سے خوشحال صنعتی ممالک فرانس، جرمنی، اٹلی، برطانیہ، جاپان، امریکہ، کناڈا اور روس کا ایک یونین ہے۔ یہ گروپ اقتصادی اور بحران کے انتظام، عالمی سلامتی، توانائی اور دہشت گردی جیسے عالمی مسائل پر اتفاق رائے کو فروغ دینے کے لیے سالانہ اجلاس کا انعقاد کرتا ہے۔ G-6 فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، برطانیہ اور امریکہ پر مشتمل تھا۔ اس کے بعد 1976 میں اس گروپ میں کناڈا کے شامل ہونے کے بعد یہ G-7اور 1998 میں روس کے شامل ہونے پرG-8 بن گیا۔ G-20 اجلاس میں ہندوستان نے روسی صدر ولادیمیر پوتن کو یوکرین کے ساتھ جنگ ختم کرنے کی اپیل کی ہے ۔ آخر میں یہ کہنا حقیقت پر مبنی ہوگا کہ ہندوستان کی خارجہ پالیسی کے پرچم کو بلند رکھنے میں وزیر اعظم نریندر مودی کی ذاتی کوششوں اور ڈاکٹر جے شنکر کو اور ہندوستانی وزارت خارجہ اور سفیروں کے ذریعہ امن ، ترقی، باہمی ہم آہنگی کی دنیا کو ایک کرنے کی کوششیں چیلنجوں سے بھری ہوئی ہیںاور اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے ہندوستان نے رہنما ہدایت دینے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی، مفکر، مدبر، تجزیہ کار، دوردرشن سالیڈیٹری فار ہیومن رائٹس سے وابستہ ہیں)
[email protected]
نیلم مہاجن سنگھ: G-20 کی قیادت ہندوستانی خارجہ پالیسی کا وقار
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS