دہلی ہائی کورٹ کے بعد اب ملک کے سپریم کورٹ نے بھی اپنا رویہ سخت کرلیا ہے۔کورونا وائرس سے نمٹنے کے سلسلے میں حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے دریافت کیا ہے کہ اس موذی مرض سے بچائو کیلئے اس کے پاس کیا منصوبہ عمل ہے۔ حالات کی سنگینی اور حکومت کی بے عملی و سرد مہری کے شاکی معزز جج صاحبان یہ کہنے پر بھی مجبور ہوگئے کہ ملک میں قومی ایمرجنسی جیسے حالات پیدا ہوگئے ہیں۔ انسانی زندگی کی بنیادی ضرورت آکسیجن کی سپلائی سے لے کر لاک ڈائون لگانے کے اختیارات تک کے سلسلے میں عدالت نے حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔
سپریم کورٹ ویدانتا گروپ کی جانب سے تمل ناڈوکے توتی کرن میں اس کے بند پڑے اسٹرلائٹ کاپر پلانٹ کو چالو کیے جانے سے متعلق عرضی کی سماعت کررہی تھی۔ ویدانتا کا کہنا ہے کہ اگر یہ پلانٹ کھولنے کی اجازت مل جاتی ہے تو وہ وہاں 1000ٹن آکسیجن تیار کرے گی جو کووڈ19-کے مریضوں کو مفت دی جائے گی۔افسوس کی بات یہ ہے کہ ملک میں ایک جانب آکسیجن کیلئے قیامت بپا ہے، مریض ایک ایک سانس کیلئے تڑپ رہے ہیں اور حکومت کی بدانتظامی اور انتقام کی سیاست کے سبب آکسیجن تیار کرنے والا کارخانہ گزشتہ تین برسوں سے بند پڑا ہے۔ 2018میں اس پلانٹ کو ماحولیات کے ضابطوں کی مبینہ خلاف ورزی کے جرم میں بند کر دیا گیا تھا، کمپنی نے کئی بار اپیل کی کہ اسے یہ پلانٹ چلانے دیا جائے تاکہ وہ آکسیجن تیار کرکے ضرورت مندوں تک فراہم کرسکے لیکن حکومت نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے کمپنی کو عدالت سے رجوع کرنا پڑا۔ہوسکتا ہے کہ ویدانتا کے اس پلانٹ میں ماحولیاتی ضابطوں کو نظر انداز کیاگیا ہو لیکن کیا یہ معاملہ اتنا ہی سنگین تھا کہ اس کی پاداش میں ایک ایسا پلانٹ بند کردیاجاتا جو انسانی زندگی کی بنیادی ضرورت پوری کرتا ہو؟ سوال یہ بھی ہے کہ حکومت نے تین برسوں سے یہ معاملہ حل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی ؟
2019کے اختتامی مہینوں میں جب کورونا وائرس کا آغاز ہواتھا تو اسی وقت سے آکسیجن کی ضرورت کا احساس ہوگیاتھا، دنیا کے دوسرے ممالک نے اپنے یہاں نہ صرف آکسیجن پلانٹ شروع کیے بلکہ دوسروں ملکوں سے منگواکر اس کا ذخیرہ بھی کیا لیکن ہندوستان میں اس کے برخلاف آکسیجن کے لگے لگائے پلانٹ کو پیداوار کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس بھیانک لاپروائی کے ذمہ دار وں کا تعین کیا جانا بھی ضرور ی ہے۔
اب حکومت عدالت کے استفسار کا کیا جواب دیتی ہے حتمی طور پر یہ کہنا تو مشکل ہے لیکن اب تک کی تاریخ بتارہی ہے کہ عدالت کو فی الفور جواب دینے اور اپنا قبلہ درست کرنے کی بجائے حکومت تاخیری حربے اور قیل وقال کاعمل ہی اپنائے گی۔
کورونا کے آغاز میں ڈاکٹروں نے قیاس آرائی کی تھی کہ اس موذی وبا کی دوسری اور تیسری لہر بھی آئے گی جو پہلی لہر سے کہیں زیادہ ہلاکت خیز اور جان لیوا ہوگی۔ڈاکٹروں کا خدشہ درست ثابت ہوا ا ور وقت نے یہ بتادیا کہ کورونا کی دوسری لہر موت کا رقص بن گئی ہے۔ دنیا میں کورونا کے حملہ کا یہ دوسرا سال ہے۔اس عرصہ میں دنیا کے دوسرے ممالک نے اپنے اپنے یہاں صحت انفرااسٹرکچر کو اس لائق بنالیا ہے کہ وہ کورونا کا مقابلہ کررہے ہیں اور مریضوں کو وقت پر تمام سہولیات دستیاب کرائی جارہی ہیں۔لیکن ہمارے یہاں اس معاملہ میں بے عملی، سردمہری، کوتاہی اور ایک دوسرے کے سر ذمہ داری ڈالنے کی وجہ سے یہ وقت ہاتھ سے چلاگیا اور ہم نے اس دوران دوسری لہر سے نمٹنے کی کوئی تیاری نہیں کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج ملک میں ہر طرف خوف و ہراس طاری ہے۔ ملک کے ہر کونے سے ماتم کی صدائیں آرہی ہیں اور موت دبے پائوں کس وقت کس کا گلا دبوچ لے کچھ کہانہیں جاسکتا ہے۔حکومت کوئی عملی اقدام کرنے کے بجائے بے فیض اجلاس اور میٹنگوں میں مصروف رہنے کا ڈرامہ کررہی ہے۔
عدالت نے یہ درست کہا ہے کہ اس وقت ملک میں قومی ہیلتھ ایمرجنسی کی صورتحال ہے۔ دنیا کی کسی بھی حکومت کیلئے یہ شر م کی بات ہے کہ بدانتظامی، بے عملی اور سرد مہری کی وجہ سے اس کے شہری ہلاک ہوتے رہیں اور حکومت پر ٹک ٹک دیدم کی کیفیت طاری ہو۔ عدالت کو یہ کہنا پڑے کہ وہ منصوبہ عمل بتائے۔ حکومت کا بنیادی اورا بتدائی فرض اپنے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت ہے لیکن ہندوستان کی موجودہ حکومت اس معاملہ میں بری طرح ناکام ثابت ہورہی ہے۔ ایک ایسی آفت جو سرحدوں اور جغرافیائی حدود کی پروا کیے بغیر پوری انسانیت کیلئے قاتل بنی ہوئی ہے، اس سے بچنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہر شخص کو اس سے محفوظ رکھاجائے ورنہ کوئی بھی شخص محفوظ نہیں رہ پائے گا۔ضرورت اس با ت کی ہے کہ حکومت اس معاملہ کی سنگینی کا ادراک کرے اور ہر وہ تدبیر اپنائے جس سے اس موذی وبا سے ہندوستان کو محفو ظ رکھاجاسکے۔
[email protected]
قومی صحت ایمرجنسی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS