مسلمانو! سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاؤ

0

 

محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

اس وقت ملک عزیز ہندوستان میں مسلمان جس پوزیشن میں پہنچ گئے ہیں اور اپنے وجود و بقا کی اس جنگ میں جس موڑ اور پوائنٹ پر آگئے ہیں ، اس میں کامیابی کے لئے سب اہم اور بنیادی چیز ایمان و یقین اور عزم و حوصلہ کی مضبوطی کے بعد اتحاد و اتفاق اور اجتماعیت ہے، اس کے بغیر ہم اس ملک میں کبھی حوصلہ اور عزت و وقار کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتے اور نہ ہی اپنی حیثیت عرفی قائم رکھ سکتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ دنیا میں سب سے منتشر قوم آج مسلمان ہی ہے، ان کے یہاں جو انتشار، کشمکش، کشاکش، تناو، کھنچاؤ، تانا تنی، رقابت، حسد، علاقائی اور ادارتی عصبیت،منفی ذہنیت و منافست عہدہ کے لیے جھگڑا فساد ہے، وہ کسی دوسری قوم میں نہیں ہے ، اس کی ایک تازہ مثال امارت شرعیہ میں انتخاب امیر شریعت کا قضیہ ہے، کہیں سے نہیں لگتا کہ یہ ہندوستان کے ایک انتہائی باوقار اور بافیض ادارہ کے امیر کا انتخاب ہے، جو حالات ابھی ہیں اور جو باہمی تناو ہے، اس سے صاف معلوم ہورہا ہے کہ ان میں اکثریت اپنے مفاد کے لیے لڑ رہے ہیں اور اس کے لیے کسی کی بیجا حمایت اور طرف داری کر رہے ہیں۔ ان میں زیادہ تر وہ علماء اور جبہ و دستار والے ملا و مولوی ہیں جو اسٹیج پر اتحاد و اتفاق، زہد و تقوی کا چیخ چیخ اور گلا پھاڑ کر درس دیتے ہیں اور لوگوں کو مکارم اخلاق اور تزکیہ کی دعوت دیتے ہیں اور خود ان اوصاف سے محروم ہیں۔ ان کی حرکتیں دیکھ کر آج یہود بھی شرما رہے ہوں گے ۔ کہ یہ مسلمان عہدے اور منصب کے لیے،کس قدر سطحیت ، بداخلاقی اور ذلیل حرکت پر اتر آئے ہیں اور شرم و حیا کی چادر اتار لیے ہیں۔ بعید نہیں کہ اقتدار کی ہوس ان کو فرقہ پرستوں سے بھی مدد لینے پر آمادہ نہ کردے، اللہ اس امت کی حفاظت فرمائے آمین
اس وقت عوام سے زیادہ خواص کہلانے والے آپس میں متحد ہوجائیں اس کی ضرورت ہے۔ جب تک خواص آپس میں متحد نہیں ہوں گے اس وقت تک عوام متحد نہیں ہو گی۔
غرض اس وقت جو حالات ہیں اس کے مقابلہ کے لیے رجوع الی اللہ اور باہمی اتحاد و اتفاق ضروری ہے ، اس کے ذریعہ ہی حالات کی اصلاح ممکن ہے، اگر ہم باہم لڑتے رہیں گے تو باطل طاقتیں ہمیں چور چور کردیں گی اور ہماری ہوا اکھڑ جائے گی، قرآن مجید نے وارنگ دے دی ہے۔ ولا تنازعوا، فتفشلوا و تذھب ریحکم۔۔ اور آپس میں مت لڑو ورنہ ناکام ہو جاو گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔۔۔۔
اس لیے مسلمانو! متحد ہو جاو اور اپنی صفوں کو درست کرلو اور اتحاد کی طاقت سمجھنے کی کوشش کرو۔۔ اور جان لو اور حقیقت کو نگاہ میں رکھو کہ !
۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اتحاد و اتفاق اور اجتماعیت کسی بھی قوم کے لئے استحکام و ارتفاع کی خشت اول ہے کیونکہ چھوٹی چھوٹی جماعتیں جب مل جاتی ہیں تو ناقابل تسخیر ہوجاتی ہیں اسی لئے قرآن و حدیث میں اتحاد قائم کرنے اور اختلاف سے بچنے کی بڑی تاکید کی گئی ہے اور امت کو آگاہ کیا گیا ہے کہ ولا تنازعوا فتفشلوا و تذھب ریحکم جھگڑو مت ورنہ کمزور پڑ جاو گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی ۔
*اتحاد و اتفاق* یہ کسی بھی قوم کا سرمائہ حیات اور اس کے تحفظ وبقاء کا ضامن ہوا کرتا ہے۔ جو قوم اتحاد و اتفاق اور اجتماعیت کی دولت سے مالا مال ہوتی ہے وہ زمانہ میں پیش قدمی کرتی ہے پنپتی ہے اور عروج و بلندی کی منزلیں طے کرتی ہے ۔
اتحاد و اتفاق اقوام و ملل کی عروج و بلندی کی شاہ کلید ہوا کرتے ہیں، ان کی بدولت چھوٹی چھوٹی جماعتوں نے بڑے بڑے لشکروں اور حکومتوں کو جھکنے پر مجبور کر دیا ہے ۔ ماضی میں مسلمانوں کی کامیابی و کامرانی عروج و بلندی اور اقبال و فتح مندی کے پیچھے جہاں دیگر بہت سے اسباب تھے، اس میں ایک اہم سبب اور پہلو اتحاد و اتفاق کا نظر آتا ہے ۔
دشمن طاقتیں جانتی ہیں کہ مسلمانوں کی کامیابی کا راز ان کے اتحاد و اتفاق اور ان کی اجتماعیت میں پوشیدہ ہے اس لئے وہ پوری قوت اس پر صرف کر رہی ہیں کہ یہ قوم متحد نہ ہوسکے افسوس کہ ہم میں سے بہت سے لوگ دشمنوں کو کامیاب ہونے کا موقع دے رہے ہیں اور مسلمانون میں اختلاف و انتشار کا سبب بن رہے ہیں ۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ یہ آپسی انتشار و افتراق اور تقسیم و تفریق اس قوم میں ہے جس کا نقطہ اتحاد لا الہ الا اللہ تھا جس کا مرکز اتحاد کعبتہ اللہ تھا ، اقبال مرحوم نے اس قوم کی ترجمانی کی ہے ۔۔۔

منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی ایک اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

پوری دنیا کے مسلمانوں کا اتحاد و اتفاق اور اشتراک و اجتماعیت مذھب کی بنیاد پر ہے ، حج نماز روزہ زکوة میں اتحاد و یکسانیت یہ سب مسلمانوں کی اجتماعیت کا مظہر ہے، قوم مسلم کامسئلہ دیگر قوموں اور ملتوں سے باکل الگ ہے، یہاں اتحاد کی وجہ صرف ایک ہے وہ کلمئہ توحید ہے ، اس مرکزی نقطئہ اتحاد کو بھلا کر کسی اور بنیاد پر اگر ہم متفق ہوں گے تو وہ اتحاد وقتی تو ہوسکتا ہے دائمی نہیں وہ اتحاد بے جان اور وہ اجتماعیت بے حیثیت ہوگی جلد ہی اس کی ہوا نکل جائے گی ۔ *اقبال مرحوم* نے کہا تھا :

اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوت مذھب سے مستحکم ہے جمعیت تیری

اتحاد و اجتماعیت ایک عظیم قوت ہے ، اتحاد زندگی کی علامت، ترقی کی نوید اور قوت و غلبہ کا راز ہے ، جبکہ اختلاف و انتشار موت ہے ، ذلت و رسوائی اور مغلوبیت کا کھلا اعلان ہے، اقبال مرحوم نے وحدت کی اس طاقت کے راز کو یوں سمجھایا ہے :

ہے زندہ فقط وحدت افکار سے ملت
وحدت ہو فنا جس سے وہ الہام بھی الحاد
وحدت کی حفاظت نہیں بے قوت بازو
آتی نہیں کچھ کام یہاں عقل خداداد

اس میں کسی کو شک نہیں اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس وقت برصغیر میں بھی اور عالمی سطح پر بھی مسلمانوں کی ذلت، رسوائی، تنہائی، ناکامی، مغلوبیت و مظلومیت اور ادبار و پستی کی دو بنیادی وجوہات و اسباب ہیں ۔ ایک دین و شریعت سے دوری و بے تعلقی دوسرے آپسی اختلاف و انتشار اور کشمکش ۔ جب تک مسلمان ان دونوں پہلوؤں کو اپنی زندگی میں عملی طور پر نہیں لائیں گے ان کی ادبار و نکبت، محرومی اور ناکامی و بربادی کی تاریخ طویل سے طویل تر ہوتی چلی جائے گی ۔ مسلمانوں کی کامیابی اور کامرانی کے لئے اعتصام بحبل اللہ (یعنی اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنا) بھی ضروری ہے اور اجتماعیت بھی ۔ اللہ تعالٰی قرآن مجید میں اس جانب ہمیں یوں متوجہ فرماتے ہیں کہ *و اعتصموا بحبل اللہ جمعیا ولا تفرقوا* اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں منتشر نہ ہو ۔
اسی لئے علماء کرام اور مصلحین امت ہمیشہ مسلمانوں کو ان دو باتوں کی طرف متوجہ کرتے رہے ہیں اور خود بھی متوجہ ہوں۔
*شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی رح* جب مالٹا سے واپس ہوئے تو انہوں نے برملا اس کا اظہار و اعتراف کیا کہ میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اس پر غور کیا کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی و دنیوی ہر حیثیت سے کیوں تباہ ہو رہے ہیں؟ تو اس کے دو سبب معلوم ہوئے ۔ ایک ان کا قرآن مجید چھوڑنا ،دوسرے آپس کے اختلاف اور خانہ جنگی ۔
اس کے بعد انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ اپنی باقی زندگی قرآن مجید کی تعلیم اور اتحاد امت کے لئے وقف کردوں گا اور پھر انہوں نے عملا اس کو برت کر دکھایا اور اپنی زندگی کے باقی ایام کو انہی کاموں کے لئے وقف کر دیا ۔ گو اس کے بعد حضرت شیخ الہند اس دار فانی میں بہت کم دن رہے ۔
ماضی قریب کے ایک متبحر اور عبقری عالم دین، امت مسلمہ کے حدی خواں ،نقیب ملت، قاضی شریعت حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی رح نے اتحاد ملت کو اپنی زندگی کا مشن اور وظیفہ بنایا تھا ۔ انہوں ایک موقع پر مسلمانوں کو اتحاد کی دعوت دیتے ہوئے اپنے کلیجے کو نکال کر امت سے یوں خطاب فرمایا تھا ۔
“اتحاد کب ضروری نہیں رہا،لیکن موجودہ حالات میں جب کے آپ کے بدخواہ بڑے بڑے بنیادی اختلاف کے باوجود صرف آپ کی عداوت کے جذبہ سے متحد ہو رہے ہیں، جن لوگوں کا ایک ساتھ ایک اسٹیج پر بیٹھنا بھی ناقابل تصور تھا،وہ ایوان اقتدار میں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ہوئے ہیں، اور لوگ آب و آتش کے اجتماع کو کھلی ملاحظہ کر رہے ہیں ( آنکھوں دیکھ رہے ہیں) ان حالات میں ہمارے لئے اتحاد اور وحدت کلمہ پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہے ۔ اگر تاریخ کے اس نازک موڑ پر بھی ہم نے اپنی صفوں کو متحد نہیں رکھا اور اپنے کو انتشار سے نہیں بچایا تو اس سے زیادہ بدبختی اور کم نصیبی کوئی اور نہیں ہوسکتی،اور اس طرح سے ہم یقینا اس ملک میں ایک باعزت قوم کی حیثیت سے رہنے کا حق کھو دیں گے، ولا تنازعوا فتفشلوا و تذھب ریحکم۔ اس وقت اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ ہماری زبان وحدت امت کا بیان ہو،ہمارا قلم محبت کا نقیب اور دلوں کو جوڑنے کا سامان ہو۔ چھوٹے چھوٹے جزوی اور فروعی مسائل میں ہم اپنے آپ کو الجھانے سے بچیں ،سیاسی وابستگیوں کو امت کے وسیع تر مفادات کی راہ میں حائل نہ ہونے دیں ،یہی اس وقت دین سے اور امت سے محبت کا تقاضہ ہے۔ اگر ہم نے اپنی صفوں کو متحد رکھا، اور دوش سے دوش اور قدم سے قدم ملا کر آگے بڑھے، تو انشاءاللہ آئندہ بھی کامیابی ہمارے قدم چومے گی، کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی،جو ہماری راہ سے نہ ہٹے ،اور کوئی دشواری نہ ہوگی جو آسان نہ ہو” ۔ ( اقتباس از خطاب حضرت قاضی مجاہد الاسلام قاسمی رح)
کاش امت اپنے بھولے سبق کو یاد کرلے اور متحد ہوکر یہ ثابت کر دے ۔۔
قوم گویا جسم ہے افراد ہیں اعضاء قوم
منزل صنعت کے رہ پیمانے ہیں دست و پائے قوم

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS