مولانامحمد طارق نعمان
اِسلام تکریم اِنسانیت کا دین ہے۔ یہ اپنے ماننے والوں کو نہ صرف امن و آشتی، تحمل و برداشت اور بقاء باہمی کی تعلیم دیتا ہے بلکہ ایک دوسرے کے عقائد و نظریات اور مکتب و مشرب کا احترام بھی سکھاتا ہے۔ یہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ بلا تفریقِ رنگ و نسل تمام انسانوں کے قتل کی سختی سے ممانعت کرتا ہے۔ اسلام میں کسی انسانی جان کی قدر و قیمت اور حرمت کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے بغیر کسی وجہ کے ایک فرد کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیاہے۔ترجمہ:جو کوئی کسی کو قتل کرے، جبکہ یہ قتل نہ کسی اور جان کا بدلہ لینے کے لیے ہو اور نہ کسی کے زمین میں فساد پھیلانے کی وجہ سے ہو، تو یہ ایسا ہے، جیسے اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا، اور جو شخص کسی کی جان بچالے، تو یہ ایسا ہے، جیسے اس نے تمام انسانوں کی جان بچالی۔(سورۃ المائد ہ 32)یعنی ایک شخص کے خلاف قتل کا یہ جرم پوری انسانیت کے خلاف جرم ہے، کیونکہ کوئی شخص قتلِ ناحق کا ارتکاب اسی وقت کرتا ہے، جب اس کے دل سے انسان کی حرمت کا احساس مٹ جائے، ایسی صورت میں اگر اس کے مفاد یا سرشت کا تقاضا ہوگا تو وہ کسی اور کو بھی قتل کرنے سے دریغ نہیں کرے گا، اور اس طرح پوری انسانیت اس کی مجرمانہ ذہنیت کی زد میں رہے گی، نیز جب اس ذہنیت کا چلن عام ہو جائے تو تمام انسان غیر محفوظ ہو جاتے ہیں، لہٰذا قتلِ ناحق کا ارتکاب چاہے کسی کے خلاف کیا گیا ہو، تمام انسانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ جرم ہم سب کے خلاف کیا گیا ہے۔اسلامی تعلیمات کی رو سے انسانی جان کو ہمیشہ عزت و حرمت حاصل رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ کسی انسان کا ناحق قتل کرنا کفر کے بعد کبیرہ گناہوں میں سے سب سے بڑا گناہ ہے، کسی انسان کو ناحق قتل کرنے میں جہاں اللہ تعالی کے حکم کی پامالی اور اس کی نافرمانی ہے، جو حقوق اللہ ہے، وہاں اس میں ایک انسان کو ناحق قتل کرکے اس کے لواحقین کو تکلیف پہنچانا یہ حقوق العباد سے تعلق رکھتا ہے، اس پر قرآن وحدیث میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ اللہ کا ارشاد ہے:قتلِ ناحق کی سزاجہنم ہے۔اللہ تعالی کا فرمان ہے : اور جو شخص کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔
قتل کن صورتوں میں جائز ہے ؟ شریعت نے صرف تین صورتوں میں قتل کو جائز قرار دیا ہے :1۔قتل کے بدلے قتل یعنی قصاص۔2۔شادی شدہ مرد یا عورت اگر زنا کرے تو حد قائم کرنے کی صورت میں انہیں رجم کر کے مار ڈالنا۔3۔ارتداد کے جرم میں قتل کرنا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جو مسلمان شخص یہ گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں تو اس کا خون (یعنی قتل کرنا) فقط تین صورتوں کی وجہ سے حلال ہے ، جان کے بدلے جان (قاتل کو قتل کرنا)شادی شدہ زانی اور دین سے مرتد ہو کر جماعت چھوڑنے والا ۔(صحیح البخاری 6878)ان تینوں صورتوں کے علاوہ جو بھی قتل ہوگا وہ قتل ناحق اور فساد فی الارض کے ضمن میں ہی آئے گا اور ایک آدمی کا ناحق قتل کیاسب لوگوں کو قتل اس لئے قرار دیا گیا کیونکہ ایسا آدمی پوری انسانیت کا اور امن عامہ کا دشمن ہوتا ہے اور دوسرے لوگ بھی اسے یہ جرم کرتے دیکھ کر اس پر دلیر ہوجاتے ہیں لہذا اس جرم کی سزا کا اظہار ان الفاظ سے کیا گیا اور بنی اسرائیل چونکہ اس جرم کا ارتکاب کرتے رہتے تھے اس لیے بطور خاص ان الفاظ سے تنبیہ کی گئی ہے اور اس جرم کے برعکس اگر کوئی شخص کسی کو مظلومانہ موت سے نجات دلا کر بچا لیتا ہے تو وہ بھی اتنی ہی بڑی نیکی ہے کیونکہ ایسا شخص انسانیت کا ہمدرد اور امن عامہ میں ممد و معاون بنتا ہے۔
انسانی خون کی حرمت : نبی کریمؐ نے فرمایا:مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور مہاجر وہی ہے جو گناہوں اور برائیوں کو چھوڑ دے۔(صحیح البخاری 6484)۔ایک مومن کی حرمت کعبہ کی حرمت سے بھی زیادہ ہے۔حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور یہ فرماتے سنا : (اے کعبہ!) تو کتنا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کتنی پیاری ہے، تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے۔ مومن کی جان و مال کی حرمت اللہ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے اور ہمیں مومن کے بارے میں نیک گمان ہی رکھنا چاہئے۔
روز قیامت سب سے پہلے خون کا حساب :حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہمابیان کرتے ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :روز قیامت لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خونوں کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا ۔
مقتول قاتل کوعرش تک لے جائے گا:حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: روزِ قیامت مقتول قاتل کو لے کر آئے گا اس(قاتل)کی پیشانی اور اس کا سر مقتول کے ہاتھ میں ہو گا اور اس کی رگوں سے خون بہہ رہا ہو گا ۔ اور وہ کہے گا : اے میرے رب !اس نے مجھے کیوں قتل کیا ؟ حتی کہ وہ اسے عرش کے قریب لے جائے گا ۔
خون ناحق کے مرتکب شخص کاکوئی عمل قبول نہیں:حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو کسی مومن کو ناحق قتل کرے، پھر اس پر خوش بھی ہو، تو اللہ اس کا کوئی عمل قبول نہ فرمائے گا نہ نفل اور نہ فرض۔(سنن ابی دائود)
مومن کو قتل کرنیوالے کی بخشش نہیں :حضرت ابودردا ء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :امید ہے کہ اللہ ہر گناہ معاف فرما دے سوائے اس شخص کے جو حالت شرک میں فوت ہوگیا ہو ،یا جس نے عمدا ًکسی مومن کو قتل کیا ہو ۔(سنن ابی دائود)مومن بھائی کی طرف اسلحے کے ساتھ بھی اشارہ نہ کرے فولادی اور آتشیں اسلحہ سے لوگوں کو قتل کرنا تو بہت بڑا اِقدام ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ اِسلام کو اپنے مسلمان بھائی کی طرف اسلحہ سے محض اشارہ کرنے والے کو بھی ملعون و مردود قرار دیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرے، تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ شاید شیطان اس کے ہاتھ کو ڈگمگا دے اور وہ(قتلِ ناحق کے نتیجے میں)جہنم کے گڑھے میں جا گرے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جو شخص نیزے سے اپنے بھائی کی طرف اشارہ کرے ، فرشتے اس پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں ، حتی کہ وہ اسے رکھ دے ۔ خواہ وہ اس کا حقیقی بھائی ہی کیوں نہ ہو ۔
اسلحے کی نمائش کی ممانعت: رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی دوسرے پر اسلحہ تاننے سے ہی نہیں بلکہ عمومی حالات میں اسلحہ کی نمائش کو بھی ممنوع قرار دیا۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ننگی تلوار لینے دینے سے منع فرمایا۔(صحیح الترمذی 2163) قارئین کرام! جب اسلحہ کی نمائش، دکھاوا اور دوسروں کی طرف اس سے اشارہ کرنا سخت منع ہے تو اس کے بل بوتے پر ایک مسلم ریاست کے نظم اور اتھارٹی کو چیلنج کرتے ہوئے آتشیں گولہ و بارود سے مخلوقِ خدا کے جان و مال کو تلف کرنا کتنا بڑا گناہ اور ظلم ہوگا۔
حجۃ الوداع کا پیغام:حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پرفرمایا: میرے بعد ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ کر کافر نہ بن جانا ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میدانِ عرفات میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: بلا شبہ تمہارے خون اور تمہارے مال آپس میں ایک دوسرے پر حرام ہیں، جیسا کہ آج کے دن کی بے حرمتی تمہارے اس مہینے میں، تمہارے اس شہر میں حرام ہے۔
مسلمان کو ڈرانا بھی گناہ: ابن ابی لیلی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کسی مسلمان کے لیے یہ لائق نہیں کہ وہ کسی مسلمان کو خوف زدہ کرے۔
مومن کا قتل پوری دنیا کی تباہی سے بھی بڑا ہولناک ہے:حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! البتہ مومن کا (ناحق ) قتل اللہ تعالی کے ہاں ساری دنیا کی تباہی سے زیادہ ہولناک ہے ۔ ایک اور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اللہ تعالی کے نزدیک پوری دنیا کا زوال و تباہی ایک مسلمان کے قتل سے کم تر ہے۔ یعنی ساری دنیا تباہ ہو جائے ،یہ اللہ کے ہاں چھوٹا عمل ہے بہ نسبت اس کے کہ ایک مسلمان کو قتل کیا جائے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مومن اس وقت تک اپنے دین کے بارے میں برابر کشادہ رہتا ہے (اسے ہر وقت مغفرت کی امید رہتی ہے)جب تک ناحق خون نہ کرے جہاں ناحق کیا تو مغفرت کا دروازہ تنگ ہو جاتا ہے۔
ناحق خون کرنے والا سخت ترین مشکلات میں:حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہلاک کرنے والے وہ امور کہ جن میں پھنسنے کے بعد نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہوگا، ان میں سے ایک وہ ناحق خون کرنا ہے، جس کو اللہ تعالی نے حرام کیا ہے۔
ناحق خون میں شامل سب لوگ جہنم میں :نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد نے فرمایا: اگرتمام آسمان اور زمین والے ایک مومن کے خون میں شریک ہو جائیں تو اللہ سبحانہ وتعالی ان سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے گا۔قرآن وحدیث کی روشنی سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی شخص کو قتل کرنا شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے اور قاتل کی سزا جہنم ہے، جس میں وہ ایک طویل عرصہ تک رہے گا، اللہ اس پر غضب نازل کرے گا اور لعنت بھیجے گا اور اللہ تعالی نے قاتل کے لیے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے، لہٰذا ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ قتل جیسے کبیرہ گناہ سے ہمیشہ بچے، حتی کہ کسی بھی درجہ میں قتل کی معاونت سے بچنا بھی لازم ہے، کیونکہ بسا اوقات ایک شخص کے قتل سے نہ صرف اس کی بیوی بچوں کی زندگی، بلکہ خاندان کے مختلف افراد کی زندگی بعد میں دوبھر ہو جاتی ہے اور اس طرح خوش حال خاندان کے افراد بیوہ، یتیم اور محتاج بن کر تکلیفوں اور پریشانیوں میں زندگی گزارنے والے بن جاتے ہیں۔ جب سے ہم نے اللہ تعالی کے حکموں اور امام الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی کرنے سے منہ موڑا ہے۔ آئے روز ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں کہ بھائی غیرت کے نام پر اپنی بہن کو قتل کر رہا تو بہن اپنے آشنا کے ساتھ مل کر اپنے بھائی کو قتل کر رہی ہے، باپ بیٹے کو قتل کر رہا ہے توبیٹا باپ کو قتل کر رہا، شوہر اپنے گھر والوں کے ساتھ مل کر اپنی بیوی کی جان لے لیتا ہے اور بیوی اپنے بیٹوں، بھائیوں کے ساتھ مل کر اپنے شوہر کی جان لے لیتی ہے، بھائی بھائی کا دشمن بنا ہوا ہے۔ بیٹیوں کو جہیز کا سامان کم لانے کی وجہ سے ان کی جان لے لی جاتی ہے ،اگر طلاق یافتہ عورت اپنے جہیز کی واپسی کا مطالبہ کرے تواس کوقتل کر دیا جاتا ہے۔ کیا ہم انسان کہلانے کے لائق ہیں۔ یہ سب کچھ اسلام سے دوری کا نتیجہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے ہیں۔ اللہ پاک ہم سب کو صراط مستقیم پہ چلنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم ایک دوسرے کی جان و مال کے محافظ بن جائیں (آمین)