مصر:اقتدار کے بازار میں جمہوریت کی نیلامی: شاہنواز احمد صدیقی

0
مصر:اقتدار کے بازار میں جمہوریت کی نیلامی: شاہنواز احمد صدیقی

شاہنواز احمد صدیقی

مصر کا شمار دنیا کے سب سے متمدن ممالک اور عرب دنیا کے جدید معاشروں میں ہوتا ہے۔ مصر کی تاریخ کے قصے، قرآن کے واقعات ابھی بھی دنیا کو مسحور کرتے ہیں۔ اہرام مصر سے وابستہ سیاحوں کو متوجہ کرتے ہیں، فرعون آج تک پوری دنیا کے لیے تازیانۂ عبرت ہے۔ دور جدید میں بھی مصر کی قیادت نے دنیا کو راہ دکھائی۔ جمال عبدالناصر، حسنی مبارک کا نام مصر سے بہت شدت سے وابستہ ہے۔ دریائے نیل کی وسعت، زرخیزی اوراس سے وابستہ تمام تنازعات آج بھی اہل عرب اور اہل افریقہ کو الجھائے ہوئے ہیں۔
2011میں جب عوامی مظاہروں نے پور ے مغربی ایشیا کو اپنی زد میں لیا تو اس وقت مصر کے اچانک اور تیزی سے بدلے حالات نے پوری دنیا کو متوجہ کیا۔ قاہرہ کے تحریراسکوائر کے واقعات براہ راست نشر ہوئے۔ حسنی مبارک اوران کے بیٹوں پرچلنے والے مقدمات کی روداد کو پوری دنیا نے ٹکٹکی باندھ کر دیکھا تھا۔ مصر کی اخوان المسلمین نے پوری دنیا کو ڈرا دیا اور ایسا لگا کہ پوراخطہ اسی نظریہ کی زد میں آجائے گا اوراب عالم عرب میں عدم استحکام کا وہ دور شروع ہوا کہ آج بھی اس کے ارتعاش اور اثرات محسوس کیے جاتے ہیں۔ اخوان المسلمین کی مختصر مدت کی منتخب حکومت کے بعد طاقتور فوج نے اپنا روایتی رول اختیار کیا اور مرسی حکومت کو بے دخل کرنے کے بعد مصر میں سابق فوجی سربراہ جنرل عبدالفتح السیسی 2014کے الیکشن میں 96فیصد ووٹ حاصل کرکے اقتدار میں آئے تھے اور لگاتار دو مرتبہ سے الیکشن جیت کربااختیار اور اعلیٰ ترین عہدے پر منتخب ہونے میں کامیابی حاصل کی ۔ مگراس مرتبہ کئی حلقوں، قومی اور بین الاقوامی سطح پر عبدالفتح السیسی کے طور طریقوں پر سخت سوال اٹھنے شروع ہوگئے ہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب مصر کے سب سے مضبوط بااختیار ادارے ——فوج—— کے سابق سربراہ کے طریقہ انتخابات پر انگلیاں اٹھی ہیں۔ 2018کے الیکشن میں اپوزیشن امیدواروں کو حاشیہ پر دھکیل کر یا حراست میں انتخابات جیتنے کے الزامات سیسی اور ان کے ہم نواؤں پرلگائے گئے۔ اپوزیشن نے الزام لگایا ہے کہ صدر عبدالفتح السیسی کے خلاف الیکشن لڑنے کا ارادہ کرنے والے لیڈروں کو حمایت دینے اوران کے نام سفارش کرنے والے پرقدغن لگایاجارہاہے۔ سول ڈیموکریٹک مومنٹ (سی ڈی ایم) نے کہاہے کہ وہ افراد جو صدر کے خلاف الیکشن لڑنے کاارادہ رکھتے ہیں، ان کی نامزدگی کرنے والوں کے سامنے مشکلات پیدا کی جارہی ہیں۔ قومی الیکشن اتھارٹی نے ان خبروں کی تردید کی ہے۔
مصر کے انتخابی قواعد کے مطابق صدر کے عہدے کے لیے الیکشن لڑنے والے افراد کو 5اصولوں میں سے 25ہزار افراد کی حمایت کی ضرورت ہوتی ہے۔ کم ازکم 20ممبرپارلیمنٹ کی حمایت درکار ہوتی ہے۔ ہر امیدوار کو ان میں سے کوئی ایک شرط 14اکتوبر تک پوری کرنی ہوتی ہے۔
عبدالفتح السیسی کے خلاف کھڑے ہونے والے سب سے اہم سیاست داں احمدالطنطاوی کی امیدواری کے لیے ضروری نامزدگی حاصل کرنے کی کوشش کرنے والی ایک خاتون سیاست داں اوررضاکار کا الزام ہے کہ ایک سرکاری دفتر میں ان کو روکنے کے لیے لوگوں نے ان کے ساتھ دست درازی کی اور ان کو روکا۔ احمدالطنطاوی کی سیاسی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لیے ان کے مواصلاتی آلات اور ٹیلی فون وغیرہ میں جاسوسی سافٹ ویئر نصب کیے جارہے ہیں۔
مصر کے ایوان اقتدارپر یہ بھی الزام لگے کہ فرانس کی طرف مصر کو فراہم کرائی جانے والی اطلاعات اور مواصلاتی نظام کو اندرون ملک سیسی مخالفین کے خلاف استعمال کیاجارہاہے۔ یاد رہے کہ فرانس کا زبردست اثر و رسوخ رہا اور فرانسیسی حکومت افریقہ میں اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے مصر کے ساتھ تعاون کرتی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان خفیہ اطلاعات کے تبادلہ کے سمجھوتے ہیں، فرانس مصر کو جدید ترین جنگی اورجاسوسی میں معاون آلات اور ہتھیار فراہم کرتا ہے۔ 2014میں السیسی کے اقتدار میں آنے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تعاون میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ مصر فرانسیسی جنگی جہاز رافیل کا خریدار ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان لیبیا سے لگی ہوئی سرحد پر نگرانی کا سجھوتہ ہے اور دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ 2011میں لیبیا میں کرنل قذافی کا تختہ پلٹ کے بعد مغربی ممالک خصوصاً فرانس، امریکہ اور برطانیہ نے پورے خطے پر اپنی دسترس بنانے کے لیے ہر قسم کے قانونی غیرقانونی ہتھکنڈے استعمال کیے ہیں۔ فرانس کے ساتھ تعلقات کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے الزامات نے فرانس اور مصردونوں میں سرخیاں بٹوری ہیں۔ فرانس کے صدر کو2020میں ایمنوئل میکروں کی حکومت نے اعلیٰ ترین سرکاری اعزاز Grand Cross legion of Honourسے نوازا تھا۔
مصرمیں 2013کی فوجی بغاوت کے بعد فوج کے سربراہ عبدالفتح السیسی نے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا۔ اپنے پہلے صدارتی الیکشن میں سیسی کو 96فیصد ووٹ ملے تھے۔ انھوںنے اپنی جیت 2018میں دہرئی تھی۔ بعدازاں اقتدار پر گرفت کو مضبوط بنانے کے لیے انھوںنے اپنے اقتدار میں دو اورسال کی توسیع کرلی اور اس بات کا بھی التزام کرلیا کہ وہ تیسری مرتبہ بھی الیکشن میں کھڑے ہوسکیںجبکہ اس سے قبل ایک شخص دو مرتبہ ہی الیکشن لڑسکتا تھا۔
صدر اب تک صرف چارسال کے لیے منتخب ہوتاتھا مگر اب صدر کی مدت کارچار سے بڑھا کر 6سال کر دی گئی ہے۔ اسی طرح اگر وہ تیسری مرتبہ الیکشن جیتتے ہیں تو وہ مزید6سال تک اقتدارپر قابض رہیں گے۔ مذکورہ بالا تبدیلیاں انھوںنے ایک ریفرنڈم کراکر کی تھیں۔ 10دسمبر سے شروع ہونے والا یہ الیکشن تین روز تک چلے گا۔ قانون کے مطابق اگر دسمبر کے الیکشن میں کوئی بھی امیدوار 50فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل نہیں کرپایا تو 8سے 10جنوری کے درمیان الیکشن کا دوسرا مرحلہ ہوگا۔
مصر کے ممکنہ طورپر دومرحلوں میں ہونے والے انتخابات میں اس وقت امیدوار اپنی قسمت آزمارہے ہیں۔ یہ امیدوار اپوزیشن کی ایک اہم آواز سابق ممبرپارلیمنٹ احمد الطنطاوی ہیں یہ سول ڈیموکریٹک مومنٹ (سی ڈی ایم) سے تعلق رکھتے ہیں۔ایجپٹین سوسل ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار فریدزہران، عبدالسناد یماما، جووافدپارٹی کے سربراہ ہیں۔ ایک اور متوقع امیدوار جمیلہ اسماعیل ہیں۔یہ خاتون لبرل کانسٹی ٹیوشن پارٹی یادستور پارٹی کی سربراہ ہیں۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS