ابونصر فاروق
اسلام کسی انسان کا بنایا ہوا نہیں بلکہ اللہ کا بھیجا ہوا دین ہے۔یہ دین آسمان سے زمین پر اُس وقت آیا تھا جب حضرت آدم علیہ السلام خلیفہ بن کر زمین پر آئے تھے۔اللہ تعالیٰ نے اُن کو اس ہدایت کے ساتھ بھیجا تھا کہ آئندہ بھی میراجو حکم تم تک پہنچے گا اُس کی مکمل پیروی کر تے رہنا۔آدم علیہ السلام کے بعد ایک لاکھ پچیس ہزار انبیا آئے اور سب اپنی قوم سے اسی دین کی پیروی کرانے کی ذمہ داری لے کر آئے جو بابا آدم لے کر آئے تھے۔ اور آخر میں آخری نبی حضرت محمد ؐ کو بھی اللہ تعالیٰ نے اسی دین کے فائنل ، مکمل اورایڈوانس ورژن کے ساتھ دنیا میں بھیجا کہ وہ قیامت تک پیدا ہونے والی انسانی آبادی کو اسی دین کا پابند بنائیں، تاکہ دنیا کی زندگی کا امتحان پاس کر کے وہ جب واپس اللہ تعالیٰ کے پاس جائیں تو اجر اور انعام کے طور پر جنت کا انعام پائیں۔
رسول اللہؐ اسی دین کی علمی اور عملی دعوت اپنی قوم کو زندگی بھر دیتے رہے اور آپ کی حیات پاک میں ہی یہ دین پورے عرب میں پھیل گیا اوریہ عرب قوم کا دین بن گیا۔ رسول اللہؐ نے حج کے خطبہ میں حکم دیا تھا کہ:’’جو لوگ یہا ں موجود ہیں، وہ یہ باتیں اُن لوگوں تک پہنچائیں جو یہاں موجود نہیں ہیں۔ہو سکتا ہے سننے والا اسے زیادہ اچھے طریقے سے سمجھے اور محفوظ رکھے۔‘‘(مسلم) خلفائے راشدین کے دور میںاسلام عرب سے نکل کر پورے ایشیا، افریقہ اور مغربی دنیا کے ساحل تک پہنچ گیااور آج اسلام کے ماننے والے اور مسلم و مومن کہے جانے والے پوری دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے جتنی کسی مسلم ملک میں بھی نہیںہے۔
چونکہ دین اسلام کا یہ آخری اور فائنل ایڈیشن ہے اور قیامت تک کے انسانوں کے لئے آیا ہے اس لئے اس دین کو کسی بھی دور میںمٹایا نہیں جا سکے گا۔اس دین کی بنیاد اللہ کی کتاب قرآن مجید ہے، جس کی حفاظت کا وعدہ اللہ نے خود لیا ہے۔پھر یہ کہ شروع سے آج تک یہ دین کتابوں کی شکل میں فلسفہ کی طرح لوگوں تک نہیں پہنچا ہے، بلکہ ہر دور میں اس دین کی سچی اورمکمل پیروی کرنے والے اللہ کے نیک اور صالح بندے موجود رہے ہیں اور آج بھی ہیں، جن کو دیکھ کر اور جن کی باتیں سن کر دوسرے لوگ ایمان لاتے اور مسلم ومومن بنتے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ایسے نیک ، متقی اور صالح مسلم و مومن حضرات کی تعداد مسلسل گھٹتی چلی جا رہی ہے۔جو نئے لوگ اس دین کو قبول کریں گے اُن کی پہلی ذمہ داری تو یہ ہے کہ وہ اس دین کی مکمل پیروی کریں ۔آدھی ادھوری نہیں۔
دوسرے یہ کہ وہ دوسروں تک اس دین کو پہنچائیں۔دوسروں تک پہنچانے کا کیا طریقہ ہو گا اُس کی ہدایت ان آیات میں دی جا رہی ہیں:’’اور اُس شخص سے اچھی بات اورکس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں۔
اور اے نبی نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں،تم بدی کو اُس نیکی سے دور کر و جو بہترین ہو۔تم دیکھو گے کہ جس کے ساتھ تمہاری عداوت پڑی ہوئی تھی، وہ جگری دوست بن گیا ہے۔
یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر اُن لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں۔اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر اُن لوگوں کو جو بڑے نصیبے والے ہیں۔اگر تم شیطان کی طرف سے کوئی اکساہٹ محسوس کرو تو اللہ کی پناہ مانگ لو،وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔‘‘(ح م السجدہ:۳۳تا۳۶)
یعنی سب سے اچھا مسلم اور مومن وہ ہے جو اللہ کے بندوں کو کسی فرقے کی طرف نہیں بلکہ اللہ کی طرف بلائے اور مسلم و مومن بننے کی دعوت دے اور اُس کے اعمال اور پوری زندگی ایسی نورانی اور روحانی ہو جسے دیکھ کر ہی ہر انسان کے دل میں اُس کی قدر وقیمت اور محبت پیدا ہواور آخری بات یہ کہ وہ اپنی پوری زندگی، لباس،وضع قطع اور طور طریقے سے مسلمان دکھائی دے۔ دوسری بات یہ کہ نادان اور ناسمجھ لوگ اُس سے دین کی باتیں سن کر ناراض ہوں گے اور اُس کی مخالفت کریں گے۔ایسی حالت میں اُس کو ایسے لوگوں کے ساتھ بھی نیک سلوک کرتے رہنا ہے۔اللہ جب ہدایت کا ارادہ کرے گاتو نادان انسان بھی دعوت دینے والے کا قدرداں بن جائے گا۔اگر شیطان بدلہ لینے کا وسوسہ پیدا کرے تو اس سے بچنے کے لئے اللہ کی پناہ مانگنا ضروری ہے۔
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو۔دوڑ کر چلو اُس راہ پر، جو تمہارے رب کی بخشش اور اُس جنت کی طرف جاتی ہے جس کی وسعت زمین اور آسمان جیسی ہے،اور وہ اُن اللہ سے ڈرنے والوں کے لئے مہیا کی گئی ہے۔جو ہر حال میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں خواہ بد حال ہوں یا خوش حال۔جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کر دیتے ہیں، ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں۔() اور جن کا حال یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی فحش کام اُن سے ہو جاتا ہے یا کوئی گناہ وہ کر کے وہ اپنے اوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو فوراً اُنہیں اللہ یاد آجاتا ہے اور وہ اُس سے اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں، کیونکہ اللہ کے سوا کون ہے جو گناہ معاف کر سکتا ہے اور وہ جان بوجھ کر اپنی غلطی پر ضد نہیں کرتے۔‘‘(آل عمران)
ہر مسلم و مومن کو یہ ہدایت دی جارہی ہے کہ سستی ، کاہلی اور بے دلی سے نہیں بلکہ اپنی ذات سے اُس جنت کے لئے دوڑ کر چلے یعنی ہر وقت یہی کام کرتا رہے۔جن لوگوںکے درمیان وہ کام کرے وہ اگر محتاج اورنادار ہوںتو دل کھول کر اپنی دولت اُن کی ذات پر خرچ کرے چاہے وہ خود خوش حال ہو یا بد حال۔اس درمیان جو لوگ اُس کے کام کی مخالفت کریں اور اُس کو ناکام بنانا چاہیں اُن پر غصہ نہ کرے بلکہ اُن کو معاف کردے۔اگر کبھی غلطی سے خود اُس سے کوئی گندا یا گناہ کا عمل ہو جائے تو فوراًاللہ سے اپنے قصور کی معافی مسلسل مانگتا رہے اور توبہ و استغفار کرتا رہے۔اپنے کو معصوم اور بے گناہ سمجھ کر اپنی غلطی پر ضد اور اصرار نہیں کرے۔
ایک طرف ان ساری باتوں پر غور کیجئے اور ان کے ہر نکتے کو سمجھنے کی کوشش کیجئے اور پھر آج کے جومسلمان ہیں اُن پر دھیان دیجئے۔پہلے یہ سمجھئے کہ سارے مسلمان ایک جیسے نہیں ہیں۔ان کی اکثریت دنیا دار اور آخرت سے غافل ہے،لیکن وہ بھی اپنے آپ ایسی نہیں بن گئی ہے۔دنیا دار اور دولت کے لالچی موجودہ مذہبی ٹولے کی بد اعمالیوں کو دیکھ کر ان لوگوں کو مذہب کے نام سے ہی نفرت ہو گئی ہے۔وہ سمجھتے ہیں کہ یہ مذہبی فرقہ کوئی ایسا کام تو کر نہیں رہا ہے جس سے مسلمانوں کو اور انسانیت کو فائدہ پہنچے بلکہ یہ صرف نادان اور انجان لوگوں کو بے وقوف بناکر اُن کو ٹھگنے کے کام میں لگا ہوا ہے۔ یہ فرقہ نہ اُن کو دین کی صحیح تعلیم دے رہا ہے نہ اُن کے اخلاق اورکردار سدھار رہا ہے اور نہ ہی موجودہ حالت میں کیسے دنیامیں عزت آبرو اور دین و ایمان کی سلامتی کے ساتھ زندہ رہا جا سکتا ہے وہ بتا رہا ہے۔
یا بیکار کی مذہبی تفرقہ بازی میں الجھائے ہوئے ہے کہ نماز ایسے پڑھو ایسے مت پڑھو،جس کی دین میں کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔
دنیا میں آج بھی ایسے نیک اور اچھے مسلمان ہیں جو نیکی کے راستے پر چلنا چاہتے ہیں مگر کوئی اُن کی رہ نمائی کرنے والا نہیں ہے۔اوپر لکھی ہوئی باتوں پر جو مسلمان بھی عمل کرے گا وہ چاہے عالم و فاضل یا مولانا مولوی ہویا نہ ہو اُس کے اچھے کردار اور اخلاق کو دیکھ کر لوگ جانیں گے کہ اسلام اچھے انسان کیسے بناتا ہے۔ اُن کے اندر کی نیکی اس نمونے سے تحریک اور طاقت ملے گی او ر وہ اچھا انسان بھی جو ابھی ادھورا ہے پورا نیک اور اچھا انسان بننے کی کوشش کرے گا۔ ہر مرد مسلمان کا فرض ہے کہ وہ خود بھی دین کی تمام باتوں پر عمل کرے اور زبان سے زیادہ اپنے عمل سے دین اسلام کی برکتوں کا نمونہ پیش کر کے لوگوں کو دین پر عمل کرنے اور نیکی کی راہ پر چلنے کا رجحان اور شوق پیدا کرے۔