نواز شریف کوپھر وزیراعظم دیکھنا چاہتا ہے پاکستان؟: ایم اے کنول جعفری

0

ایم اے کنول جعفری

پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف4برس کی خود ساختہ جلاوطنی کے بعد 21 اکتوبر کو وطن لوٹ آئے۔ عام انتخابات سے قبل اُن کی جس طرح واپسی اور ہوائی اڈے پر شاندار استقبال ہوا،اُس سے ا شارہ ملتا ہے کہ پاکستانی فوج اور عوام ایک مرتبہ پھرنوازشریف کو وزیراعظم کی ذمہ داری سونپنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ایسا اس لیے کہ بدعنوانی کے دو مقدموں میں سزا یافتہ اور عمر بھر انتخاب لڑنے کے لیے نااہل قرار دیے گئے نواز شریف جیل بھیجنے کے بجائے بڑی آسانی سے 24اکتوبر تک گرفتاری سے چھوٹ پاگئے۔ انہیں لاہور کے مینار پاکستان میں منعقد جلسے میں حامیوں سے خطاب کرنے کا موقع بھی ملا۔ انہوں نے پاکستان کو ہندوستان کے برابر کھڑا کرنے کے لیے ایٹمی طاقت بنانے کے اپنے کارنامے پر فخر کیا۔ بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات کی بات کی اور کشمیر کا راگ بھی چھیڑا۔ کئی برس قبل پاکستانی فوج نے نواز شریف کے خلاف عمران خان کا استعمال کیا تھا۔اب وہ عمران خان کے خلاف نوازشریف کو استعمال کرنا چاہتی ہے۔ نواز شریف کی وطن واپسی میں آرمی چیف آصف منیر کا اہم کردار ہے۔ انتہائی سنجیدہ معاملات میں عمران خان کو ضمانت دینے والے چیف جسٹس عمر عطا بندیال سبکدوش ہوگئے۔ نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے نرم رُخ کے سبب نواز شریف کو سنگین معاملات میں راحتیں ملناآرمی چیف اور عدلیہ کی منشا کی نشاندہی کے لیے کافی ہیں۔
نواز شریف کبھی 5برس کی مدت پوری نہیں کر سکے،لیکن سب سے زیادہ مدت تک پاکستان کے وزیراعظم رہنے کا ریکارڈ ان کے نام ہے۔ نواز شریف ایون فیلڈ اور العزیزیہ معاملوں میں سزا کاٹ رہے تھے۔2017میںپناما پیپرزلیکس معاملے میں وزیراعظم کے عہدے سے برطرف نوازشریف پر 10 برس تک عوامی عہدے کی پابندی عائد کی گئی۔ بیماری کا علاج کرانے لندن گئے نوازشریف واپس نہیں لوٹے۔ انہیں قانون کے مطابق مفرور مجرم قرار دیا گیا۔اَب احتساب عدالت نے نوازشریف کی توشہ خانہ معاملے میں گرفتاری کے وارنٹ رد کردیے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنسز میں حفاظتی ضمانت منظور کرکے 24اکتوبر تک گرفتاری پر روک لگا دی۔ ماہرین اسے معجزے سے کم نہیں مان رہے ہیں۔ ماضی کے انتخابات میں فوج کے کردار کی بنا پر کہا جاتا ہے کہ وہاں جمہوریت محض ایک رسم بن کر رہ گئی ہے۔ دبئی میں میڈیا سے گفتگو میں نواز شریف نے کہا کہ دکھ کی بات ہے کہ ملک آگے جانے کے بجائے پیچھے چلا گیا۔ ہمیں اپنے پاؤں پر خود کھڑا ہونا ہے۔کوئی ہمیں اُٹھا کر کھڑا نہیں کرے گا۔ حالات ہم نے بگاڑے ہیں۔انہیں درست بھی ہمیں کرنا ہوگا۔وہ پاکستان جو بین الاقوامی مالیاتی ادارے کو خدا حافظ کہہ چکا تھا۔ بجلی وافر اور روپیہ مستحکم تھا۔ روزگار مل رہا تھا، روٹی سستی اور علاج کی سہولتیں میسر تھیں۔ کیا آج وہ پاکستان نظر آتا ہے؟ ہمارا شمار دنیا کی بلند ترین قوموں میں ہونا چاہیے تھا،پر نہیں ہے۔ وہ ملک میںحلقہ بند ی کے بعدکے الیکشن کے لیے تیار ہیں۔
نوازشریف 1970کی دہائی میں سیاست میں آئے۔ 1981میں جنرل ضیاء الحق کی فوجی حکومت میں پنجاب صوبے کے وزیر خزانہ اورپھر9اپریل 1985 سے 13 اگست 1990تک پنجاب کے وزیراعلیٰ رہے۔ 1990 میں اسلامی جمہوری اتحاد کی سربراہی کرکے انتخابات میں فتح حاصل کی۔ 6نومبر1990کو وزیراعظم کے عہدے کا حلف لیا۔ صدر غلام اسحاق خان سے اختلافات ہوئے تو پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی پر نواز شریف کے حق میں ووٹ حاصل کرنے کے لیے سیاست دانوں کو لاکھوں روپے کی رشوت دینے کا الزام لگا۔ صدر نے بدعنوانی کے الزام میں نواز شریف کی3سالہ حکومت برطرف کر دی۔ نواز شریف عدالت عظمیٰ پہنچے۔15جون 1993کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نسیم حسن شاہ نے حکومت بحال کر دی۔ نواز شریف نے جولائی 1993میں ایک معاہدے کے تحت استعفیٰ دے دیا۔ غلام اسحاق خان کو بھی برطرف ہونا پڑا۔1993 کے انتخابات میں پیپل پارٹی کامیاب ہوئی۔ بے نظیر بھٹو وزیراعظم بنیں،لیکن صدر فاروق لغاری نے ان کی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ نواز کی پارٹی نے 1997 کے الیکشن میں تین چوتھائی کی واضح اکثریت حاصل کی۔ وہ 17فروری 1997 کو دوسری مرتبہ وزیراعظم بنے۔اُنہوں نے قومی سیاست میں فوج کا کردار کم کرنے کے لیے جنرل پرویز مشرف کو ہٹاکر نیا سربراہ تعینات کرنے کی کوشش کی،لیکن 12 اکتوبر 1999 کو فوجی بغاوت ہوگئی۔ پرویز مشرف نے نواز شریف کو ان کے عہدے سے ہٹاکر حکومت کی باگ ڈور خود سنبھال لی۔ نواز شریف پر مقدمے چلے، سزا ہوئی اور جیل گئے۔ بعد میں پرویز مشرف کے ساتھ معاہدے کے تحت جلاوطن ہوکر سعودی عرب چلے گئے۔ 2002 میں پارٹی بہتر مظاہرہ نہ کر سکی۔2006میںبے نظیر بھٹو کے ساتھ جمہوریت بحالی اور پرویز مشرف سے چھٹکارے کے لیے لندن میں معاہدہ ہوا۔ عدالت عظمیٰ کے حکم پر ستمبر2007میں پاکستان لوٹے نوازشریف کو انتظامیہ نے جہاز سے اُترنے کی اجازت نہ دی اورواپس سعودی عرب بھیج دیا۔ دسمبر 2007 میں بے نظیر بھٹو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں خود کش دھماکے میں ہلاک ہوگئیں۔ فروری2008کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ دوسری بڑی جماعت کے طور پر ابھری۔ مسلم لیگ اور پیپل پارٹی نے مخلوط حکومت بنائی، لیکن اختلافات بڑھنے کی بنا پر 2011 میں نواز شریف علیحدہ ہوگئے۔2برس بعد ہوئے الیکشن میں ان کی جماعت کامیاب ہوئی۔ نواز شریف نے 5جون 2013 کو تیسری مرتبہ وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا، لیکن کرکٹر سے سیاست داں بنے عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے الیکشن میں بدعنوانی کے الزامات لگا کر لگاتار مظاہرے کیے۔2016میں پناما پیپر ز لیکس میں شریف خاندان کے کئی ناموں کا انکشاف ہوا۔ حالانکہ،انہوں نے صفائی پیش کی،لیکن عمران خان نے نواز شریف کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا۔ عدالت عظمیٰ نے نومبر2016میں الزامات کی تفتیش کا حکم دیا۔ 5رکنی بینچ نے تین دو سے نواز شریف کے حق میں فیصلہ دیا،لیکن ان کے اثاثوں کی تفتیش کا حکم بھی دے دیا۔ مظاہروں نے زور پکڑا۔ ’گو نواز گو‘ کے نعرے گونجے۔دوسری تفتیش میں نوازشریف کو متحدہ عرب امارات میں کام کرنے کا اقامہ ظاہر نہیں کرنے کی بنیاد پر صادق اور امین کی شق کی خلاف ورزی کا مرتکب ٹھہراتے ہوئے 5 صفر کی اکثریت سے اسمبلی سے نااہل قرارکر دیا۔ مزید3ریفرنسز کی تحقیقات کرانے کو بھی کہا گیا۔ نواز شریف نے’ووٹ کو عزت دو‘ کے نعرے کے ساتھ ریلیوں میں اپنے خلاف عدالتی کارروائیوں کو سازش بتایا۔ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نواز شریف پر ان کے لندن میں واقع ’ ایون فیلڈ اپارٹمنٹ ‘کی ملکیت و دیگر بدعنوانی کے الزامات کی بنا پر 10برس کی قید بامشقت اور8ملین پاؤنڈ جرمانے کی سزا سنائی۔ 13 جولائی کو پاکستان آتے ہی انہیں ہوائی اڈے سے حراست میں لے کر جیل بھیج دیا۔ عام انتخابات میں تحریک انصاف پارٹی کو فتح ملی اور عمران خان وزیراعظم بن گئے۔ نوازشریف کو 11مارچ کو کلثوم نواز کے جنازے میں شرکت کے لیے ایک ہفتے کی پیرول پر رہا کیا گیا۔وطن واپسی پر انہیں، بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر کو دوبارہ جیل بھیج دیا۔ نواز شریف نے احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل کی۔ عدالت نے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے تینوںکو بری کردیا،لیکن مشکلیں پھر بھی برقرار رہیں۔ ’ڈان‘ اخبارکو انٹرویو دینے کے سبب نواز شریف پر غداری کا مقدمہ قائم ہوا تھا۔
پاکستانی فوج کا عمران خان سے نالاں ہونا جگ ظاہر ہے۔ اُسے مسلم ممالک میں مضبوط گرفت رکھنے والے 73سالہ نواز شریف سے کافی اُمیدیں ہیں۔ وہ فوج کے ساتھ تال میل بناکر کام کریں گے اور پاکستان کی اقتصادی حالت کو بہتر کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ فوج کی کسوٹی پر کتنے کھرے اُترتے ہیں۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور ادیب ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS