عمیر انس
بہت سارے ہندوستانی حضرات ترکی میں صدر رجب طیب اردگان کی پارٹی اور ان کے ذیلی اداروں یا شخصیات سے ملنے جاتے ہیں اور جب میں ان سے پوچھتا ہوں کیسا لگا مل کر تو ان کی خوشی اور اُمید دیکھنے لائق ہوتی ہے، خواہ وہ جانے سے پہلے اردگان کے کیسے بھی ناقد رہے ہوں لیکن وہاں جاکر اور مل کر انہیں لگتا ہے کہ یہاں کے لوگ کوئی بہت بڑا کام کر رہے ہیں جس سے کچھ بڑا انقلاب اور تبدیلی آسکتی ہے، اب آپ کسی بھی مسلم تنظیم کے دفتر جائیں اور واپس آئیں، ان کے قائدین سے ملاقات کر پائیں اور پھر واپس آئیں اور خود سے پوچھیں کہ کیا یہ تنظیم سچ مچ میں آپ کے اندر امیدوں اور حوصلوں کے ویسے ہی جذبات پیدا کرتی ہے؟ پانچ سال ترکی میں قیام کے دوران میں ایسے بہت سے ہندوستان اور پاکستان کے احباب سے ملا جو ترکی کی مسلم قیادت سے بے انتہا متاثر اور خوش ہوتے ہیں لیکن واپس اپنے ملک میں ویسی ہی قیادت اور تنظیم کھڑی کرنے میں کسی دلچسپی کا اظہار نہیں کرتے، قیادت کے بنیادی طور پر تین کام ہوتے ہیں، پہلا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں اور ماننے والوں میں بہتر مستقبل کی اُمید بنائے رکھے، آپ ضرور کامیاب ہوں گے یہ روشنی ان کو نظر آئے اور یہ وعدہ اور کامیابی ایسی ہو جس کے لیے وہ آپ کے ساتھ نہ صرف شانہ بشانہ کھڑے ہوں بلکہ آپ کے لیے کسی بھی حد تک قربانی دینے کے لیے بھی تیار ہو جائیں، عقیدت اور اُمید میں بہت فرق ہے، ہماری قیادت سے عوام کی عقیدت بہت گہری ہے لیکن امیدیں بھی ہوں ضروری نہیں، عقیدت پر مبنی قیادت محض عبادات اور سلوک کے لیے تو کافی ہوسکتی ہے لیکن آپ کے سماجی و سیاسی حالات میں تبدیلی کے لیے ناکافی ہے۔ قیادت کا دوسرا سب سے ضروری کام ہے کہ وہ اپنے افراد کو اس خواب کی جانب پہنچنے کے لیے ایک واضح روڈ میپ بھی فراہم کرے، مثال کے طور پر کوئی قائد کہتا ہے کہ اس کی قیادت میں اور اس کے پیچھے چلنے سے سیاسی اور سماجی ترقی ہوگی تو ضرور اس کے پاس کوئی ایسی سیڑھی ہوگی، کوئی راستہ ہوگا جس پر چل کر یہ ممکن ہو، ہمیں ضرور پوچھنا چاہیے کہ ایسا کیسے ممکن ہے، ماضی میں لوگوں نے ایسے ایسے وعدے کیے جو کبھی مکمل نہیں ہو سکتے تھے لیکن کسی نے پوچھا نہیں، اس معاملے میں مسلمانوں کی سیاسی جماعتیں تو کسی حد تک ٹھیک ہیں کہ وہ شارٹ کٹ راستوں سے انتخاب جیتنے کا راستہ دکھاتی ہیں لیکن وہ اتنا شارٹ کٹ ہوتا ہے کہ آزادی کے بعد ایک بھی مسلم سیاسی جماعت مین اسٹریم سیاسی جماعت نہیں بن سکی، کیونکہ ان سبھی جماعتوں کے روڈمیپ میں صرف ایک بات سب سے واضح ہوتی ہے وہ یہ کہ ایک مخصوص شخصیت اور مخصوص خاندان کو پارلیمنٹ اور اسمبلی میں کیسے پہنچایا جائے۔ آزادی کے بعد ایک بھی ایسی سیاسی جماعت یا سماجی تحریک برپا نہیں ہوئی جو مخصوص شخصیت کے امپاورمنٹ کے بجائے ایک نظریہ، فکر اور آئیڈیا کو امپاور کرنے کے لیے سرگرم رہی ہو، اب ظاہر ہے کہ شخصی مفادات پر مرکوز قیادت کے ارد گرد صرف وہی لوگ جمع رہ سکتے ہیں جو براہ راست ان سے مستفید ہوں گے، حالانکہ مسلم لیگ اور مجلس اتحاد المسلمین جیسی جماعتوں کے لیے یہ امکانات تھے کہ وہ پورے ملک میں یا کم از کم کچھ ریاستوں میں ہی ایک مضبوط سیاسی و سماجی متبادل بن کر اُبھریں۔ اس ملک میں جس قوم کی پانچ فیصد بھی آبادی ہے اس کے پاس ایک مضبوط سیاسی نقطہ نظر ہے اور اس کے مطابق ایک سیاسی نمائندگی دلانے والی قیادت بھی لیکن دس سے تیس فیصد تک مسلم آبادی والے علاقوں میں بھی مسلم قیادت نام کی چیز نہیں پائی جاتی۔ اس سلسلے میں سب سے پرفریب نعرہ اتحاد و اتفاق کا ہے جو ممکن ہے اور نہ ضروری، اتحاد کا سب سے بلند نعرہ لگانے والے خاندانی سیاست کے نمائندے ہیں جو چاہتے جائیں کہ مسلم عوام بے زبان جانوروں کی طرح ان کی قیادت کے پیچھے آنکھ کان بند کرکے کھڑی ہوجائے۔ اللہ کرے ایسا اتحاد کبھی پیدا نہ ہو۔ ایک ایسے اتحاد کی یقینا سب سے زیادہ ضرورت ہے جہاں ہزاروں لوگ اپنے پورے شعور کے ساتھ، اپنے نفع نقصان کو جانتے ہوئے، کچھ پانے اور کچھ کھونے والے اصول کے ساتھ ایک بڑے مشترکہ مفاد کو حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے کا ساتھ دینے کے لیے آمادہ ہو جائیں، سیاسی روڈ میپ نام ہے اس امکان کا کہ آپ بیشتر لوگوں کے زیادہ سے زیادہ مفادات کا دفاع کرتے ہوئے کام کریں گے۔
مثال کے طور پر مجلس اتحاد المسلمین کا طرز عمل دیکھیں، ان کی قیادت کی تمام جذباتی سیاست کے باوجود یہ کہنا ممکن ہے کہ انہیں پورے ملک میں سیاست اور سیاسی قیادت کھڑا کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، وہ بنیادی طور پر حیدرآباد اور ریاست تلنگانہ کے مسلمانوں کے مفادات کے لیے متوجہ رہیں گے۔ اس میں کوئی عیب نہیں ہے لیکن انہیں باقی ریاستوں کے مسلمانوں کو جھوٹے خواب نہیں دکھانا چاہیے۔ یا پھر کوئی جماعت یہ دعویٰ کرے کہ وہ ایک ایسا نظام برپا کرنا چاہتی ہے جس سے وہ پوری دنیا کی کایا پلٹ ہی کر دے لیکن اس کے پاس ایسا کر نے کا کوئی لائحہ عمل نہیں ہے اور نہ ہی کوئی مضبوط سیاسی اور سماجی فہم جس کی بنیاد پر وہ عوام کو اپنی طرف متوجہ کرسکے، ایسے میں اگرچہ ہزاروں نوجوان عقیدت اور محبت میں ان کی طرفداری کرتے ہیں لیکن دس بیس سالوں میں انہیں لگتا ہے کہ وہ ایک بنا سمت والے سفر پر ہیں جس میں کوئی رہبر ہے اور نہ کوئی نشان راہ۔چنانچہ ہزاروں مسلم نوجوان ایک مؤثر قیادت سے محروم ہیں اور اپنی صلاحیتوں کا بہتر استعمال اور مظاہرہ کرنے سے ٹھہرے ہوئے ہیں۔
لائحہ عمل کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے عوام کو متعین سماجی اور سیاسی مرحلوں سے گزارتے ہوئے ایک ایسی سمت میں جائیں جہاں وہ خود کو منزل سے قریب ہوتا ہوا محسوس کریں، انہیں لگے کہ وہ صحیح سمت میں گامزن ہیں۔
قیادت کا تیسرا سب سے اہم کام یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے پیچھے ایسے لوگوں کو تیار کرے جو اس کا مشن سنبھالنے کے لیے ان سے بھی زیادہ لائق اور صلاحیت مند ہوں۔ رسول اللہؐ کی کامیابی بس اتنی نہیں تھی کہ ان کے اوپر وحی نازل ہوئی اور آپ نے اس کو لوگوں تک پہنچا دیا، ان کی کامیابی یہ تھی کہ اس عظیم پیغام کو چار دانگ عالم میں پھیلانے کے لیے ایک انتہائی باصلاحیت نسل تیار کی، آج کی مسلم قیادت غالباً اس اصول پر کار فرما ہے کہ جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوں گے تو ان کے ساتھ ان کا مشن بھی دفن ہوگا یا پھر اس مشن کو ان کے نا اہل خلف ختم کریں گے، اس وقت ملت کا ہر وہ ادارہ جو محض پچاس سو سال قبل ایک روشن تاریخ رقم کر چکا ہے، آج اپنے زوال کے ایام گن رہا ہے کیونکہ ان اداروں کی تنگ نظر قیادت اپنے پیچھے زیادہ بہتر قیادت چھوڑنے کے بجائے اس پر قابض رہنے کی نیت سے کام کرتی رہی، آج تمام مسلم تنظیمیں اور اسلامی تحریکیں با صلاحیت مسلم نوجوانوں سے بیزار ہیں، ظاہر ہیں جس عمر میں غیر مسلم نوجوان ممتاز خدمات انجام دے رہے ہیں مسلم نوجوانوں کو اس عمر میں کوئی موقع ہی نہیں ملتا، مسلم قیادت میں نوجوانی کی عمر خود پچاس سے ساٹھ سال کی عمر سے شروع ہوتی ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ سبھی اداروں اور تنظیموں میں اگلی قیادت بھی نظر آئے۔
آخری بات یہ ہے کہ قیادت پیدا ہونا کوئی حادثہ نہیں جو اچانک واقع ہو، اس کے لیے ایک طویل پراسیس درکار ہے، جہاں لوگ سیکھتے ہیں، غلطیاں کرتے ہیں، نئے خیالات اور افکار پر کام کرتے ہیں، ناکام ہوتے ہیں اور پھر اپنے آپ کو درست کرتے ہیں، دنیا میں قیادت کی تیاری کے مراحل میں سبھی مراحل کو پار کرنا مسلمانوں کے لیے بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا دیگر اقوام کے لیے، اگر اللہ پاک نے محنت، تعلیم، تحقیق، شفافیت، تجربہ اور برابری کے مواقع کے اصولوں کے ساتھ غیر مسلم اقوام کے نوجوانوں کو بلندی عطا فرمائی ہے تو مسلم ملت میں قیادت کے لیے کوئی شارٹ کٹ طریقہ یا وراثتی طریقہ کیسے کامیاب ہو سکتا ہے؟
(مضمون نگار سینٹر فار اسٹڈیز آف پلورل سوسائٹیز، تھنک ٹینک کے ڈائریکٹر ہیں۔)
[email protected]