ہندوستان نے توڑا چین کا طلسم

0

کوششکرنے والوں کی کبھی ہار نہیں ہوتی۔ قومی شاعر سوہن لال دیویدی کی لکھی یہ کویتا گھر-گھر میں بچوں کو اکثر مخالف حالات میں بھی پوری قوت سے جدوجہد کی ترغیب دینے کے کام آتی ہے۔ کبھی کبھی اس کی ضرورت بڑوں کو بھی پڑتی ہے اور لفظی معنوں میں نہ سہی، لیکن علامتی معنی میں کچھ ایک مواقع پر تو ملک کا مکمل نظام بھی اس عزم سے تحریک پاتا نظر آتا ہے۔ مشرقی لداخ میں چین کو ایل اے سی کی حد میں پہنچانے کی کامیابی ہندوستان کے ایسے ہی عزم کی تازہ مثال ہے۔ وزیردفاع راج ناتھ سنگھ نے ملک کی سب سے بڑی پنچایت کے ذریعہ ملک کو موجودہ وقت کی یہ سب سے بڑی خوشخبری دی۔
وزیردفاع نے پارلیمنٹ میں جو کہا، اس کانچوڑ یہ نکلتا ہے کہ پینگونگ سو کے شمالی ساحل پر چین اپنی فوج کو فنگر 8کی مشرقی سمت میں رکھے گا، جب کہ ہندوستان فنگر 3کے پاس اپنا فوجی وجود رکھے گا۔ دونوں فریق اسی طرح کی کارروائی جنوبی ساحل پر بھی کریں گے۔ سابقہ صورت بحال کرنے کے لیے اس علاقہ میں اپریل 2020کے بعد ہوئی کسی بھی طرح کی تعمیر کو ہٹادیا جائے گا۔
بیشک اس سمجھوتے کے بعد فنگر 8تک ہماری گشت رک جائے گی، لیکن فنگر4تک چین کی بے روک ٹوک آمدورفت پر بھی لگام لگے گی اور وہ فنگر 8سے آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ موجودہ حالات میں یہ ہندوستان کے لیے بڑی حصولیابی ہے، کیوں کہ اپریل 2020میں بھی ایسے حالات نہیں تھے۔ چینی فوجی گزشتہ سال مئی میں فنگر4کے رِج ایریا میں آکر بیٹھ گئے تھے۔ چین نے یہ حماقت پینگونگ کے جنوب سے شمال میں آنے جانے کے لمبے سفر کو آسان کرنے کے لیے کی تھی۔ تب چین کو یہ لگا ہوگا کہ دوچار ماہ میں جب دونوں ملک پیچھے ہٹیں گے تو سلامی سلائسنگ والی اس کی یہ اسٹرٹیجی کام کرجائے گی اور وہ اپنی ہڑپ چال میں کامیاب ہوجائے گا۔ سلامی سلائسنگ اسٹرٹیجی کے تحت چین دوسرے ممالک کی سرحدوں میں انچ در انچ دراندازی کرتا ہے اور پھر اسے اپنا کہنا شروع کردیتا ہے۔جو ملک نرمی کا اظہار کرتا ہے، وہاں چین اپنی توسیع کرلیتا ہے، لیکن ہندوستان کے ساتھ چین کا یہ داؤ الٹا پڑگیا۔ فوج کے جانباز جوانوں نے دو ماہ میں ہی فنگر 4کی اونچی چوٹیوں پر پہنچ کر پانسہ پلٹ دیا اور چین کو اسی کی زبان میں جواب دے کر دنیا کو چین سے نمٹنے کا راستہ بھی دکھا دیا۔ محاذ پر جو فریق اونچائی پر موجود ہوتا ہے، اسٹرٹیجک فائدہ اس کے ساتھ ہوتا ہے اور ہندوستان کی یہی طاقت چین کی کمزور نس بن گئی۔
پینگونگ میں چین جس طرح قدم پیچھے کھینچنے کے لیے مجبور ہوا ہے، اس نے گلوان کی یادیں تازہ کردی ہیں۔ 15جون کو ہندوستانی فوج سے پرتشدد جھڑپ کے بعد پی ایل اے کو اپنی مستقل بنیاد پر لوٹنا پڑا تھا اور پٹرولنگ پروٹوکول بننے تک گشت روکنے کی رضامندی دینی پڑی تھی۔
یقینا اس کامیابی کا بڑا کریڈٹ ہمارے جوانوں کو جاتا ہے، جنہوں نے ہڈیاں گلا دینے والی ٹھنڈ میں بھی ترنگے کی شان بڑھاکر چینی صدر جن پنگ کے اس تکبر کو بھی خاک میں ملا دیا کہ ہندوستانی فوج برفیلی اونچائیوں پر چین کا سامنا نہیں کرسکتی۔ جوانوں نے اسی کے ساتھ چین کو یہ پیغام بھی دے دیا کہ مسئلہ کا حل صرف اور صرف اس کے پیچھے ہٹنے سے ہی ہوگا۔ جوانوں کے اس حوصلہ کو مودی حکومت کی خارجہ اور فوجی پالیسی کی دوراندیشانہ کوششوں نے بھی پروان چڑھایا۔ اس دس انگیجمنٹ تک پہنچنے کے لیے دونوں سطحوں پر ستمبر2020 سے بات چیت کے کئی دور چلے۔ وزیراعظم نریندر مودی سے ہدایت لیتے ہوئے این ایس اے اجیت ڈوبھال اور وزیرخارجہ ایس جے شنکر کے مابین بھی پردے کے پیچھے کئی مرتبہ بات چیت ہوئی۔ ایوان میں وزیردفاع راج ناتھ سنگھ نے بھی اس پر رسمی مہر لگاتے ہوئے کہا کہ بات چیت کی اسٹرٹیجی اور وژن وزیراعظم کے اس عزم مصمم پر مبنی رہا کہ ہندوستان اپنی ایک انچ زمین بھی کسی اور کو نہیں لینے دے گا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ وزیراعظم مودی کی آؤٹ آف دی باکس سوچ نے بھی چین پر نکیل ڈالنے میں بڑا کردار نبھایا ہے۔ بدلتے عالمی نظام کے ساتھ توازن بنانے کی ان کی اسٹرٹیجی، ملک کی اسٹرٹیجک خودمختاری کو متاثر کیے بغیر بڑی طاقتوں سے تال میل، امریکہ، روس، ایران کی مشکل جیو پالیٹیکس کے درمیان ہم آہنگی، اسرائیل اور خلیجی ممالک کے ساتھ خوشگوار تعلقات اور کورونا سے جنگ میں ہندوستان کے قد میں زبردست اضافہ جیسی کئی باتیں ہیں، جن کے سبب ایک پڑوسی کے طور پر چین مسلسل دباؤ میں آتا گیا۔
عالمی سطح پر ہورہی گھیرابندی نے اس دباؤ کو چوطرفہ بنادیا۔ لداخ میں ہندوستانی جوانوں کی بہادری دنیا کے لیے مثال بن گئی ہے اور اب تائیوان بھی چین کو آنکھیں دکھا رہا ہے۔ بحیرئہ جنوبی چین میں امریکی جنگی جہاز نے بھی تائیوان کی حمایت میں جنگی مشق کرکے چین کو آنے والے دنوں کے چیلنج کا اشارہ کردیا ہے۔ اس سے ڈونالڈ ٹرمپ کے جانے کے بعد امریکہ سے تعلقات سدھرنے کی چین کی امید بھی ٹوٹ گئی ہے۔ اس کے برعکس جوبائیڈن نے بحیرئہ جنوبی چین میں امریکی جنگی مشقوں کی تعداد میں اضافہ کرکے چین کو سخت پیغام دے دیا ہے۔ کشیدگی کم کرنے کے لیے چین اب امریکہ سے تجارت کے محاذ پر حالات سدھارنے کی بات کرنے لگا ہے، لیکن یہاں بھی بائیڈن نے ہندوستان کو اپنا شراکت دار بتاکر چین کو آئینہ دکھا دیا ہے۔ امریکہ ویسے بھی چین کو ہندوستان کے سب سے بڑے کاروباری شراکت دار کے عہدہ سے بے دخل کرچکا ہے۔ چین کے سالانہ 2.5کھرب ڈالر کی برآمدات میں ہندوستان کی حصہ داری محض تین فیصد رہ گئی ہے۔ لیکن اب بھی دونوں ممالک کے درمیان 81.87 ارب ڈالر کا کاروبار ہوتا ہے اور چینی سامان کی تمام مخالفت کے باوجود ہندوستان آج بھی اپنے کل مینوفیکچرنگ کا 20فیصد چین سے درآمد کرتا ہے۔ اسی لیے ایل اے سی کے تازہ واقعہ میں ہندوستان کے ساتھ چین کے کاروباری رشتوں کا اینگل بھی خارج نہیں کیا جاسکتا۔
جو بات سب سے زیادہ غور کرنے والی ہے، وہ یہ ہے کہ یہ ڈس انگیجمنٹ ایک لمبے عمل کی محض شروعات ہے۔ پینگونگ کا حل نکالنے کے بعد ابھی ہمیں دیپسانگ کا مسئلہ بھی سلجھانا ہے جو اسٹرٹیجک وژن سے زیادہ اہم علاقہ ہے۔ یہاں دولت بیگ اولڈی علاقہ میں چین کی دراندازی ہمارے لیے تشویشناک ہے۔ اس علاقہ کے ایک طرف چین ہے تو دوسری طرف پاکستان۔ یہاں ہندوستان نے 255کلومیٹر لمبی داربک-شیوک-ڈی بی او روڈ بنائی ہے، جو صرف دولت بیگ اولڈی کو قراقرم سے ہی نہیں جوڑتی، چین کے ’ون بیلٹ، ون روڈ‘ مشن کی چوکس نگرانی کے لحاظ سے بھی اہم ہے۔
حالاں کہ اتناطے ہے کہ پینگوگ کی کامیابی نے جہاں ایک جانب ہماری فوج اور ہماری حکومت کے اعتماد میں اضافہ کیا ہے، وہیں اس نے چین کو بھی دباؤ میں لے لیا ہے۔ چار سال پہلے ڈوکلام، پھر گلوان اور اب پینگونگ سو کے تجربہ کے بعد اس محاذ پر سوچ سمجھ کر چلنا چین کی مجبوری ہی نہیں، سمجھداری بھی ہوگی۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS