یوروپی یونین آزادخیالی اور جمہوریت پسندی پر مبنی اصولوں پر کام کرنے اور ان خیالات کی ترویج اور ترقی کے لیے کوشاں ہے اور ان زرّیں اصولوں پرعمل آوری کو مدنظر رکھتے ہوئے یوروپی یونین امدادی اور فلاحی اسکیم کے لیے اقتصادی اور اخلاقی مدد فراہم کرتی ہے۔
ہنگری کے وزیراعظم وکٹراربان کوقانوی طورپر اپنے اختیارات مل چکے ہیں اور ایک آرڈیننس کے ذریعہ ان کو غیرمعینہ مدت کے لیے حکمرانی کے اختیارت مل چکے ہیں۔
کم وبیش یہی صورت حال بیلاروس میں بھی ہے۔ بیلاروس کے حکمراں الیگزینڈر لوکاشیگو بھی شامل ہیں جس کو یہ ’اعزاز‘ حاصل ہے کہ وہ یوروپ کے سب سے زیادہ طویل عرصہ تک عہدہ سے چپکے رہنے والے صدر ہیں۔ یہ 1994سے تادم تحریر ملک کے اعلیٰ ترین عہدے پر قابض ہیں ۔ وہ لگاتار حکومت میں ہیں اور روسی صدر ویلادیمیر پتن کی طرح اپنے عہدے پر قابض رہنے کے لیے اس اقتدار کومضبوط سے مضبوط تر کرنے کے لیے ہرہتھکنڈا اختیار کررہے ہیں۔ وہ روس کے صدر ویلادیمیرپتن کے ہمدردوںاورحامیوںمیں سے ہیں اور یوکرین جنگ میں ان کی مدد کررہے ہیں۔
اسی طرح یوروپ کے کئی دیگر ملکوں بلجیم، آسٹریلیا اور ڈنمارک میں شدت پسندوں کو عروج مل رہا ہے اوراس کا اثر وہاں کے سماج اور سیاسی زندگی پرواضح طور پر دیکھا جارہاہے۔
سوئیڈن کے حالیہ الیکشن میں نسل پرستوں سے ہمدردی رکھنے والی سیاسی پارٹیوں کے اتحاد نے کامیابی حاصل کی ہے۔ یوروپ کے انتہائی سرد اور اسکونڈائی ملکوں میں شمار کیے جانے والے سوئیڈن میں منفی اور نفرت پر مبنی نظریات کی پارٹیوں کا اقتدار میں آنا نہ صرف سوئیڈن بلکہ قرب وجوار کے ملکوں کے لیے بھی کوئی خوش آئند بات نہیں ہے۔ اس سے قبل ایک اور ملک ہنگری میں اس طرح کی سیاسی تبدیلیاں نظر آئی تھیں اور یوروپی یونین نے ہنگری کے حکمراں وزیراعظم وکٹراربان کی قیادت والی حکومت پرسخت نکتہ چینی کی ہے اور کہا ہے کہ ہنگری میں سماجی اورحکومتی سطح پر زبردست تبدیلیوں اور اصلاحات کی ضرورت ہے۔ وکٹراربان کے اقتدار میں ہنگری میں گزشتہ 20برسوں سے کرپشن، انتہاپسندی عروج پر ہے اور اعلیٰ ترین عہدوں اور اداروں پر وہی افراد قابض ہیں جو حکمراں جماعت اور قیادت کے حامی ہیں۔ ظاہرہے کہ یوروپی پارلیمنٹ کے ذریعہ ’منتخب آٹوکریسی‘ elected outocracyقراردینا اورنظام کو یوروپی یونین کے ضوابط اور اصولوں کے موافق قراردیاجانا ملک اور قیادت دونوں کے لیے توہین آمیز ہے۔
خیال رہے کہ ہنگری اور روس کی قیادت کے درمیان کافی قربت ہے اور بیلاروس کی طرح ہنگری کی قیادت بھی روس کے حکمراں ویلادیمیر پوتن کی ہاں میں ہاں ملارہی ہیں اور اسی طرح روس یوروپی یونین اور ناٹو کے ممبر ممالک میں سیندھ لگانے میں کسی حد تک کامیاب ہوگیا ہے۔n