توہین آمیز خاکوں اور فرانسیسی صدر کی جانب سے ان کی مسلسل حمایت پر امت مسلمہ میں غم و غصہ بڑھتا جارہا ہے۔فلسطین، شام، لیبیا سمیت کئی مسلم ممالک میں احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں جبکہ عرب اسرائیلوں نے فرانسیسی سفارت خانے کے باہر مظاہرہ کیا۔بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکا میں بھی احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔دوسری جانب کویت کے بعد دیگر عرب ملکوں میں بھی فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم زور پکڑ رہی ہے۔کئی عرب کمپنیوں اور تاجر تنظیموں نے فرانسیسی اشیا کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا ہے۔فرانس کے صدر میکرون کے اسلام مخالف بیان کے بعد کئی ممالک میں فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم شروع ہوگئی جبکہ فرانس نے مشرقِ وسطیٰ کے ممالک سے بائیکاٹ ختم کرنے کی اپیل کی ہے۔فرانس کی وزات خارجہ کا کہنا ہے کہ فرانس کی مصنوعات کے بائیکاٹ کو ہوا دی جا رہی ہے۔
دوسری جانب فرانس کے صدر ایمینوئل میکرون کے اسلام سے متعلق مبینہ بیان پر ترک صدر کی جانب سے انہیں دماغ کا علاج کرانے کے مشورے کے بعد فرانس نے احتجاجاً اپنا سفیر انقرہ سے واپس بلا لیا ہے۔فرانس نے ترکی کے صدر کے بیانات کو ناقابل قبول اور توہین آمیز قرار دیا ہے۔فرانس اور ترکی کے درمیان حالیہ مہینوں میں کئی بین الاقوامی امور سمیت بہت سے مسائل پر کشیدگی پیدا ہوئی ہے۔ دونوں ملکوں میں تازہ ترین بیانات کا تبادلہ ایک فرانسیسی استاد کے قتل اور صدر میکرون کے مسلمانوں کے متعلق بیانات کے تناظر میں سامنے آیا ہے۔خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق صدر اردگان نے اپنے فرانسیسی ہم منصب کی ذہنی حالت پر اس وقت سوال اٹھایا جب انہوں نے میکرون کے اسلام اور مسلمانوں کے متعلق رویے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ خیال رہے کہ چند روز قبل فرانس میں سمیوئیل پیٹی نامی تاریخ کے استاد نے کلاس روم میں مبینہ طور پر پیغمبر اسلامؐ کے خاکے دکھائے تھے، جس کے بعد انہیں پیرس میں اسکول کے باہر ایک نوجوان نے قتل کر دیا تھا۔ پولیس کی فائرنگ سے مذکورہ نوجوان بھی ہلاک ہو گیا تھا۔واقعے کے بعد فرانس میں غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا تھا، جب کہ فرانسیسی صدر نے کہا تھا کہ ان کے ملک میں بنیاد پرست مسلمانوں کی وجہ سے مسائل بڑھ رہے ہیں۔
اردگان نے اپنی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کے ایک اجلاس سے خطاب میں کہا کہ ’یہ شخص جس کا نام ایمانوئل میکخواں ہے، اس کا اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟صدراردگان کا کہنا تھا کہ کسی ریاست کے سربراہ کے متعلق کیا کہا جائے جسے عقائد کی آزادی کا فہم نہیں اور جو اپنے ہی ملک میں بسنے والے کسی دوسرے مذہب کے لوگوں سے متعلق یہ خیالات رکھتا ہے۔اردگان کے اس بیان کے کچھ ہی گھنٹوں کے بعد فرانسیسی صدارتی دفتر سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ ہم اس توہین کو قبول نہیں کریں گے۔غیر معمولی طورپر سخت زبان کا استعمال کرتے ہوئے صدارتی دفتر نے کہا کہ فرانس مطالبہ کرتا ہے کہ اردگان اپنی پالیسی کو تبدیل کریں کیوں کہ یہ ہر لحاظ سے خطرناک ہے۔
صدارتی دفتر نے کہا کہ اردگان جو کہ ایک کٹر مسلمان ہیں انہوں نے گزشتہ ہفتے اس فرانسیسی استاد کے سر قلم ہونے پر کوئی اظہارتعزیت نہیں کیا، جسے پیغمبر اسلامؐ کے خاکے دکھانے کی پاداش میں ہلاک کر دیا گیا۔
فرانسیسی محکمہ انصاف قتل کے اس واقعے کامختلف پہلوؤں سے تفتیش کر رہا ہے۔خیال رہے کہ فرانس اور ترکی دونوں ناٹو اتحادی ہیں۔ حالیہ مہینوں کے دوران دونوں ممالک میں شام، لیبیا اور ناگورنو کاراباخ کے مسائل پر کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔فرانسیسی صدر نے ترکی پر الزام لگایا ہے کہ اس نے اپنے وعدوں کی پاسداری نہ کرتے ہوئے لیبیا میں اپنی فوجی تعداد بڑھائی ہے اور وہاں شامی جنگجوؤں کو لا رہا ہے۔