محمد فاروق اعظمی
مغربی بنگال اسمبلی انتخاب میں بھارتیہ جنتاپارٹی کے لیڈران بالخصوص وزیراعظم نریندر مودی اور وزیرداخلہ امت شاہ دو ایشوز پر بہت زیاد ہ فوکس کررہے ہیں۔پہلا ہے بنگال میں بدعنوانی و تشدد اور دوسراہے مسلم خوشنودی ومسلم دراندازی۔ ان دونوں ایشوز پر مودی- شاہ کی جوڑی روزانہ نت نئی گل افشانیاں کررہی ہے۔ یہ لیڈران ایسے اعداد و شمار پیش کررہے ہیں جن کا حقائق سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہے۔بنگال انتخاب کیلئے پارٹی کے ’ سنکلپ پتر‘ میں بھی یہی دونوں ایشوز سرفہرست رکھے گئے ہیں۔ امت شاہ کا کہنا ہے کہ اگر ان کی حکومت بنتی ہے تو کابینہ کے پہلے ہی اجلاس میں شہریت ترمیم قانون اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزن نافذ کیاجائے گا۔بنگلہ دیش سے ہونے والی در اندازی کو ختم کرنے کیلئے سرحدوں پر ایسے انتظامات کیے جائیں گے کہ انسان تو دور پرندہ بھی پر نہیں مار پائے گا۔بھارتیہ جنتا پارٹی کا دعویٰ ہے کہ مغربی بنگال کی کل 10.20کروڑ کی آبادی میں مسلمانوں ڈھائی سے تین کروڑ ہیں اور ان میں سے ایک کروڑ بنگلہ دیشی درانداز ہیں جو ہندوستانی وسائل پر قابض ہوکراپنی زندگی گزار رہے ہیں اورمغربی بنگال میں رہنے والے اصل ہندوستانی شہری محرومی، بے روزگاری اور بھکمری کے شکار ہیں۔ایسے دراندازتقریباً ایک کروڑ ہیں جنہیں شناخت کرکے ہندوستان کی سرحدوں سے باہر نکالنے کیلئے شہریت ترمیم قانون (سی اے اے)اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی)کا بیک وقت نفاذ پارٹی کے عہد نامہ میں بنیادی حصہ ہے اور یہ کام مغربی بنگال میں 2مئی کے بعد بننے والی بی جے پی حکومت اپنی پہلی کابینہ میٹنگ میں ہی کرے گی۔
اب بی جے پی کا یہ خواب پوراہوتا ہے یا نہیں یہ تو آنے والا وقت بتائے گا لیکن اس کی وجہ سے مغربی بنگال میں بھی مسلمان خود کو خدشات سے گھرا محسوس کررہے ہیںاور ان کی ترجیحات میں تعلیمی، سماجی اور معاشرتی بہبود کے بجائے تحفظ کا مسئلہ حاوی ہوتا چلا جارہا ہے۔ تحفظ کے معاملے میں ایسی رنگ آمیزی بھی کی جارہی ہے کہ مسلمان ترنمول کی غلامی کا طوق پہننے کیلئے خود اپنی گردن آگے بڑھانے پر مجبو ر ہورہے ہیں۔
دس برسوں کی ترنمول کانگریس حکومت میں دیکھا جائے تو بنگال کے مسلمانوں کو نہ تو تعلیمی تحفظ ملا ہے اور نہ ہی معاشرتی اور معاشی تحفظ حاصل ہوا ہے۔ جسمانی تحفظ کیلئے مسلمانوں کی اکثریت آج دلتوں اور قبائلیوں سے بھی بدتر صورتحال میں اپنی زندگی کے دن کاٹ رہی ہے۔ووٹ ڈالنے سے پہلے بنگال کے مسلمانوں کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ وہ فقط ’جان کی امان‘ پر کب تک اپنا ہر حق قربان کرکے جانوروں جیسی زندگی گزارتے رہیں گے۔
حقیقی صورتحال کیا ہوگی اس پر ابھی صرف قیاس ہی کیا جا سکتا ہے مگر بی جے پی جس جارحانہ انداز میں اپنی مہم چلارہی ہے اور یکے بعد دیگر ترنمو ل کانگریس کے سیکولر لیڈروں کو اپنے دامن میں سمیٹ رہی ہے۔ اس سے حالات کے رخ کا اندازہ ضرور کیاجاسکتا ہے۔ مسلم خوشنودی اور دراندازی کے نام پر غیر مسلم ووٹروں کو متحد کرنے کیلئے بی جے پی کو ایک ہتھیار بھی مل گیا ہے جس کا استعمال وہ سیاسی جلسوں میں دھڑلے سے کررہی ہے۔بنگال کے وسائل پر بنگلہ دیشی مسلمانوںکے قابض ہونے کا شوشہ چھوڑ کر بی جے پی غیر مسلم ووٹروں کو بہت حد تک متحد کرچکی ہے۔
اس سے قبل مغربی بنگال کے انتخابات نظریات، حکومت کی پالیسی، عوام کے حقوق، ترقی، بے روزگاری اور غذائی تحفظ جیسے ایشوز پر ہوتے رہے ہیں۔ دراندازی اور مسلم خوشنودی کا ایشو مغربی بنگال کیلئے نیا ہے لیکن بی جے پی نے اس ایشو کو یہ کہہ کر نیا رخ دے دیا ہے کہ بنگال کے وسائل پر اصل باشندوں کے بجائے در انداز بنگلہ دیشی قابض ہوگئے ہیں اوران کا قبضہ مستحکم کرنے کیلئے ترنمول کانگریس اور ممتابنرجی ان کی سب سے بڑی پشت پناہ ہیں۔ بنگال کے غیر مسلم ووٹروں میں بی جے پی کا یہ نقطہ نظر بڑی تیزی سے مقبول ہوا ہے۔حد تو یہ ہے کہ اس ایشوپر اسے ترنمول کانگریس کے بڑے بڑے لیڈروں کا بھی ساتھ ملا ہے۔ ایسے 75لیڈران جو کل تک ترنمول کانگریس میں تھے آج بی جے پی کے امیدوار کی حیثیت سے انتخابی میدان میں اترے ہوئے ہیں۔
4,096کلو میٹر کی ہندوستان-بنگلہ دیش سرحد میں 2,216.7 کلو میٹر مغربی بنگال میں ہے۔ 2ہزارکلومیٹر سے بھی زائد اس سرحدی علاقہ میں مغربی بنگال کی کل 294اسمبلی سیٹوں میں سے تقریباً120سیٹیں واقع ہیں، ان حلقوں پر بنگلہ بولنے والے مسلمانوں کی کثیر آبادی ہے اور ان کے ووٹ فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔ ان حلقوں کے مسلمانوں میں این آر سی کا خوف اور ان حلقوں سے باہراور پور ی ریاست کے غیر مسلم ووٹروں میں این آر سی کے نفاذ کی نویدپولرائزیشن کا سب سے بڑا سبب بن گئی ہے۔
دوسری طرف پہلے سے ہی مسلم ووٹوں پر اپناحق سمجھنے والی ترنمول کانگریس کوبھی این آر سی کے نام پر ایک ایسا ہتھیار مل گیا ہے جس سے کانگریس اور سی پی ایم کے حامی باقی ماندہ مسلمانوںکو اپنی پناہ میں آنے پر مجبور کررہی ہے۔ اس طرح جہاں بی جے پی خود کو ہندوئوں کا چمپئن قرار دے کر ووٹ حاصل کرنے کی کوشش میں ہے تو ترنمول کانگریس خود کو مسلمانوں کا نجات دہندہ بتاکر ان کے ووٹ پر اپنی مکمل اجارہ داری کا دعویٰ کررہی ہے۔
اس دو انتہائوں کے درمیان گھرے مسلمانوں کو ووٹ ڈالنے سے قبل اپنی موجود ہ حقیقت اورحیثیت کا بھی ادراک ہونا چاہیے۔ سچائی یہ ہے کہ ترنمول کانگریس نے اپنی 10برسوں کی حکومت میں مسلمانوں کی فلاح و بہبود اورا نہیں مین اسٹریم میں لانے کی کوئی کوشش ہی نہیں کی ہے اور نہ سچر کمیشن کی سفارشات کے مطابق کوئی عملی اقدام کیا ہے۔ مسلمانوں میں تعلیم کی شرح بھی وہی ہے جو آج سے دس سال قبل بایاں محاذ کے زمانے میں تھی۔نئے اسکول،کالج کھولے جانے کے بجائے درجنوں اسکول بند ہوچکے ہیں۔ خاص کر اضلاع میں صورتحال انتہائی سنگین ہے۔ روزگار کے معاملے میں بھی مسلمان پوری ریاست کے منظر نامہ سے غائب ہیں۔ اضلاع کی مسلم آبادی کی ماہانہ فی کس آمدنی 2500 سے 3000 ہزار روپے کے درمیان ہے۔روزگار کیلئے لاکھوں کی تعداد میں مسلم نوجوان دوسری ریاستوں میں ہیں۔کورونا لاک ڈائون کی وجہ سے آنے والے نوجوان بھی روزگار نہ ملنے کی وجہ سے ایک بار پھر دوسری ریاستوں کو کوچ کررہے ہیں۔کولکاتہ کی مسلم بستیاں مویشیوں کا باڑ ابنی ہوئی ہیں۔10X10مربع فٹ کے کمرے میں پورا ایک خاندان رہنے پر مجبور ہے۔بڑھتی آبادی کے باوجود یہ بستیاں رقبہ میں نہیں پھیل رہی ہیں بلکہ ان کی وسعت اوپر کی طرف اٹھ رہی ہے۔ دوسرے علاقے یاتو مسلمانوںکی استطاعت سے دور ہیں یا پھر انہیں وہاں رہائش دستیاب نہیں ہوتی ہے۔ 400مربع فٹ زمین پر چار منزلہ اور پانچ منزلہ ایک دوسرے میں گھسے ہوئے انتہائی غیرمحفوظ مکان بھی اسی مجبوری کی کوکھ سے جنم لے رہے ہیں۔ مسلم بستیوں میں سہولتوں کے فقدان کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کی ایک قابل لحاظ تعداد آج بھی سڑک کنارے لگے ہوئے نلوں پرننگے بدن نہاتی ہے۔ سیاسی میدان میں ابھرنے والی آواز کو یا تو دبادیاجاتا ہے یا پھر اسے اپنے ساتھ مدغم کرکے ختم کردیاجاتا ہے۔بنگال کے مولانا صدیق اللہ چودھری اس کی زندہ مثال ہیں۔
دس برسوں کی ترنمول کانگریس حکومت میں دیکھا جائے تو بنگال کے مسلمانوں کو نہ تو تعلیمی تحفظ ملا ہے اور نہ ہی معاشرتی اور معاشی تحفظ حاصل ہوا ہے۔ جسمانی تحفظ کیلئے مسلمانوں کی اکثریت آج دلتوں اور قبائلیوں سے بھی بدتر صورتحال میں اپنی زندگی کے دن کاٹ رہی ہے۔ووٹ ڈالنے سے پہلے بنگال کے مسلمانوں کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ وہ فقط ’جان کی امان‘ پر کب تک اپنا ہر حق قربان کرکے جانوروں جیسی زندگی گزارتے رہیں گے۔
[email protected]