’نیشنل الیکشن فنڈ بنایا جائے‘: ایس وائی قریشی

0

نئی دہلی (ایجنسیاں): سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے کہا کہ انتخابی بانڈ پر سپریم کورٹ کا فیصلہ ایک تاریخی فیصلہ ہے۔ عدالت نے انتخابی نظام کے ساتھ ہونے والے ظلم کاخاتمہ کر دیا ہے۔ سابق چیف الیکشن کمشنر نے ایک انٹرویو میں کہا کہ انتخابی بانڈ متعارف کرانے سے پہلے بجٹ تقریر میں اس وقت کے وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے خود کہا تھا کہ انتخابی فنڈنگ کی شفافیت کے بغیر آزاد اور منصفانہ انتخابات ممکن نہیں ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھاکہ ہم 70 سالوں میں وہ شفافیت حاصل نہیں کر سکے۔ ان کے الفاظ سے امید پیدا ہوئی تھی کہ اب وہ شفافیت لائیں گے، لیکن انہوں نے اس کے برعکس کیا۔ اس وقت جو شفافیت تھی وہ بھی ختم ہو گئی۔ انتخابی بانڈ سسٹم میں جو 10-20 کروڑ روپے دے رہاتھا، اگر حکومت نے اسے کوئی فائدہ پہنچایا تو یہ لوگوں کے سامنے نہ آتاتھا۔

یہ کرپشن نہیں تو اور کیا کہیں؟ سپریم کورٹ کے فیصلے نے وہ صورتحال بدل دی ہے۔ اس سے پہلے، ہر کوئی 20ہزار روپے سے زیادہ کے چندے کے بارے میں جانتا تھا۔ اس کی جانکاری الیکشن کمیشن کو بھی دی جاتی تھی۔ الیکشن کمیشن اسے اپنی ویب سائٹ پر بھی ڈالتا تھا۔انہوں نے کہا کہ 2017 میں الیکٹورل بانڈ اسکیم کے متعارف ہونے سے وہی ہوا جس کا کچھ لوگوں کواندیشہ ظاہر کیا تھا، اور تواور الیکشن کمیشن اور ریزرو بینک آف انڈیا نے بھی اس پر اعتراض کیا۔ ہم جیسے لوگوں نے میڈیا میں بہت سے مضامین لکھے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ 6 سال تک اس معاملے میں کچھ نہیں کیا گیا۔

ایک سوال کے جواب میں قریشی نے کہا کہ میرے خیال میں اس کے بعد یہ بحث ہونی چاہیے کہ ہم بیک ٹو اسکوائر ون نہ ہوں۔ بہتری کی طرف بڑھیں اور سوچیں کہ اگر آپ بہتری لائیں تو کیا کریں۔ یا تو پرائیویٹ فنڈنگ پر مکمل پابندی لگائیں، اور حکومت پارٹیوں کو پیسے دے۔ دوسری بات جو اس سے بھی بہتر تجویز ہے، حکومت کو چاہیے کہ وہ نیشنل الیکشن فنڈ بنائے۔ چندہ دینے والی کمپنی یا شخص کو کوئی ڈرنہیں ہوگا۔

چندہ قومی الیکشن فنڈ میں جانا چاہیے اور وہاں سے پارٹیوں کو ان کی کارکردگی کی بنیاد پر رقم تقسیم کی جانی چاہیے۔ جس کو ووٹ ملے اسے 100 روپے فی ووٹ دیا جائے۔ اس قسم کی تجویز بہت موثر ہو سکتی ہے۔ یہ سیاسی جماعتوں کیلئے بہت باوقار ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: اترپردیش کے کاس گنج میں گنگا اسنان کے لیے جارہے اب تک 22 لوگوں کی موت

انہوں نے کہا کہ انتخابات کی سرکاری فنڈنگ کردیں اور نجی چندوں پر پابندی لگادی جائے۔ یا تو 5-5 روپے کا نجی چندہ یا 1-1 روپے کی رکنیت ہو، لیکن کارپوریٹ چندوں پر روک لگاکر عوامی فنڈ بنایا جائے۔ اس میں چندہ دینے والے کو ٹیکس میں چھوٹ ملے۔ دیکھیں 2017 سے پہلے بھی کوئی مثالی صورتحال نہیں تھی۔ 70 فیصد صرف نقد چندہ تھا۔ تبدیلی ٹھوس ہو تو کوئی چور دروازہ نہیں کھول سکتا۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS