مسلمان، سیاسی آکسیجن اور قانون : علی خان محمودآباد

0

علی خان محمودآباد
لوک سبھا کے انتخابات عنقریب ہیں- ایک طرف مسلمانوں کے مستقبل کے سلسلہ میں گفتگو ہو رہی ہے تو دوسری طرف تشدد پسند متعصب طاقتوں کے حملے بڑھ گئے ہیں۔ پچھلے کئی برسوں سے بی جے پی نے بْل ڈوزر کا استعمال کرتے ہوئے یہ پیغام بھی دیا کہ قانون سے بھی اب مسلمانوں کو امید نہیں رکھنی چاہیے۔2019 میں شاہین باغ اور دیگر احتجاجات میں مسلمانوں نے دستور کو اپنی ڈھال بنائی تھی، لیکن تب سے لے کر آج تک قانون سے ہی مسلمان مایوس ہو رہے ہیں۔گیان واپی کی مثال سامنے ہے۔ جب عدالتوں کے ذریعے ہندوتوا کا منصوبہ پائے تکمیل تک پہنچایا جا سکتا ہے تو پھر بْلڈوزر اور بھیڑ کی کیا ضرورت ہے؟
یاد رہے کہ قانون محض ایک معاشرے کے حکّام یا اعلی طبقے کے افراد اور منتظمین کے نظریوں کی عکاسی کرتا ہے، جمہوریت میں دستور اور آئین یعنی قانون ایک اکثریت کی خواہشات کی عکاسی کرتا ہے، مقصد یہ ہے کہ کسی چیز یا کسی بات کا قانونی ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہوتی کہ وہ اصولی طور پر صحیح ہے یا غلط۔ جرمنی یا جنوبی افریقہ یا امریکہ میں قانون ہی کے ذریعے سماج کو باٹا جاتا تھا اور مذہب، رنگ و نسل کی بنا پر فرق کیا جاتا تھا۔حال ہی میں مولانا ارشد مدنی نے فرمایا کہ لوگوں کا عدالتوں پر اعتبار کمزور ہو گیا ہے اور تمام قانون کی کتابوں کو آگ لگا دینا چاہیے۔ لیکن ہم کو یہ بھی معلوم ہے کہ قانون ہتھیار بھی بن سکتا ہے اور آستھا، عقیدے اور جزبات کے سامنے اصول و قواعد نہیں ٹک پاتے ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے ان تمام افراد اور تنظیموں کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں ہوئی جنہوں نے ’’دھرم سنسد‘‘ میں مسلمانوں کے قاتل عام کی بات کی یا ’’سنسد‘‘ میں جن لوگوں نے مسلمانوں سیاستدانوں کے لیے نہایت غلط و مشتعل باتیں کہیں۔
بعض لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کیونکہ بی جے پی کی سیاست بے لگام ہو چکی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ بڑھتا تعصب اور انتہاپسندی ان کی سوچی سمجھی چال ہے۔در اصل بی جے پی چاہتی ہے کہ رفتہ رفتہ مسلمان خوف اور ڈر کی وجہ سے ناامید ہو جائیں اور چنانچہ سیاسی اعتبار سے مجبوراً خاموشی اختیار کر لیں۔2014کے بعد بی جے پی نے واضح کر دیا کہ وہ سیاست میں مسلمانوں کی حصہ داری کو بلکل نظرانداز کر کے بھی حکومت قائم کر سکتی ہے اور پھر2022 کے اتر پردیش کے انتخابات نے یہ ثابت کر دیا کہ مسلمانوں میں بے نظیر سیاسی اتحاد کے باوجود بھی حزب مخالف کی سرکار نہیں بن پائی۔ وقتاً فوقتاً بی جے پی نے یہ تاثر قائم کیا کہ وہ بعض مکتب فکر یا طبقے کے مسلمانوں کے ہمدرد ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ نا وہ صوفی اور شیعوں کے حامی ہیں اور نا پسماندہ مسلمانوں کے۔ یہ گورکھ دھندہ فقط لوگوں کو آپس کے نظریاتی اختلافات میں الجھانے کے لیے ہے ۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟ کچھ ایسی تنظیمیں وجود میں آئی ہیں جن میں مسلم پیش پیش ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو بی جے پی سے گفتگو کر کے اپنا سیاسی مستقبل محفوظ کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو سیاسی خاموشی اختیار کر کے تجارت اور تعلیم کی طرف توجہ کرنی چاہیے اور اعتماد کرنا چاہیے کہ بی جے پی ایسی صورت حال میں ان کو نہیں چھیڑے گی۔ کچھ مسلمان بی جے پی میں شامل ہو بھی چکے ہیں اور آنے والے دنوں میں ان کی تعداد بڑھے گی لیکن یہ بھی واضح ہے کہ وہ بی جے پی کے مرہون منت رہیں گے۔ اگر ان کو کوئی عہدہ ملے گا تو اس میں ان کو منتخب کیا جائے گا ناکہ ان کو حصہ داری دی جائے گی۔اس کو ایک قسم کا سیاسی خیرات مانا جا سکتا ہے۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ بی جے پی محض ایک سیاسی پارٹی نہیں ہے بلکہ وہ ایک مذہبی اور ثقافتی تنظیم کا سیاسی چہرہ ہے۔ آر ایس ایس کی تاریخ اور اس کا وجود اقلیتوں اور خاص کر مسلمانوں کی مخالفت پر مبنی ہے۔
گزشتہ 10 برسوں نے ایک چیز واضح کر دی ہے اور وہ یہ ہے کہ مذھب اور ثقافت کے علاوہ بی جے پی نے کسی چیز کے بارے میں سوچا ہی نہیں ہے۔ فی الحال اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ بی جے پی بدلنے والی ہے بلکہ گزشتہ کئی مہینوں میں کئی قابل مذمت واقعہ ہوئے لیکن بی جے پی کی اعلی کمان نے خاموشی کے ذریعے یہ پیغام دیا کہ آج ہندوستان میں قتل عام کی دھمکی دینے کے باوجود فتنہ پرداز قوتوں اور متعصب لیڈروں کے خلاف کچھ نہیں کیا جائے گا۔ آنے والے مہینوں اور برسوں میں ہندوستان کی اقتصادی صورت حال بدتر ہونے والی ہے البتہ غریبوں میں خیرات بٹنے سے بی جے پی ووٹ محفوظ کرے گی اور کچھ تجارتی خاندانوں کی ترقی ہندوستان کی ترقی قرار دی جائے گی۔ اس کے علاوہ رفتہ رفتہ ان ہی افراد کی اجارہ داری بڑھے گی اور قومی وسائل کچھ لوگوں اور کمپنیوں کی ذاتی املاک بن جائے گی ۔ایسے حالات میں مسلمانوں اور دیگر کمزور اور پسماندہ طبقوں کے خلاف عام لوگوں کو اور بھی اکسایا جائے گا۔
ایک طرح سے گزشتہ10 برس سے مسلمانوں کا سیاسی آکسیجن آہستہ آہستہ ختم کیا جا رہا ہے۔ سیاسی آکسیجن سے مراد جمہوریت میں برابر کی حصہ داری اور قوانین اور عدالت وغیرہ کی ڈھارس۔ جیسے ہم نے عرض کیا، 2024 -2014کی سیاست کا مطالعہ ہم کو اس نتیجہ پر پہنچاتا ہے کہ بی جے پی نے ( مسلمانوں اور سیکولر تنظیموں کی غلطیوں نے) مسلمانوں کو سیاسی اچھوت بنا دیا ہے۔ ایک جمہوریت میں یہ منزل بہت خطرناک ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ اگر لوگوں کو سیاسی اعتبار سے اپنی آواز بلند کرنے کا موقع نہیں ملا تو پھر کچھ گْمراہ اور مایوس لوگ تشدد کی راہ اپنا سکتے ہیں۔ یہ ملک کے امن و امان اور سلامتی کے لیے تو مضر ہو گا لیکن بی جے پی کی سیاست کے لیے بہت مفید ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ پھر ان کو ہمیشہ کے لیے ایک بہانا مل جائے گا۔ اسرائیل اور فلسطین کے درمیاں امن و امان اس لیے ناممکن ہے کیونکہ اب اسرائیل کی داخلی سیاست پوری طرح سے اس تنازعہ پر مبنی ہے۔ تشدد اور تعصب پر مبنی سیاست کا فائدہ فقط یہ ہوتا ہے کہ غریب لوگ آپس میں لڑتے رہتے ہیں اور بر سر اقتدار لوگ کی دولت اور سیاسی طاقت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ایسی صورت حال میں مسلمانوں کو دو باتوں پر اپنی توجہ مرکوز کرنی پڑے گی۔ پہلے بات سیاسی اتحاد ہے اور دوسری بات اجتماعی سطح پر تقریب بین المذاہب کی راہ کو اپنانا۔ حقیقت یہ ہے کہ اب ہندوستان میں موجودہ صورت حال کا حل سیاسی نہیں بلکہ اجتماعی ہی ہو سکتا ہے۔ اس میں ہندو بھائیوں اور بہنوں کو بیدار ہونا پڑے گا کہ ہندوتوا ایک سیاسی نظریہ ہے جس کا ہندو دھرم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ مسلم اس لڑائی میں براہ راست کچھ نہیں کر سکتا، لیکن ان ہندو طبقوں کو بیدار ضرور کر سکتے ہیں جن پر اعلیٰ طبقے آج بھی ظلم کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ گاندھی جی کو اسی لیے مارا گیا کیونکہ وہ ہندو دھرم کا دوسرا نظریہ پیش کر رہے تھے۔ ہم ایک نیا گاندھی تو پیدا نہیں کر سکتے لیکن یہ یاد رکھ سکتے ہیں کہ تشدد کی راہ سب کے لیئے خطرناک ثابت ہو گی۔ غصہ چہ جائے جائز بھی ہو لیکن غصہ کو ’’پی‘‘ جانے میں ہی حکمت عملی ہوتی ہے۔نا امیدی تو کفر کے مترادف ہوتی ہی ہے لیکن سنت اس بات کا بھی درس دیتی ہے کہ سیاق و سباق دیکھ کر راہ منتخب کرنی چاہیے۔ بی جے پی اگر مسلمانوں کو مجبور کرنا چاہتی ہے تو قوم کو یاد رکھنا چاہیے کہ جبار اور قادر وہ ہے جو قوموں کی تقدیر کو لمحوں میں بدل دیتا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS