شاہنوازاحمد صدیقی
ہندوستان کے ایک پڑوسی ملک میانمار جس کو کسی زمانے میں برما کہا جاتا تھا کے روہنگیا مسلمانوں کی زندگی دوبھر ہے۔ روہنگیا صدیوں سے اس جنگ زدہ اور آرمی کے استبداد کے شکار ملک میں رہتے آرہے ہیں مگر اب فوج نے—— اقتدار پر اپنے غاصبانہ قبضہ سے توجہ ہٹانے کے لیے اور شہریوں کو ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار کرنے کے لیے روہنگیاؤں کو تخت مشق بنا رکھاہے۔ پانچ سال قبل اپنے فوجی جنٹا نے لاکھوں روہنگیاؤں کو ملک چھوڑنے کے لیے مجبور کردیا اور زبردستی کشتیوں میں سوار کردیا تاکہ وہ سمندربرد ہوجائیں۔ اسی بدترین حرکت پر پوری دنیا میں کہرام مچ گیا مگر برما کی فوج کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ المیہ یہ ہے کہ مختلف مذاہب، نسلوںاور تجارتی طبقات پر مشتمل یہ میانمار کا سماج بنیادی طورپر بودھ اکثریتی ہے اوراکثر استبدادی طاقتوں کی طرح حکمراں فوجی جنٹا نے بھی مذہب کا سہارا لے کر روہنگیاؤں کا ناطقہ بند کررکھا ہے۔
روہنگیاؤں کو میانمار کی فوجی حکومت اپنا شہری ہی تسلیم نہیں کرتی ہے۔ اس طرح اپنے ملک میںیہ لوگ بے یارومددگار ہیں کیونکہ میانمارمیںیہ تسلیم شدہ نسل نہیں ہے لہٰذا نہ تو ان کو گھر دیا جاتا ہے نہ کھانا، نہ نوکری اور نہ ہی وہ تمام حقوق جو کسی بھی شہری کو دیے جاسکتے ہیں۔ ان کو Detentionسینٹرس میں رکھ کر بدترین زندگی گزارنے پر مجبور کیاجاتاہے۔ بدقسمی یہ ہے کہ کچھ غیرملکی طاقتیں اقتدار پرقابض فوجی جنٹا کی پشت پناہی کررہی ہیں اور عالمی سطح پر ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہونے دیتیں۔ چین اس خطے میں اپنا اثر ورسوخ بنائے رکھنے کے لیے حکمراں فوجی جنٹا کی انسانیت سوز اور بربریت آمیز حرکتوں کی طرف سے آنکھ موندے ہوئے ہے۔ دراصل پانچ سال قبل 25اگست کو حاشیہ پر زندگی بسر کرنے والے روہنگیاؤں کے دہشت گرد گروپ نے فوج پرحملہ کردیاتھا ،اسی کو بہانہ بنا کر پوری نسل کی 700,000آبادی کو ایسی بری طرح سے بربریت کا نشانہ بنایاگیا کہ ان پر زمین تنگ کردی گئی ۔فوج کی انتقامی کارروائی سے جان بچا کر ان کے بچوں عورتوں اور بوڑھوں نے ڈٹینشن مراکز کے قریب کے سمندروں میں پناہ لی۔ روہنگیاؤں کی بڑی آبادی کو پڑوس کے کئی ملکوںمیںپناہ کے لیے مجبور ہونا پڑا۔ سب سے بڑی تعداد نے بنگلہ دیش کا رخ کیا۔
امریکی انتظامیہ نے میانمار پر الزام لگایا ہے کہ وہ نسل کشی کررہا ہے اور انسانیت کے خلاف جرائم کا مرتکب ہورہاہے۔ دنیا بھرکی رضاکار تنظیمیں روہنگیاؤں کی نسل کشی سے حفاظت کے لیے سامنے آرہی ہیں۔ اقوام متحدہ نے پڑوسی ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ ان مصیبت زدہ لوگوں کو تحفظ دیں۔ امریکہ نے اقوام متحدہ کے ذریعہ انسانیت سوز جرائم کی غیرجانب دارانہ تفتیش کے لیے علیحدہ سے اقتصادی تعاون دیاہے۔ ایکسی ویزل قتل عام قانون کے سیکشن 5اور انسداد اذیت رسانی قانون (انسداد)کے تحت امریکی وزارت خارجہ نے سخت اقدام کیے ہیں۔
امریکہ اقوام متحدہ کو ایک ایسا آزادانہ تفتیشی نظام فراہم کرنے کے لیے ایک ملین امریکی ڈالر مختص کرچکا ہے۔اس تفتیشی نظام کو Independent Investigative Mechanism for Myanmarقرار دیا گیا ہے۔ امریکہ اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں اور دیگر عالمی اداروں کے ساتھ تعاون کرکے فوجی حکمرانوں کو اپنے عزائم سے باز رکھنے کی کوشش کررہاہے۔ روہنگیاؤں کو مظالم سے نجات دلانے اور مجرموں کو کیفرکردار کردار تک پہنچانے کے لیے پچھلے دنوں افریقہ کے ملک گامبیا نے انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس (آئی سی جے) کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ ایک بڑے طبقے کا کہناہے کہ اس بابت امریکہ گامبیا کی حمایت کررہاہے۔
امریکہ کا کہناہے کہ مارچ2022میں امریکہ اوراس کے حلیف ملکوں نے برمائی بااثرشخصیات اور دیگرپانچ اداروں کے خلاف انسانیت سوز مظالم کرنے کے کارروائی کی ہے۔ خیال رہے کہ 25فروری2021میں ہونے والی دوبارہ فوجی بغاوت کے بعد روہنگیاآبادی پرڈھائے جانے والے مظالم کی تعداد اور شدت لگاتار بڑھتی جارہی ہے۔ امریکی دفترخارجہ کا کہناہے کہ اب تک 1700افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ ان میں معصوم بچوں، عورتوں اور رضاکارافراد بھی شامل ہیں۔ فوج نے 13000 افرادکوفوجی حراست میں لے لیاتھا۔
امریکہ اوراس کے حلیفوں کے ذریعہ عائد پابندیاں
امریکی دفترخارجہ کاکہناہے کہ 2021میں یوم افواج کے موقع پر میانمار کی فوج نے کارروائی کرکے 100افراد کو موت کے گھاٹ اتاردیاتھا۔ اس پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے امریکہ اور اس کے حلیفوں نے پانچ افراد اور اداروں پرپابندیاں عائد کی تھیں۔ امریکہ کے دفترخارجہ کے آفس آف فارن اسیٹس کنٹرول (اوایف اے سی) نے کاروباری آنگ ہیلنگ او ، نینگ ٹٹ آنگ اور سٹ ٹینگ آنگ کے علاوہ فوج کے سینئر افسران ڈاؤہین اور کوکواو شامل ہیں۔
امریکہ کے اسی مالیاتی ادارے نے برما کی لائٹ انفینٹری ڈویژن کو ہی کرسمس پر کیے گئے قتل عام کے لیے مورد الزام ٹھہرایاتھا۔
اس کے علاوہ جن اداروں پر پابندی عائد کی گئی ہے،ان کے نام یہ ہیں:
n میانمار کیمیکل اینڈ مشینری کمپنی لمٹیڈ(ایم سی اینڈایم)
n انٹرنیشنل گیٹ وے گروپ آف کمپنی لمیٹیڈ(آئی جی جی)
n نہٹّوگروپ آف کمپنیز
n ایشین گرین ڈیولپمنٹ بینک (اے جی ڈی بی)
خیال رہے کہ مذکورہ بالاتمام ادارے وہاں کی فوج کے اہم عہدیداروں کے ہیں۔ امریکہ نے انتظامی احکامات نمبر14014جاری کرکے ان کے اثاثوں اور جائیدادوں کو منجمد کردیاہے۔ اس کے علاوہ بھی امریکہ نے 27اداروں سے متعلق 70افراد پربھی پابندی عائد کردی ہے۔
اہم اعدادوشمار
2016:صوبہ راکھن سے بنگلہ دیش منتقل ہونے والے رفیوجی کی تعداد تقریباً43,000ہے۔
2012کے بعد سے میانمار سے جان بچا کر بھاگنے والے رفیوجیوں کی مجموعی تعداد 168,500،ان میں سے 44,000افراد صرف 2016میں ہی آئے تھے۔ سمندری کشتیوں سے ملیشیا میں پناہ لینے والے روہنگیاؤں کی تعداد تقریباً122,500۔ 2012سے 2015کے درمیان بے گھر اور ملک بدر ہونے والی یہ بڑی آبادی تھی۔
اقوام متحدہ کا کہناہے کہ اس وقت میانمار کے راکھن صوبہ میں 600,000 روہنگیاپھنسے ہوئے ہیں، جبکہ روہنگیاؤں کی ایک بڑی تعداد پڑوسی ممالک میں جان بچاکر بھاگنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ اقوام متحدہ نے کہاہے کہ روہنگیا دنیا کا سب سے زیادہ پریشان اور مصیبت زدہ طبقہ ہے۔
میانمار کے 1982کے شہریت قانون کے مطابق روہنگیاوہاں کے 135 نسلی گروپوں میں شامل نہیں ہیں جن کو باقاعدہ سرکار کے ذریعہ تسلیم کیا گیاہو۔ وہاں کے قانون کے مطابق روہنگیاؤں کو تحفظ کے بنیادی حقوق حاصل نہیں ہیں۔ اس وجہ سے اس طبقہ کی غالب اکثریت جنسی، صنفی، اقتصادی تعصب کا شکارہوتے ہیں۔ وہاں کی حکومت صرف ان نسلوں کو ہی اپناشہری مانتی ہے جو 1823سے قبل وہاں مقیم ہیں۔ میانمار کی سرکار نے شہریت کے کئی زمرے وضع کیے ہیں، ان میں روہنگیاؤں کو کسی بھی زمرے میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ یہ لوگ غیرمنقسم ہندوستان کے بنگلہ بولنے والے لوگ ہیں، جن کو برطانیہ کے دوراقتدار میں براعظم ہندوستان سے ’برما‘ میں منتقل کیاگیا۔ کیونکہ یہ آبادی میانمار کی شہریت نہیں رکھتی ہے لہٰذا ان کی آبادی کتنی ہے، اس کو لے کر کافی تضادات ہیں، سرکار ان کے اعدادوشمار سرکاری طورپر نہیں بتاتی ہے۔ مگر ایک غیرمصدقہ اندازے کے مطابق ان کی آبادی میانمار میں 50ملین ہے۔
دراصل آزادی کے بعد سے ہی میانمار میں روہنگیاؤں کے خلاف کافی ناراضگی ہے۔ اقوام متحدہ کا کہناہے کہ روہنگیا کے ساتھ جو بھی رویہ اختیار کیا جارہاہے، وہ نسلی تطہیر یانسل کشی کے زمرے میں آتاہے۔
ایک طبقہ کا خیال ہے کہ انگریزوں کے ساتھ تعاون کرنے کی وجہ سے ہندوستان کے بنگلہ بولنے والے روہنگیاؤں کو عتاب کا نشانہ بنایاگیا۔ برما کی آبادی انگریزوں کے ساتھ بالکل تعاون نہیں کررہی تھی اور انگریزوں نے مجبورہوکر ہندوستان سے لوگوں کو بلاکر یہاں بسایاتھا۔n