شاہد زبیری
بی جے پی اور اس کی سرکاریں صوبائی انتخابات اور پارلیمانی انتخابات کے پیش نظر نفرت کے فروغ اور ووٹو ں کے پولرائزیشن کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتی ہیں۔ مرادآباد فساد رپورٹ کے سہارے بی جے پی کی یو گی سرکار بھی جہاں نفرت کے فروغ اور ووٹوں کا پولرائزیشن کر ناچاہتی ہے وہ کانگریس کو بھی کٹہرے میں کھڑا کرنا چا ہتی ہے، مسلمانوں کا پھر سے کا نگریس کے تئیں بڑھتے رجحا ن کو روکنا بھی اس کا مقصد ہو سکتا ہے؟ ورنہ آخر کیا وجہ ہے کہ یو پی کی بی جے پی کی یوگی سرکار کو 13اگست 1980کے مرادآ باد فساد کی دھول چاٹ رہی رپورٹ کی یاد آگئی،پہلے ٹرم میں کیوں سرکار کو اس کی یاد نہیں آئی تھی، اس لئے سرکار کی نیت پر سوال اٹھنا لازمی ہے، اب جبکہ مظلوم انصاف کی آس لگائے اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں اور شہادتیں و ثبوت بھی نہیںبچے ہیں، یوگی سرکار نے ٹھیک 43 سال بعداس رپورٹ کو ڈھونڈ نکالا اور 8اگست 2023 کو اسمبلی میں پیش کردیا۔ ان سے پہلے بی جے پی سمیت 15 وزیراعلیٰ یو پی سرکار کی گدی پر بیٹھ چکے ہیں، کسی نے اس کو منظرعام پر لا نا آخر کیوں مناسب نہیں سمجھا ؟مرادآ باد کے اس دلدوز سانحہ کو یوپی میں ہونے والے اب تک کے تمام سانحات میں سے سب سے زیادہ بھیا نک سانحہ مانا جا تا ہے، جس کوفساد کہا جاتا ہے لوگ اس کو فساد نہیں مسلمانوں کے خلاف پولیس اور پی اے سی کا ڈائریکٹ ایکشن مانتے ہیں۔ معروف صحا فی ایم جے اکبر جو آج بی جے پی کے لیڈر ہیں وہ اس وقت ایک انگریزی ہفت روزہ کے ایڈیٹر تھے، انڈین ایکسپریس کے مطابق انہوں نے اپنی انگریزی کتاب ’رائٹ آفٹر رائٹ‘ میں اس کو پولیس کا قتل عام قرار دیا ہے۔معروف مسلم رہنما سید شہاب الدین مرحوم نے اس کو آزاد ہندوستان کا جلیانوالہ باغ بتا یا تھا، جبکہ وزیر اعظم اندرا گا ندھی نے غیر ملکی سازش مانا تھا۔ اخبارات کو اس میں پیٹرو ڈالر کی سازش نظر آئی تھی، جس سے مسلم ممالک کے ساتھ ہماری خارجہ پالیسی ا ور کارو باری تعلقات پر بھی برے اثرات پڑے تھے یہ منحوس سانحہ 13اگست 1980 کو عین اس وقت پیش آیا تھا، جب مرادآباد کے مسلمان عیدگاہ میں اپنے بچوں کے ساتھ نمازدو گانہ ادا کر نے گئے تھے، فساد کرنے یا پولیس کی گولیاں کھانے نہیں گئے تھے۔ دودن بعد آزادی کا جشن تھا، عید کی خوشیاں اور آزادی کا جشن دونوں خون میں نہا گئے تھے ۔ اس وقت یوپی میں کانگریس کی وی پی سنگھ کی سرکار تھی ۔سرکار کے اشارہ پر اس وقت بھی اخبارات نے مسلم دشمنی کا مظاہرہ کیا تھا، خاص طور پر ٹائمس آف انڈیا پر الزام ہے کہ اس نے اپنی رپورٹنگ میں مسلمانوں پر الزام لگا یا تھا کہ وہ عید کی نماز میں ہتھیار لے کر گئے تھے اور مسلمانوں نے ہی پولیس اور پی اے سی پر حملہ کیا تھا ،میڈیا نے پولیس کی بر بریت کو ہندو مسلم فساد کا رنگ دے کر ہندئووں کو مشتعل کر نے کی کوشش کی تھی۔آزادی سے پہلے بھی فسادات ہوتے رہے یا کرا ئے جا تے رہے، اس وقت اس کیلئے انگریزوں کیـ لڑائو اور حکومت کرو: کی پالیسی کا نتیجہ قرار دیا جا تا تھا، آزادی کے بعد بھی یہ خونی سلسلہ تھما نہیں تھا، آزادی کا سورج طلوع ہو تے ہی ملک میں فسادات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیاتھا، جس کی ہو لناکیوں سے نجات پانے کیلئے بہار کے سابق وزیر اعلیٰ اور مشہور مجا ہد آزادی ڈاکٹر سید محمود ؒ ،مفتی عتیق الرحمن عثمانی، مولانا ابواللیث اصلاحیؒ مولا نا ابو الحسن علی میاں ندویؒ،مولانا منظور نعمانیؒ ، معروف صحافی محمد مسلم ؒ اور ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی مرحوم کی مشترکہ قیادت میں مسلم مجلس مشاور ت وجود میں آئی تھی، جس کے ذمہ داران نے قریہ در قریہ شہر در شہر ملک کے دور ے کئے اور فسادات کے شکار مسلمانوں کو ڈھارس بندھا ئی، لیکن مسلمانوں کے ساتھ کسی سرکار نے انصاف نہیں کیا۔
13اگست 1980کے اس ہولناک سانحہ کے بعد وی پی سنگھ سرکار نے جسٹس ایم پی سکسینہ کی سربراہی میں ایک کمیشن تشکیل دیا تھا، جس نے 20نومبر 1983کو اپنی رپورٹ پیش کردی تھی، رپورٹ کو اگرچہ عام نہیں کیا گیا تھا، لیکن اس وقت رپورٹ کی جو باتیں چھن چھنا کر باہر آئی تھیں، اس کے مطابق کمیشن نے یہ مانا تھا کہ یہ ہندو مسلم فساد نہیں تھا اور ہندو مسلمان اس کیلئے ذمہ دار نہیں تھے، لیکن اسی کے ساتھ انتہائی چالاکی سے کمیشن نے اس وقت کے مسلم لیگ کے لیڈر ڈاکٹر شمیم احمد اور مسلم لیڈر کے سر فساد کا الزام رکھ کر بالواسطہ فساد کا ٹھیکرا مسلمانوں کے سر پھوڑ دیا تھا ۔ یہ دونوں مسلم لیڈر اللہ کو پیا رے ہو چکے ہیں ۔کمیشن کے مطابق دونوں مسلم لیڈروں نے مسلم ووٹروں کی ہمدردی حاصل کر نے کیلئے فساد کی ساش رچی تھی اور وہ اس کا الزام بالمیکی سماج اور پنجا بی ہندوئوں و سکھوں پر رکھنا چاہتے تھے ،پولیس نے مسلمانوں پر گولی اپنے دفاع میں چلائی تھی۔کمیشن نے مسلمانوں پر پولیس پر پتھرائو کرنے اور پولیس چوکیوں و تھا نوں کو نذرآتش کئے جا نے کے سنگین الزامات بھی لگائے ہیں، جس کے نتیجہ میں 84لوگ مارے گئے تھے اور 112 زخمی ہوئے تھے۔ جبکہ اس وقت مسلمانوں نے 400لوگوں کی جانیں چلی جا نے کی بات کہی تھی اور پی اے سی اور پولیس کو ا س کیلئے ذمہ دارٹھہرا یا تھا اور رپورٹ کو سرے سے مسترد کردیا تھا، آج بھی مسلمان اس رپورٹ کو تسلیم نہیں کرتے، کمیشن نے اپنی رپورٹ میں مبینہ طور پر دو مسلم تنظیموں مسلم لیگ اور خاکسار کو تو ذمہ دار ٹھہرایا ہے، لیکن رپورٹ میںآر ایس ایس اور جن سنگھ جو آج کی بی جے پی ہے اس کو کلین چٹ دی ہے اور کہا کہ ان کا اس میں ہاتھ نہیں تھا ۔اسی بنا پر مسلمانوں نے عام طور پر اس رپورٹ کو جانبدارانہ اور یکطرفہ رپورٹ مانا ہے آج بھی مسلمان اس رپورٹ کو ایسا ہی ما نتے ہیں ۔مرادآ باد سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ کے پرا نے لیڈر اور قومی جوائنٹ سکر یٹری کوثر حیات ’’کہتے ہیں کہ نومبر 1983کو کمیشن نے انتہائی خاموشی سے سرکار کو رپورٹ پیش کردی تھی اور میڈیا تک کو اس کی بھنک نہیں لگنے دی تھی۔ ان کی نظر میں یہ رپورٹ سرا سرجھوٹ کا پلندہ ہے،رپور ٹ اس سانحہ کے اصل مجرموں پولیس اور انتظامیہ کو بے گناہ بتاتی ہے ۔ان کے مطابق کمیشن کی جانبداری کا اندازہ اس سے ہو تا ہے کہ رپورٹ کی ابتدا میں کہا گیا کہ 30دن کے روزے رکھنے کے بعد عیدا لفطر کی نماز پڑھنے کیلئے عیدگاہ میں 70-60ہزار کٹر پنتھی مسلمانوں کی بھیڑ جمع ہو گئی تھی ۔ کوثر حیات کے مطا بق رپورٹ سے ظاہر ہے کہ کمیشن کو پہلے ہی سے مسلمانوں سے نفرت تھی۔ ان کا الزام ہے کہ اب یو گی سرکار کا اس رپورٹ کومنظرعام پر لا نے کا مقصد صرف زخموں کو کرید کر نفرت پھیلانا اور اس سے سیاسی فائدہ اٹھا نا ہے اور اس معاملے کے متاثرین کے ساتھ انصاف کر نے کا کوئی ارادہ نہیں ہے بلکہ سرکار اس رپورٹ کا غلط استعمال کرے گی۔ـ‘‘ یہ اندیشہ بیجا نہیں ہے کہ اس رپورٹ کو نفرت کے فروغ اور ووٹ پولرائزیشن کیلئے استعمال کیا جائے گا، اس میں بھی کوئی حیرت کی بات نہیں کہ موجودوہ سیاسی تناظر میں کانگریس کے سیاہ کارناموں کو پیش کرنے کا ایک مقصد مسلمانوں کی نئی نسل میں کانگریس کی شبیہ کو داغدار کر نا بھی ہو سکتا ہے، جس سے انکار ممکن نہیںہے۔ورنہ جس سانحہ کو 43گزر گئے اس کو بحث کا موضوع بنا نا سیاسی مقاصد کی تکمیل کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ 1992-93کے ممبئی فسادات پر جسٹس کرشنا ایّر کی رپور ٹ منظرعام پر لانے کا بی جے پی نے کبھی کیو ں مطالبہ نہیں کیا، مہاراشٹر میں آج بھی اس کی سرکار ہے، ماضی میں بھی وہ سرکار میں رہ چکی ہے اس رپورٹ کو آج تک وہ کیوں سامنے نہیں لائی، بی جے پی سرکار کو اس رپورٹ کو بھی منظرعام پر لانا چا ہیے، لیکن وہ ایسا نہیں کرسکتی کیونکہ اس میں وہ خود پھنس سکتی ہے۔ ایک مرادآباد کیا یا ممبئی کیا ،جمشید پور ، بھاگلپور ، میرٹھ کا ملیانہ، ہاشم پورہ یا بابری مسجد کی شہادت ہو، جس کو عدالت نے بھی مجرمانہ فعل ( Criminal act ) قرار دیا تھایامظفر نگر کا فساد، جس کے مجرموں کو آج تک سزا نہیں ملی ،نہ جا نے ایسی کتنی خون چکاںداستانیںآزادی کے بعد بھی ملک بھر میں بکھری پڑی ہیں۔ آخر کب تک انگریزوں کی طرح ہندواور مسلمانوں کو لڑا کر اقتدار حاصل کیا جاتا رہے گا،کیا یہی راشٹر واد ہے ؟
[email protected]