سیف الرحمن
ہندوستانی مسلمانوں میں اس وقت ایک ہیجان سی کیفیت ہے!ہر طرف تباہی کے تذکرے،نا امیدی،احساس کمتری،شکوے شکایات ہے! احساس کمتری کا اس قدر غلبہ ہے کہ اس کے اثرسے مذہب بیزاری اور ارتداد کی ہوا چلی ہوئی ہے!لیکن دوسری طرف مثبت پہلو یہ ہے کہ قوم کا و نوجوانان ملت کا ایک بڑا طبقہ نظریاتی طور پر بہت مضبوط واضح رخ اپنا کر ملی درد و فکر کے راستے پر چل پڑا ہے ساتھ ہی عام مْسلمانوں میں بھی اپنے مسائل کو لے کر ایک سنجیدگی نظر آرہی ہے!لیکن اس مثبت پہلو کے باوجود کوئی نتیجہ نظر نہیں آ رہا ہے، کیونکہ اس بیداری کو صالح و زمانہ شناس قیادت نہیں مل پا رہی ہے، آج جبکہ بڑے خطرناک مسائل و مضبوط و منظم اور مضبوط ترین دشمنوں سے سامنا ہے تب بھی ہماری قیادت صرف بیانات و ہنگامہ آرائی پر مبنی غیر منصوبہ بند اجلاس میں مشغول ہے اور 70 سال کے ناکام آزمودہ نسخوں سے ہی کام چلایا جا رہا ہے، مگر ضرورت ہے کہ مخلص و فکرمند افراد ان باتوں کا رونا رونے کے بجائے عملی اقدامات کی طرف بڑھیں اور قوم میں منظم قیادت پیدا کرنے کی کوشش کریں ،یقیناً ہماری قوم میں کئی تنظیمیں بہتر کام کر رہی ہے ،لیکن ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اسلام میں کس طرح کی قیادت کی تعلیم دی گئی ہے؟ ہم جب اس سوال کا جواب تلاشنے نکلتے ہیں تو اسلام کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ منتشر بھیڑوں کا ایک ہجوم بن کر مسلمان زندگی گزارے یہ اسے گوارہ نہیں۔ تین شخص اگر عارضی سفر پر نکلے ہوں تب بھی ان تینوں کو حکم ہے کہ اپنے درمیان میں سے ایک کو امیر بنالیں اور دو مامور بن کر سفر کو منظم طریقے سے مکمل کرے۔ جو مذہب دو روزہ سفر کو غیر منظم نہیں رکھنا چاہتا ہے،کیا وہ یہ چاہے گا کہ بیس کڑوڑ کی آبادی ہرن کی بھیڑ بن کر رہے؟، اور ہمیں قرآن کی آل عمران کی وہ آیت نظر آتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ “اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور منتشر نہ ہو” اور وہ حدیث بھی یاد آتی ہے جس میں اجتماعیت کی اہمیت کا اظہار کرتے ہوکہا گیا کہ “تمہارے اوپر واجب ہے کہ تم جماعت کو لازم پکڑے رہو اور تفرقہ بازی سے بچو کیونکہ شیطان ایک کے ساتھ ایک ہوتاہے اور 2 لوگوں کے ساتھ دو رہتا ہے۔‘‘(الترمذی،باب الفتن)، لہٰذا لوگوں کا اس بات پر اجماع رہا کہ امارت کا موجود ہونا مسلمانوں پر لازم ہے چاہے وہ صرف دو لوگ ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف کہا کہ “جس شخص نے امیر کی طاعت سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا تو قیامت کے دن وہ اللہ سے ایسے ملے گا کہ اس کے پاس کوئی حجت نہیں ہوگی اور وہ شخص جس کی گردن میں کسی امیر کی بیعت کا قلادہ نہیں اور اسی حالت میں اس کی موت ہوجائے تو گویا اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی۔‘‘ (مسلم،کتاب الامارہ)”! ان تعلیمات کے مْطابق حضرات صحابہ امارت کو اتنا اہم مانتے تھے کہ حضرت عمر نے فرمایا “لا اسلام الا بالجماعۃ ولا جماعۃ الا بالامارہ”! ان نکات کو سامنے رکھتے ہوئے ہم غور کریں تو پاتے ہیں کہ اسلام میں امارت کی اہمیت ایک بنیاد کی طرح ہے اور مکمل نظریہ کو ہم دیکھتے ہیں تو پاتے ہیں کہ اسلام ایسا سسٹم ہم پر لازم کرتا ہے جو کہ زمینی سطح سے لے کر علاقائی و عالمی سطح تک منظم ہو اور پھر اس سسٹم کی اطاعت پر اتنا زور دیا گیا کہ کہا گیا ہے کہ جس نے “امیر کی اطاعت کی گویا اْس نے رسول اللہ کی اطاعت کی اور جس نے رسول اللہ کی اطاعت کی اْس نے خدا کی اطاعت کی” مطلب کہ امیر کے احکام کو خدائی فرمان کی طرح ماننے کا حکم دیا گیا ہے چاہے حکم دینے والا کوئی ناک کٹا ہی کیوں نہ ہو اور چاہے اسکا حکم آپ کی نظر میں غلط ہی کیوں نہ ہو ،امیر کے حکم عدولی کی اجازت صرف اس وقت ہے جب کہ اْنکا حکم شریعت کی بنیاد سے و احکام الٰہی سے ٹکرا رہا ہو! یہ ہے وہ نظریہ قیادت جو اسلام نے ہمیں دیا تھا اور مسلمانوں نے 1923 کے 29 اکتوبر تک اس نظریہ قیادت کو خلافت اسلامیہ کے الگ الگ شکل میں قائم رکھا جو کہ آخری خلافت خلافت عثمانیہ کے زوال سے ختم ہوگیا اور آج تک امت اس سے محروم ہے لیکن قوم میں ہمیشہ الگ الگ علاقوں میں ایسی تحریکیں اٹھتی رہی جو کہ خلافت اِسلامیہ کے قیام یا پھر ممکنہ حد تک امارت کے قیام کی کوششیں کرتی رہی جسمیں زوال خلافت کے بعد ہندوستان میں سید احمد شہید کی قیادت میں چلی تحریک شہیدین و جوہر برادران کی قیادت میں چلی تحریک خلافت خاص طور پر قابلِ ذکر ہے ساتھ ہی عرب میں اخوان المسلمین،افغانستان میں تحریک طالبان،بر صغیر میں جماعت اسلامی جیسی تحریکیں بھی اسی فکر کے ساتھ سامنے آئی ، ساتھ ہی ایک اور نظریہ اس فکر کا بہت اہم سمجھا گیا جو کہ ابو المحاسن سجاد رحمۃ اللہ علیہ کے ذریعے دیا گیا کہ جب عالمی سطح پر خلافتِ ختم ہوگیا ہے تو جن علاقوں میں ممکن ہو وہاں اور خاص کر ہندوستان جیسے علاقے جو کہ متحدہ قومیت کی فطرت رکھتا ہے وہاں پر وہاں کے آئین و حالات کے مطابق ممکن حد تک لیڈرشپ،ارباب حل و عقد،شورائی و جمہوری نظام اور احتساب کے سسٹم پر مبنی امارت اسلامیہ/امارت شرعیہ قائم ہو جو کہ مسلمانوں کی عائلی و معاشرتی امامت کرسکے، اْنکے اصلاح و تربیت پر کام کرے اور اْنکے تحفظ و تقویت پر کام کرنے کے ساتھ ہی دعوت اسلام کے عظیم فریضے کو بھی انجام دیتا رہے ! لہٰذا ابو المحاسن سجاد کے اس نظریہ کو ملک بھر میں پذیرائی ملی لیکن عملی جامہ صرف متحدہ بہار میں 26 جون 1921 کو مولانا ابو الکلام آزاد کی صدارت میں اور مولانا محمد علی مونگیری و حضرت مولانا شاہ بدر الدین قادری کی حمایت سے پہنایا جا سکا جس کا بہت اچھا نتیجہ بھی ماضی میں دیکھا گیا اور آج بھی کہیں نہ کہیں ملک بھر کی سب سے منظم جماعت و منظم طاقت متحدہ بہار کے مسلمانوں کے پاس موجود ہے جس کے تحت بانیان امارت کی اْمیدِوں کے مطابق نہ صحیح لیکن امید کی ایک کرن اور ایک عملی نمونہ کے طور پر دار القضاء کے نظام و نقباء سسٹم سے لے کر دیگر محاذ پر پْر اثر شعبے قائم ہے ! اور بہار کے طرز پر ہی کرناٹک سمیت کئی اور صوبوں میں اسے عملی جامہ پہنانے کی کوشش ہوئی ہے جوکہ امارت شرعیہ بہار کی طرح ابھی منظم نہیں ہے! اس کے علاوہ اسی فکر کو لے کر ظالمانہ طور پر کالعدم قرار دی گئی پاپولر فرنٹ اور وحدت اسلامی جیسی تنظیمیں بھی بنی!لہٰذا ضرورت ہے کہ آج ہم ہندی مسلمان اِسلامی امارت یعنی منظم و مضبوط لیڈرشپ کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے جن صوبوں میں امارت نہیں ہے اْن صوبوں کے اندر بہترین منصوبہ کے ساتھ امارت شرعیہ کا قیام کرے اور اس امارت کو بس ایک تنظیم کی شکل نہیں بنائے بلکہ اسکا سسٹم صوبے کے ایک ایک گاؤں و محلے تک چینلائز کرے اور ایک مضبوط رضاکار گروپ بھی اْسکے اندر تیار کیا جائے پھر نظام قضاء ،نظام افتاء،نظام تعلیم(دینی و عصری)،نظام تحفظ ،نظام دعوت اسلام،نظام اصلاح، نظام سیاست،نظام معیشت قائم کرکے انہیں رضاکار افراد کی مدد سے قابلِ عمل منصوبہ بندی کے ساتھ زمینی سطح پر کام کرے، ساتھ ہی کوشش کرے کہ جن صوبوں میں خاص کر بہار میں امارت شرعیہ قائم ہے اْسے نظام امارت اسلام،ابو المحاسن سجاد کے خواب اور حالات کی مانگوں کے مطابق ڈھال کرآگے بڑھا جائے! پھر ان تمام صوبوں کے امارت کو ملاکر قومی سطح پر مرکزی امارت شرعیہ کا قیام کیا جائے جو کہ تمام مکاتب فکر و جماعتوں کو رہنمائی اورپوری اْمت ِمسلمہ کو مکمل روحانی ،سماجی،سیاسی،معاشی اور فکری امامت مہیا کرتا رہے ساتھ ہی ملک کی ترقّی میں اہم کردار نبھاتے ہوئے با وقار و مفید قوم کا درجہ دلا سکے اور تمام اقوام کے بیچ بھائی چارہ کو قائم رکھنے میں بنیادی ستون کی حیثیت رکھتے ہوئے سبھی برادران وطن تک توحید کا پیغام پہنچانے کا فرض منصبی بھی انجام دیتا رہے ! یہ دیکھنے میں بہت بڑا و نا ممکن جیسا خواب نظر آ رہا ہے لیکن ماضی کے تجربات بتاتے ہیں کہ یہ کام جہاں امت مسلمہ ہندیہ کیلئے بنیادی ضرورت کی حیثیت رکھتا ہے تو وہیں یہ کر پانا ممکن بھی ہے لیکن ہر کامیابی کی طرح یہ کامیابی بھی مخلصانہ جدوجہد و قربانیاں چاہتا ہے ! اخیر میں گذارش ہے کہ ملک کی دوسری اقلیت سکھوں سے سبق سیکھے کہ جس منظم امارت کا نظام آپ کو ملا تھا وہ آج سکھوں کے یہاں اکال تخت کی شکل میں کامیاب نمونہ کے طور پر موجود ہے۔
[email protected]
ہندی مسلمانوں کیلئے قیام امارت کی ضرورت: سیف الرحمن
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS