جدہ چوٹی کانفرنس کی کامیابی نوید خیر

0

ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

سعودی عرب کے مرکزی شہر جدہ میں عرب لیگ کی چوٹی کانفرنس کا انعقاد اور کامیابی کے ساتھ اس کا اختتام اس بات کا اشارہ دیتا ہے کہ عرب لیگ میں ایک نئی روح پھونکی جا رہی ہے اور سعودی عرب کی قیادت اس سلسلہ میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔ یہ صورتحال واضح ہے کہ عالمی اور عرب خطہ دونوں سطح پر بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور عالمی سیاست کا نقشہ پورے طور پر بحرانوں سے پْر نظر آرہا ہے۔ ایسے وقت میں سعودی عرب نے تمام عرب لیڈران کو جدہ کے اندر اتحاد و اتفاق اور آپسی میل جول کے ساتھ ایک ہی ٹیبل پر جمع کیا ہے یہ نہایت خوش آئند بات کہی جا سکتی ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ صرف تمام عرب قائدین کو ایک میز پر بٹھا کر وقت ضائع کیا ہو یا روایتی بیانات کے بعد یہ کانفرنس اختتام پذیر ہوگئی ہو۔ اس کے برعکس عالمی پیمانہ پر ہو رہی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے اور اپنی صفوں کو متحد کرنے کے بعد اندرونی اور بیرونی مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لئے قابل عمل پلان بھی تیار کرنے میں سعودی عرب کی قیادت نے اپنا کردار نبھایا ہے اور اس کی توقع کی جا سکتی ہے کہ مستقبل میں اس کے بہتر نتائج دیکھنے کو ملیں گے۔ جدہ میں منعقد اس چوٹی کانفرنس کو بعض عرب تجزیہ نگاروں نے 1967 کی جنگ میں محض چھہ دن کے اندر اسرائیل کے ہاتھوں عربوں کی شرمناک شکست کے بعد سوڈان کی دارالسلطنت خرطوم میں منعقد ہونے والی اس چوٹی کانفرنس سے بھی تشبیہ دے رہے ہیں جس میں سعودی عرب کے ممتاز اور غیور قائد شاہ فیصل کی قیادت نے کلیدی رول ادا کیا تھا۔ خرطوم کی وہ کانفرنس اس اعتبار سے نہایت اہمیت کی حامل ہے کہ 1967 کی شکست نے عالم عربی میں جمال عبدالناصر کی قیادت کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا تھا اور اس عرب قومیت کا بھی خاتمہ ہوگیا تھا جس کی باگ ڈور جمال عبدالناصر نے اپنے ہاتھ میں لے رکھی تھی۔ آج بھی عالم عربی میں ایک نئے دور اور نئی طرز سیاست کا آغاز ہو چکا ہے اور سعودی عرب کی قیادت عملی طور پر شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے فرزند اور ولی عہد محمد بن سلمان کے ہاتھوں میں آئی ہوئی ہے۔ اگرچہ ان میں شاہ فیصل کی شخصیت جیسا کرشمہ اور اسلامی غیرت و حمیت کا وہ عنصر مفقود ہے جو شاہ فیصل کو دنیا بھر کے مسلمانوں کی نظر میں ایک روشن ستارہ آج تک بنائے ہوئے ہے لیکن اس جواں سال قائد کے پاس اپنے مقاصد ہیں۔ ان مقاصد میں یہ پہلو بطور خاص اہمیت رکھتا ہے کہ وہ عرب دنیا کو مغرب کا حاشیہ بردار نہیں رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے بیانات سے کئی بار اشارہ دے چکے ہیں کہ ان میں اس بات کی گہری فکرمندی پائی جاتی ہے کہ تمام وسائل کی فراہمی کے باوجود عرب دنیا یوروپ کی خوشہ چینی میں مصروف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے سعودی عرب کی ترقی کا جو پلان تیار کیا ہے اس میں اس بات کا بطور خاص خیال رکھا گیا ہے کہ مغرب پر انحصار کو کم سے کم کیا جائے اور خود اعتمادی کے تمام ذرائع کو بڑھاوا دیا جائے۔
یہ سچ ہے کہ ابتدائی مرحلہ میں محمد بن سلمان نے اس کی پوری کوشش کی تھی وہ سعودی عرب کی روایتی خارجہ پالیسی پر گامزن رہے اور مغرب کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنائے لیکن جمال خاشوگی واقعہ کے بات جس ڈھنگ سے مغربی میڈیا اور قیادتوں نے ان کو نشانہ بنایا اور انہیں اچھوت بنانے کی کوشش کی اس سے محمد بن سلمان نے یہ سبق سیکھا کہ مغرب ایک قابل بھروسہ دوست نہیں ہے۔ خاشوگی معاملہ پربہت سے قارئین کی رائے مختلف ہوسکتی ہے یہاں اس پر تبصرہ مقصود نہیں ہے۔ یہاں صرف یہ نقطہ واضح کرنا پیش نظر ہے کہ اس واقعہ سے نہ صرف محمد بن سلمان کی شخصیت اور فکر میں تبدیلی پیدا ہوئی بلکہ خود سعودی عرب کی خارجہ سیاست میں بڑا بدلاؤ پیدا ہوا۔ یہ تبدیلیاں سعودی عرب اور عرب دنیا کے لئے خیر کا باعث ہوسکتی ہیں اگر قطر کو بائیکاٹ کرنے جیسی غلطیوں کا اعادہ مستقبل میں نہ کیا جائے۔ ’العلاء‘ چوٹی کانفرنس میں قطر کے ساتھ مصالحت کے بعد سے اب تک جو اشارے مل رہے ہیں ان سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ غلطیاں نہیں دہرائی جائیں گی اور عرب اتحاد کا مقصد پوری قوت کے ساتھ آگے بڑھایا جائے گا۔ اس بات کا عملی ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ 12 برسوں سے عرب لیگ سے معزولی کا بوجھ جھیل رہا ملک شام کی رکنیت کو عرب لیگ میں بحال کر دیا گیا ہے اور جدہ چوٹی کانفرنس میں بشار الاسد نے اپنے وفد کی قیادت کرکے عرب حلقہ میں شمولیت کا راستہ مکمل طور پر ہموار کر لیا ہے۔ خارجہ پالیسی کی سطح پر بھی سعودی عرب نے حالیہ دنوں میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اس محاذ پر سعودی عرب سمیت تمام خلیجی ممالک کی پہلی فتح اس وقت سامنے آئی تھی جن ان ممالک نے امریکہ کے مسلسل دباؤ کے باوجود روس۔ یوکرین جنگ کے معاملہ میں غیر جانبدار رہنے کے اپنے فیصلہ پر قائم رہے۔ ساتھ ہی انہوں نے روس کے خلاف مغربی پابندیوں کا حصہ بننا بھی گوارہ نہیں کیا۔ اس کے بعد جب بائیڈن نے فون پر محمد بن سلمان اور متحدہ عرب امارات کے لیڈر محمد بن زاید آل نہیان سے بات کرنے کی خواہش ظاہر کی تاکہ روس پر عائد پابندیوں کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی تیل کی قلت کا مقابلہ کرنے کے لئے انہیں اضافی تیل نکالنے پر آمادہ کیا جائے تو ان لیڈران نے فون پر بات چیت سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد بائیڈن نے اپنے اعلیٰ سفارتکاروں اور سی آئی اے کے ایجنٹوں کو سعودی عرب بھیجا لیکن پھر بھی بات نہیں بنی۔ بالآخر جب بائیڈن نے سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کا دورہ اس مقصد کے لئے تب بھی وہ ناکام و نامراد رہے۔ یہ ایک بڑی کامیابی تھی جس کو حاصل کرنے میں سعودی عرب کی قیادت کامیاب رہی تھی۔ خارجہ پالیسی کی سطح پر دوسری کامیابی جو اس سے بھی بڑی سمجھی جا رہی ہے وہ ہے سعودی عرب اور ایران کے درمیان چین کی ثالثی میں ہونے والی مصالحت جس کے دور رس نتائج ہوں گے لیکن وقتی طور پر ہی امریکی قیادت کی بوکھلاہٹ سامنے آنے لگی ہے اور اب وہ اس کوشش میں ہے کہ اس خطہ کو چین کی جھولی میں جانے سے روکا جائے اور اسی غرض سے اس نے خلیجی ممالک میں ریل پروجیکٹ کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ اس خطہ کو جنوبی ایشیا کے ساتھ جوڑ دیا جائے۔ اچھی بات یہ ہے کہ اگر یہ پروجیکٹ کامیاب رہا تو ہندوستان کا کردار نہایت اہم ہوگا اور اس سلسلہ میں قومی سلامتی امور کے سربراہ اجیت ڈوبھال سعودی عرب میں امریکی اور سعودی لیڈران سے ملاقات کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ عراق و سوڈان اور لیبیا و لبنان و یمن تمام مسائل پر جدہ چوٹی کانفرنس میں بات ہوئی ہے اور فلسطین کے معاملہ کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ فلسطین کے حالات اس وقت بہت خراب ہیں لیکن اسرائیل بھی اپنے اندرونی مسائل میں کم الجھا ہوا نہیں ہے۔ اگر عرب قیادت نے اپنا اتحاد برقرار رکھا اور اپنے مقاصد کے تئیں سنجیدگی دکھائی تو نکبۂ فلسطین کا دور ختم ہو سکتا ہے اور اسرائیل کو مجبور کیا جا سکتا ہے کہ وہ فلسطینی حقوق سے پامالی باز آجائے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جدہ چوٹی کانفرنس سے جو امیدیں پیدا ہوئی ہیں وہ کتنی مدت برقرار رہ سکتی ہیں۔ موجودہ قرائن سے تو اندازہ یہی ہوتا ہے کہ جس طرح سے تمام مسائل کو حل کرنے میں عرب لیڈران سنجیدہ نظر آرہے ہیں فلسطین معاملہ کو بھی حل کرنے میں اپنی سنجیدگی دکھائیں گے۔ عرب لیگ کانفرنس کی قرار دادوں کو حقیقی زندگی تبھی ملے گی جب عملی طور پر ان کے نفاذ کی کوششیں تیز کی جائیں۔ سعودی عرب قیادت کا اصل امتحان یہی ہوگا۔ اگر اس محاذ پر وہ کامیاب ہوجاتے ہیں تو شاہ فیصل کا دور ایک بار پھر لوٹ کر آ سکتا ہے۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS