اس وقت یوروپ اور سینٹرل ایشیا کے دوممالک میں فرقہ وارانہ نوعیت کے بڑے تصادم کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ اگرچہ آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان نگورنوکاراباخ کا تنازع تقریباًختم سا ہی ہوگیا ہے اور آذربائیجان نے جنگ جیت کرآرمینیا کی دعویداری کو تقریباً ختم کردیاہے مگر اس خطے میں اکثریت میں بلکہ غالب اکثریت آرمینیائی نسل کے لوگوں کی ہے تو یہاں کے لوگ آرمینیاکے ساتھ مل کر یا اب آرمینیا جاکر اپنے ہم مشرب لوگوں کے ساتھ زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔ اگرآپ نگورنوکاراباخ کے جغرافیائی کاجائزہ لیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ ایک پتلی سی راہداری ہی آرمینیاکو نگورنوکاراباخ سے جوڑتی ہے، باقی دونوں خطوں میں ربط ضبط اور ترسیل کا کوئی سلسلہ ہی نہیں ہے۔ دراصل اسی علاقے میں نسل پرستی بہت بڑی پریشانی ہے۔ کئی ممالک اور فریق اسی رویہ کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ آذربائیجان ایک الگ بودباش کے ہوسکتے ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایک ملک وایک سرزمین میں دو طرز زندگی گزارنے والے افراد نہیں رہ سکتے ہیں۔ آذربائیجان سویت یونین کے انتشار کے بعد سے دونوں ملکوں (آذربائیجان اور آرمینیا) کے درمیان اس علاقے کو لے کر دعویداری چل رہی ہے۔ اگرچہ یہ جھگڑا اس سے بھی بہت پرانا ہے اورروس کے شاہی خاندان کے زوال اور اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعد غالباً 1918سے ہی یہ خطہ جھگڑے اور بالادستی کی جنگ کا سبب بناہوا ہے۔ آرمینیا اور سینٹرل ایشیا کے ممالک کے درمیان تنازعات فرقہ وارنہ نوعیت ہیں اور اسی پہلو کی وجہ سے یوروپ آرمینیا اور ترکی یاخلافت عثمانیہ کے درمیان ماضی کے تنازعات کو اچھال کر فرانس اور ترکی کے دیگر حریف بشمول امریکہ اسی ’قتل عام‘ کی معافی مانگنے اور مظالم کے پاداش میں مختلف مطالبات دہراتے رہے ہیں۔ہرسال یہ مغربی ممالک ترکی پردباؤ ڈالنے کے لیے آرمینیا قتل عام یا نسلی تطہیر کے دن کو یاد کرتے ہیں۔ آرمینیا اور ترکی اور یونان کے درمیان چپقلش اس پورے خطے میں دھماکہ خیز ایشو ہے جس کو خوب اچھالا جاتا ہے اور اس کا مقصد خلافت عثمانیہ کے دور کے امور پرترکی کو گھیرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ آرمینیا بنیادی طورپر عیسائی اکثریتی علاقہ ہے اور اس خطے میں روس (سویت یونین) کی سلطنت کی خلافت عثمانیہ کے درمیان بالادستی کی جنگ نے پورے خطے کے سکون برباد کردیا تھا۔ اس وقت یعنی 1987میں روس -ترکی جنگ میں بہت سے خطے خاص طور پر جنوبی قفقار پر آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان ہمیشہ تنازع ہی رہا ہے۔ جنوبی قفقار آج کی آرمینیا، جارجیا اور آذربائیجان ممالک پر مشتمل ہے۔ ان تینوں ملکوں کو قفقار مملکتیں یا Caucasian Statesکہتے ہیں۔جنوبی اورشمالی قفقار علاقے کو وسیع تر قفقار کہتے ہیں۔ یہ علاوہ یوروپ اور ایشیا کو تقسیم کرنے والا ہے۔
آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان نگورنوکاراباخ جو تنازع ہے اس میں تقریباً وہی ہتھکنڈے اختیار کیے جارہے ہیں جو ترک اور آرمینیا کے درمیان تنازع پر کیے گئے تھے۔ آرمینیا اور اس کے ہم خیال ممالک کا دعویٰ ہے کہ پہلی جنگ عظیم میں خلافت عثمانیہ کے دور اقتدار میں نئی عمر کے حکمرانوں جن کو Young Turkکہا جاتا تھا، آرمینیا پر اقتدار کے دوران آرمینیائی نسل کے لوگوں کا صفایا کرنے کی غرض سے باقاعدہ مہم چلائی تھی۔ مشرقی اناطولیہ یعنی آج کے دور کے ترکی سے کردوں اور آرمینیائی نسل کے عیسائی کو ختم کرنے کے لیے قتل عام کیا گیا تھا۔ عہدوسطیٰ سے ہی اس خطے کو ان دونوں نسلوں کی سرزمین اور وطن قرار دیا گیا تھا اور اس میں ترک زبان بولنے والوں کو لگاتار فوجی مشقوں اور حملوں سے اس خطے کو خلافت عثمانیہ میں شامل کرلیا گیا۔ آرمینیا اور ترک النسل افراد کے درمیان اس خطے میں کئی صدیوں تک چلتے رہے۔ خیال رہے کہ آرمینیائی نسل میں اپنی تہذیب، ثقافت اورزبان کو لے کر جذبات بہت شدید تھے اور آج بھی ان میں کافی شدت پسندی پائی جاتی ہے۔ ان ہی جذبات کی بناپر مشرقی اناطولیہ ایک منفرد ثقافت تھی اور آمینیائی کردوں کے ساتھ تال میل کرکے ایک ملاجلا معاشرہ بنائے تھے۔ ترک عوام اور حکام نے مبینہ طورپر آرمینیائی شہریوں کی ہر سطح زیادتیاں کیں اور شاید انھیں وجوہ سے آرمینیائی لوگ اہل ترک کے ساتھ گھل مل نہ سکے اور یوروپ کے عیسائیوں سے زیادہ قربت اور ہم آہنگی رہی اوریہی چیزیں آرمینیائیوں کو علیحدگی کی تحریک چلانے کے لیے اکساتی رہی ہیں۔
ظاہر ہے کہ آرمینیائی لوگ جو کہ کاروباری لحاظ سے مضبوط اور متحدتھے۔ ان کی سرگرمیاں ترک مسلمانوں کے لیے مشکلات پیدا کرنے والی تھیں۔ دونوں طبقات میں بڑھتی منافرت نے 19ویں صدی کے اواخر اور20ویں صدی عیسوی کے اوائل میں تشدد کو بھڑکایا۔ آرمینیائی لوگوں نے ٹیکس دینا بندکردیا تو سرکاری طور پرحکام نے ان کے خلاف کارروائی شروع کردی۔ اس وقت کردقبائل اور سلطنت عثمانیہ کے فوجیوں نے بھی آرمینیائیوں کے خلاف کارروائی کی۔ 1895کے پرتشدد واقعات نے پورے سماج کو بدل کر رکھ دیا۔ یہ تصادم اور پرتشددواقعات اس سے بہت پہلے 18949 اور 1896کے درمیان بھی چلتے رہے۔ بعد میں بھی تشدد کا یہ سلسلہ چلتا رہا اور پہلی جنگ کے دوران اوراختتام تک بدترین فسادات اور قتل عام کارروائیاں ہوئیں۔ خلافت عثمانیہ کے اندرونی سیاسی حالات اور سیاست نے بھی اس تنازع کو شدید کرنے میں اہم رول ادا کیا۔
ترکی اس وقت کے حالات تشدد اور جوابی تشدد کو مغربی ممالک کی مفاہمی اور اصلاحات تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیںہے، ترکی آرمینیائی نسلی تطہیر کی اصطلاح کو قبول کرنے کے لیے تیارنہیں ہے۔ اس پورے خطہ میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان تشد بھڑکتا رہا اوریوروپی ممالک میں خاص طور پر بلقان جن کو Balkan Statesکہتے ہیں،کے علاقے میں مسلمانوں کی پست ہوتی طاقت نے ایسے حالات پیدا کیے کہ پہلی جنگ عظیم میں خلافت عثمانیہ کے نوجوان ترک جن کو ’ینگ ترک‘ کہتے تھے، سرگرم ہوگئے۔
سینٹرل پاورز یعنی جرمنی اور آسٹریلیاوہنگری کے ساتھ مل کر اور ان کا متحدہ طاقتوں Triple Ententeپر جو برطانیہ، فرانس اور روس پر مشتمل ہیں، کے خلاف برسرپیکار ہوگئے۔ 1915میں ترکوں اور روس کے درمیان جنگ میں Battle of Sariamمیں اول الذکر کی شکست ہوئی تھی۔ ترکوں کو لگا کہ یہ آرمینیائی بغاوت کا نتیجہ ہے اور اس کے بعد تشدد اور جوابی تشدد کا دور شروع ہوا۔
اب صورت حال یہ ہے کہنگورنوکاراباخ سے بڑے پیمانے پر مقامی آرمینیائی عوام کی نقل مکانی بڑا تنازع بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ اقتدار اعلیٰ کی بالادستی کو قائم کرنے کے لیے کی جارہی آذربائیجان کی فوجی کارروائی کوکئی مفاہم پہنائے جارہے ہیں اور یوروپین یونین نے آذربائیجان کی جیت اور وہاں سے باغی آذربائیجان کے خلاف کارروائی پر یورپی یونین ناراض ہے اور اس کو آرمینیائیوں کی نسلی تطہیر بنا کر پیش کررہی ہے۔ آذربائیجان اور ترکی کے درمیان تعاون اور فوجی وسفارتی تعلقات سے یوروپی ممالک ناراض تھے۔ روس کے رول کو لے کر بھی آرمینیائی عوام میں ناراضگی ہے۔ آرمینیا کو امیدتھی کہ روس کونگورنوکاراباخ سے انخلاکے معاملہ میں آرمینیائیوں کی مدد کرنی چاہیے تھی، روس کی افواج ان علاقوں میں امن فوج کے طورپر کام کررہی ہے۔ ترکی چاہتاہے کہ آذربائیجان کے ساتھ سرحد نہ ہونے اور زمینی روابط نہ ہونے کی صورت میں آرمینیا سے مدد لی جائے کہ وہ اپنی سرزمین سے اس کو ایک راہداری فراہم کردے تاکہ وہ آذربائیجان میں سڑک کے ذریعہ داخل ہوسکے۔موجودہ حالات میں آرمینیا کا تعاون نہ ہونے کے امکانات زیادہ قوی ہیں تو دونوں حلیف ممالک ایک اور متبادل یعنی ایک راہداری بنانے پر غور کررہے ہیں،جوایران سے ہوکر گزرے گا۔ اس کا مطلب بالکل واضح ہے کہ اگر یہ کاریڈور بن جاتا ہے تو آرمینیا اس بڑے اقتصادی پروجیکٹ میں شامل ہونے سے محروم ہوجائے گا۔n
نگورنوکاراباخ:تنازع کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS