جبرواکراہ سے پاک فطری مذہب

0

عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ

اسلام سے بغض و عناد کا مکروہ سلسلہ اسی دن سے جاری ہے جس دن آں حضرت ؐنے صفا پہاڑی پر کھڑے ہو کرلوگوں کو دین حق کی طرف بلایا۔ تب ہی سے وہ لوگ جو آپؐ کو صادق و امین کہتے تھے،آپ کی جان کے دشمن اور خون کے پیاسے ہوگئے۔ جوں جوں اسلام کی محبوبیت میں اضافہ ہوا اوردین حق کی خوشبو مکہ سے نکل کرمختلف علاقوں میں پھیل گئی تواِس کے ساتھ ساتھ حاسدین کا حسداور معاندین کا عناد بھی بڑھتا چلا گیا۔ آج بھی اسلام کے حاسدین موجود ہیں اور عہد نبوی کے بالمقابل بھاری اکثریت کے ساتھ موجود ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف دن رات سازشوں میں لگے ہوئے ہیں۔انہیں سازشوں کا حصہ ہے کہ کبھی اسلام کو فتنہ وفساد سے جوڑ دیا جاتا ہے، کبھی اسلام کے ماننے والوں کو تبدیلیٔ مذہب کے لئے مجبور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے،کبھی مدارس اسلامیہ پر دہشت گردی کا لیبل لگایا جاتا ہے اور کبھی حق کے داعیان کو ناکردہ جرم کی پاداش میں پس دیوار زنداں کیاجاتا ہے۔غرض مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کرنے کی ہرممکن کوشش ہورہی ہے اور آئندہ بھی ہوتی رہے گی مگر مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ راہ حق پرصبر وثبات کے ساتھ مضبوط حکمت عملی سے حالات کا سامنا کریں۔
اسلام کو اس لحاظ سے انفرادیت حاصل ہے کہ اس نے حق کو عام کرنے کے باقاعدہ اصول بیان کیے ہیں اور کھل کر اس حقیقت کا اظہار کیا ہے کہ دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔ قرآن کا واضح حکم ہے’’دین میں زبردستی نہیں ہے،تحقیق کہ ہدایت گمراہی سے الگ ہوچکی ہے‘‘(البقرہ:256)۔مطلب یہ ہے کہ ایمان دار ہونے میں جبر کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اکراہ (جبر) کا صرف یہ معنی ہے کہ کسی سے بہ زور ایساکام کرایا جائے جس کو وہ اپنی خوشی سے نہ کرنا چاہتا ہو ۔ایمان تو صر ف ایک قلبی عقیدہ کا نام ہے اور قلبی عقیدہ اکراہ سے نہیں پیدا ہوتا ۔دین اسلام کی حق گوئی و حق رسانی کااسلوب نہایت اعلیٰ وارفع ہے جس کو نہ صرف رسول اللہ نے خود اختیار فرمایابلکہ صحابہ کرامؓ کو بھی اس کی تلقین فرمائی۔ اس کے مطالعہ سے یہ بات صاف طور پر واضح ہوجاتی ہے کہ مذہب اسلام سہل،آسان اور فطری مذہب ہے، لوگ اسے سمجھ کراطمینان حاصل کرنے کے بعد ہی اس کی طرف راغب ہوتے ہیںاور مخالفت و آزمائش کے باوجود جمے رہتے ہیں۔

اسلام کو اس لحاظ سے انفرادیت حاصل ہے کہ اس نے حق کو عام کرنے کے باقاعدہ اصول بیان کیے ہیں اور کھل کر اس حقیقت کا اظہار کیا ہے کہ دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔ قرآن کا واضح حکم ہے’’دین میں زبردستی نہیں ہے،تحقیق کہ ہدایت گمراہی سے الگ ہوچکی ہے‘‘(البقرہ:256)۔مطلب یہ ہے کہ ایمان دار ہونے میں جبر کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا ہے۔

دنیا بھر میں موجود اسلام دشمن قوتیں اسلام اور مسلمانوں کو دبانے کی جتنی کوشش کررہی ہیں ،اتنا ہی اسلام کی مقبولیت میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یورپ کے بعد روس جہاں پر عرصۂ دراز تک کمیونسٹوں کی حکومتوں نے مسلمانوں پر جینا حرام کیا، مسلمانوں کی عبادات پر پابندی لگائی، مساجد کو سینما ہال، دفاتر، میوزیم، عجائب گھروں میں تبدیل کر دیا،وہاں اسلام کی روشن کرنوں سے ہر سو اجالا نظر آرہاہے،وہاں پر مساجد کی تعداد کم پڑ گئی ہے۔ دارلحکومت ماسکو میں سڑکوں پر لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو عید، بقر عید، جمعہ کی نماز پڑھنے کے مناظر انٹرنیٹ اور اخبارات کے ذریعے دیکھے جاسکتے ہیں۔ مساجد کی کمی کو پورا کر نے کے لئے مسلمانوں نے جب کبھی مساجد تعمیر کرنے کی کوشش کی تو حکومت نے انہیں روک دیا جس کا حل وہاں کے مسلمانوں نے موبائل مساجد یا مصلے کے طور پر نکال لیا۔اس وقت جہاں ایک طرف اسلام کی طرف مائل لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے وہیں خود مسلمانوں کے اندر بھی اسوہ حسنہ پر چلنے کی راہیں ہموار ہو رہی ہیں۔امریکی ادارے (Peo) کے مطابق 2030 تک مسلمانوںکی تعداد یورپ میں 2 ارب 20 کروڑ تک جا پہنچے گی، جرمنی کی حکومت نے اعتراف کیا ہے کہ 2050 ء تک وہ مسلم اکثریت ملک ہوگا، جب کہ برطانیہ میں کیے گئے سروے کے مطابق برطانیہ اور ویلز میں گذشتہ ایک دہائی کے دوران مسلمانوں کی آبادی دگنی ہوگئی ہے۔ امریکہ میں مسلمانوں کی تعداد 2017 کے سروے کے مطابق 3.35 ملین ہے اور وہاں اسلام قبول کرنے والوں کی شرح میں اضافہ ہی ہورہاہے۔ یہ اسلام کی بڑھتی مقبولیت کا محض ایک سرسری خاکہ ہے ورنہ اس کی تاریخ تو بہت طویل اور ناقابل فراموش ہے جس کا احاطہ مشکل ہے۔ علامہ اقبالؒ کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں:
چشمِ اقوام سے مخفی ہے حقیقت تیری
ہے ابھی محفلِ ہستی کو ضرورت تیری
وقتِ فُرصت ہے کہاں، کام ابھی باقی ہے
نُورِ توحید کا اِتمام ابھی باقی ہے
qq

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS