حیدرآباد: آمدنی، صحت اور تعلیم میں عوامی مساوات ناگزیر ہیں۔ مسلمانوں کی دیہی سطح پرآمدنی ایس سی اور ایس ٹی سے بہتر ہے جب کہ اوسط آمدنی سے کم ہے۔ شہری سطح پر یہ ایس سی و ایس ٹی سے بھی کم ہے۔ عوامی صحت خدمات کے حصول میں مسلمان دیگر طبقات کے مقابلے میں پیچھے ہیں۔ جب کہ صحت کے معاملے میں مسلمانوں کا اوسط بہتر ہے اور خواتین کا استحصال بھی دیگر طبقات کے مقابلے کم ہے۔ ہائر سکنڈری تعلیم میں مسلم طلبہ کا اسکول چھوڑنا ایس سی، ایس ٹی سے زیادہ ہے۔ جبکہ یہ پرائمری سطح پر ایس سی اور ایس ٹی کے برابر ہے۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز ماہر معاشیات پروفیسر امیتابھ کنڈو، صدر نشین، مابعد سچر تنقیحی کمیٹی، نے کل شام مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں ”تعلیمی پالیسی راؤنڈ ٹیبل: تعلیمی معیار، این ای پی اور نظر انداز کردہ عوام“ کے زیر عنوان راؤنڈ ٹیبل میں کیا۔ اس کا اہتمام مانو اور سنٹر فار ڈیولپمنٹ پالیسی اینڈ پریکٹس کے اشتراک سے کیا گیا تھا۔ گول میز کا انعقاد تعلیمی معیار، قومی تعلیمی پالیسی اور نظر انداز کردہ آبادی کے متعلق تبادلہ خیال کے سلسلہ کا آغاز ہے جو سی ڈی پی پی، یو ایس آئی پی آئی، ایم ایس اکیڈیمی اور ایم سی آر ایچ آر ڈی آئی کا مشترکہ پراجیکٹ ہے۔ پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ، وائس چانسلر انچارج نے صدارت کی۔ پروفیسر صدیقی محمد محمود، رجسٹرار انچارج سرپرست تھے۔ پروفیسر عامر اللہ خان، ریسرچ ڈائرکٹر سی ڈی پی پی نے میزبانی کے فرائض انجام دیئے۔
پروفیسر کنڈو نے کہا کہ عالمی انڈیکس میں ترقی کے علاوہ مساوات کو بھی پیمانہ بناکر ملکوں کو جانچا جاتا ہے۔ جہاں ہندوستان کا رینک بنگلہ دیش سے بہتر ہوسکتا تھا وہیں مساوات کی کمی کے باعث یہ رینک نیچے چلا گیا۔ جب تک ہم عوام میں مساوات کو فروغ نہیں دیں گے تب تک ملک قابل قدر مقام حاصل نہیں کرسکتا اور ملک کی ترقی کے لیے اپنائی گئی اہم ترین اسکیمیں جیسے میک ان انڈیا وغیرہ کا خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکل سکتا۔
پروفیسر عبدالشعبان، اسکول آف ڈیولپمنٹ اسٹڈیز، ٹاٹا انسٹیٹیوٹ آف سوشیل سائنسس، ممبئی نے کہا کہ جب تک اردو والے فلاسفر تیار نہیں کریں گے ان کی تعلیمی حالات سدھر نا مشکل ہے۔ ہمیں طئے کرنا ہے کہ ہمارے عصری اسکول کس طرح کے ہوں۔ ان کے نصاب اور تعلیم پر توجہ دینی ہے۔ انہوں نے زبانوں کی ترقی کے لیے دو امور کی نشاندہی کی۔ ایک ریاستی سرپرستی، دوسرے بازار کی ضرورت۔ انہوں نے مہاراشٹرا کے اردو مدارس پر اپنی تحقیق کی روشنی میں کہا کہ مہاراشٹرا میں دیگر ریاستوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ اردو میڈیم اسکولس ہیں۔ لیکن ان کے حالات کافی ناگفتہ بہ ہیں۔ کئی اسکولوں میں صرف ایک ٹیچر ہے۔ جب اس سلسلے میں انتظامیہ سے رجوع کیاگیا تو بتایا گیا کہ تحفظات کے تحت موجود نشستوں پر اردو والے دستیاب نہیں ہیں۔ بارہویں تک آتے آتے 90 فیصد اردو میڈیم طلبہ ڈراپ آؤٹ ہوجاتے ہیں۔ ہوسکتا ہے اس میں سے 20 فیصد انگریزی یا دیگر میڈیم میں چلے جاتے ہوں۔ پھر بھی 70 فیصد طلبہ ترک تعلیم کرتے ہیں۔
پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ، انچارج وائس چانسلر نے کہا کہ ہندوستان کا دستور سب سے اچھا ہے۔ کیونکہ اس میں مساوات کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے۔ اگر ہم مختلف سطحوں پر بہتر مظاہرہ نہیں کرپا رہے ہیں تو یہ ہماری خامی ہے۔ انہوں نے قومی تعلیمی پالیسی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس میں ہمہ موضوعاتی تعلیم اور مہارتوں پر توجہ دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نصاب کی تدوین کے وقت مارکٹ سے جڑے افراد کو مدعو کرتے ہوئے ان کی رائے کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے تاکہ مضمون کے ساتھ طلبہ اس کے ذریعہ روزگار بھی حاصل کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ اساتذہ بنا تیاری کے کلاس میں نہ جائیں۔ وہی استاد بہتر ہوتا ہے جو اپنے آپ کو اپنے مضمون کا طالب علم بناکر رکھے اور اس میں ہو رہی نئی نئی تبدیلیوں سے واقف ہو۔ انہوں نے برائے نام تحقیق سے گریز کا مشورہ دیا۔
پروفیسر صدیقی محمد محمود، رجسٹرار انچارج نے تعلیمی نظام کی کامیابی کو ملک کی کامیابی قرار دیا۔ پروفیسر عامر اللہ خان نے نظامت کے دوران اسپیکرس سے تعلیمی پالیسی کے متعلق دلچسپ سوالات کیے۔ انہوں نے دوران نظامت کہا کہ تلنگانہ میں اقلیتوں کا بجٹ تو آرہا ہے لیکن اس کا مناسب استعمال نہیں ہو رہا ہے۔ یہ بجٹ ان اموپر خرچ کیا جارہا ہے جن پر مسلم سماج کو کرنا چاہیے۔ اقلیتی بجٹ کا استعمال ان کے لیے اسکالر شپس و انفراسٹرکچر تعمیر کرنے پر کیا جانا چاہیے۔پروفیسر محمد مشاہد، صدر شعبہئ تعلیم و تربیت اس کے چیف کوآرڈینیٹر تھے۔ پروفیسر شاہدہ، پروفیسر عبدالسمیع صدیقی، شعبہئ تعلیم و تربیت اور دیگر شعبوں کے اساتذہ نے گول میز میں شرکت کی۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS