محمد فاروق اعظمی
ایک بار پھر عالمی سطح پر ہندوستان کی رسوائی کا ڈنکا بجنے لگا ہے۔ امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی(یو ایس سی آئی آر ایف) نے اپنی رپورٹ میں کہاہے کہ ہندوستان میں مذہبی عدم برداشت اور اقلیتوں کے ساتھ جبری سلوک کا سلسلہ سال2022 میں بھی جاری ہے۔رپورٹ کے مطابق حکومتی پالیسیاں بھی ایسی ہیں جو ہندوستان میں مذہبی اقلیتوں کو تحفظ فراہم نہیں کرتی ہیں۔رپورٹ کے مطابق2022 میں ہندوستان میں مذہبی آزادی کے حالات خراب رہے۔پورے سال کے دوران، ہندوستانی حکومت نے قومی، ریاستی اور مقامی سطحوں پرمذہبی تبدیلی، بین المذاہب تعلقات اور گائے کے ذبیحہ کو نشانہ بنانے والے قوانین سمیت ایسی پالیسیوں کو فروغ دینے اور نافذ کرنے کا سلسلہ جاری ہے جو مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں، دلتوں اور آدیواسیوں کو منفی طور پر متاثر کرتے ہیں۔ ان پالیسیوں اور نظریات کے ناقدین کو دبانے کا سلسلہ بھی پورے سال جاری رہا۔ حکومت عبادت گاہوں سمیت املاک کی تباہی، من مانی حراست اور مسلمانوں و مسلمان صحافیوں کو ہراساں کرنے میں بھی ملوث رہی ہے۔حکومتی اہل کاروں نے تنقید کرنے والے صحافیوں، وکلا، حقوق انسانی کے کارکنوں، ماہرین تعلیم، سیاسی رہنماؤں، مذہبی اقلیتوں وغیرہ کوہراساں کیا اور یو اے پی اے سمیت مختلف ظالمانہ قوانین کے تحت گرفتار کرکے انہیں بغیر مقدمہ چلائے جیل میں ڈال دیا۔امریکی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال 2021 اور 2022 میں یو اے پی اے اور دوسرے متنازع قوانین کے تحت گرفتار کیے جانے والوں میں اترپردیش اور مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر میںفرقہ وارانہ تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی رپورٹنگ کرنے والے کئی مسلم صحافی شامل ہیں۔ رپورٹ میں یو اے پی اے کے تحت گرفتار کیے گئے لوگوں میں محمد زبیر، صدیق کپن،تیستا سیتلواڑ، فادر اسٹین سوامی اور عتیق الرحمن کا ذکر کیا گیا ہے۔ 2022 میں سرکاری حکام نے کئی ریاستوں میںایسے عام لوگ بالخصوص مسلمان جو حکومت مخالف احتجاج میں شامل تھے، ان کے گھروں کو غیر قانونی بتاکر مسمار کردیا۔ رپورٹ میں ایسے ہندو شدت پسندوں کو حکومت کی جانب سے معافی کا بھی ذکر ہے جنہوں نے مذہبی اقلیتوں پر مظالم ڈھائے اور ا ن کی خواتین کی بے حرمتی کی۔اس کے علاوہ بھی کرناٹک حجاب معاملہ، سرکاری حکام کی ہندوشدت پسندوںکی مدد، مسلم خواتین کو نیلام پر چڑھائے جانے والے سلی ڈیلز اور بلی بائی ایپ کے تخلیق کاروں کو ضمانت، ایف سی آر اے کے تحت متعدد عیسائی اور اسلامی تنظیموں کی فنڈنگ کا روکاجانا، بلقیس بانو کی اجتماعی عصمت دری اور اس کے خاندان کے 14 افراد بشمول اس کی شیر خوار بیٹی کے قتل کے جرم میں عمر قید کی سزا پانے والے 11 مجرموں کو ملنے والی معافی سمیت درجنوں واقعات کا بیان ہے۔
رپورٹ میںہر چند کہ کوئی ایسی نئی بات نہیں ہے بلکہ وہ حقائق ہیںجن کا ہرعام ہندوستانی شاہد ہے اور وہ ریکارڈ پر ہیں، انہیںامریکی کمیشن نے بس یکجا اور مربوط کردیا ہے تاکہ ہندوستان میں اقلیتوں کی صورتحال کا جائزہ لیاجاسکے۔باوجود اس کے حکومت نے رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بدنیتی پر مبنی ہے۔وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی کا کہنا ہے کہ یہ مکمل طور پر جانبدارانہ ہے اور ہندوستان کی شبیہ خراب کرنے کیلئے اسے تیار کیاگیا ہے۔ یہ کمیشن اپنی متعصبانہ ذہنیت اور گمراہ کن ایجنڈے کے تحت کام کرتا ہے اور حقائق کو غلط انداز میں پیش کرتا ہے۔ وزارت خارجہ کا دعویٰ ہے کہ یو ایس سی آئی آر ایف ہندوستان کی آئینی اقدار، تکثیری اور مضبوط جمہوری نظام کو سمجھنے سے قاصر ہے۔
اب یہ تو وزارت خارجہ ہی بہتر بتاسکتی ہے کہ تکثیری اور مضبوط جمہوری نظام میں مذہبی اقلیتوں کو ہندو مت کیلئے خطرہ تصور کرکے انہیں تشدد اور امتیازی سلوک کا نشانہ بناناکون سی آئینی اقدار کا پرتو ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ بین الاقوامی اورعالمی سطح پر ہورہی ملک کی تنقید کو وزارت خارجہ سرسری انداز میں لینے کی عادی ہوگئی ہے۔ضرورت تو اس بات کی تھی کہ ان رپورٹوںکی روشنی میں مذہبی اقلیتوں کے تحفظ اورا نسانی حقوق کو بہتر بنانے کا کام کیاجاتا لیکن ان سب کے بجائے کہ ان رپورٹ کو جھوٹ اور تعصب پر مبنی قرار دے کر فرقہ پرستی کا داغ مٹانے کی کوشش کی جاتی ہے۔اس سے قبل بھی کئی ایسی رپورٹیں سامنے آچکی ہیں جن میںہندوستان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایاگیا تھا، اس وقت بھی وزارت خارجہ نے یہی راگ الاپاتھا۔
سوال یہ ہے کہ کیا ان تنقیدوں اور ملک کی جگ ہنسائی کا مقابلہ ’ مضبوط جمہوری نظام‘، ’ تکثیریت‘، ’ ایک بھارت- شریسٹھ بھارت‘، ’ تمام ہندوستانیوں کا ڈی این اے ایک‘، ’ سب کا ساتھ- سب کا وکاس-سب کا وشواس ‘ جیسے نعروں سے کیاجاسکتا ہے ؟ یا اس کیلئے کوئی عملی اقدام کی بھی ضرورت ہے؟ ملک کے حالات کو بہتر بنانے کے بجائے تنقیدوں کو غلط اور جھوٹاقرار دینے سے ملک کی توقیر میں کوئی اضافہ ہونے والا نہیں ہے۔ لیکن اس کاکیا کیاجائے کہ اس ملک کی پالیسی سازی ہی ایسے ہاتھوں میں ہے جو قتل و غارت گری، فسادات، انسانوںکے بہتے خون، عورتوں کی بے حرمتی، بچوں کی ہلاکت کو ’ سبق سکھانا‘ اور ’ مستقل امن ‘ کا سبب سمجھتا ہے۔ہٹلر کی طرح اس پر فخر کا اظہار کرتے ہوئے اسے اپنی کارکردگی کے طور پرعوام کے سامنے پیش کرکے ووٹ کاطالب بھی ہے۔
ان حالات میں عالمی سطح پر ہندوستان کی وہی تصویر ابھرے گی جو امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے پیش کی ہے۔ وزارت خارجہ لاکھ اسے جھوٹا اور مبنی برتعصب ٹھہراتی ہے۔ہندوستان کے گلے میں بندھاہوایہ رسوائی کا طوق اتارنا ہے تواس کیلئے ضروری ہے کہ حقائق کا سامنا کیا جائے اور حالات کو بہتر بناکر ملک میں حقیقی تکثیریت اور مضبوط جمہوریت قائم کی جائے۔قتل و غارت گری اور فسادات امن یا مستقل امن کا سبب نہیں ہوتے ہیں بلکہ یہ وہ رستے ہوئے زخم ہیں جو آنے والے دنوں میں ناسور بن کر ملک کو کھوکھلا کردیں گے۔
[email protected]