مدارس کا جدید نصاب تعلیم : یہ ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف

0

شاہ خالد مصباحی
13 اکتوبر کی شام میں مدرسہ لکھنو بورڈ کی ایک اہم نشست کی بیٹھک منعقد ہوتی ہے جس میں یوپی مدارس کے نصاب تعلیم میں عصری افادیت کا ذکر کرکے تبدیلی و اپڈیشن کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اور مستقلا NCRT کتابوں کا مدارس میں پڑھانے
پر باتیں کی جاتیں ہیں ۔ این سی آرٹی اور نصاب مدارس : ان دونوں کتابوں کے ماخذ اور مستنبطات کلام پر اگر بات کی جائے
تو چوں طرفہ ایک دوسرے سے متضاد ہیں اور اسی طریقے سے اس کے طالب علموں میں بھی باضابطہ طور پر کوئی
یکسانیت نظر نہیں آتا۔ نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ  (NCERT)  : یہ حکومت ہند کا قائم کردہ ادارہ ہے
جسے اسکولوں کی تعلیم سے جڑے معاملات پر مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو مشورہ دینے کے لیے قائم کیا گیا ہے۔ یہ
کونسل بھارت میں اسکولوں کی تعلیم سے متعلق تمام پالیسیوں پر کام کرتی ہے۔ اس کا بنیادی کام اسکول کی تعلیم کے سلسلے
میں مشورہ دینے اور پالیسی کا تعین میں مدد کرنے کا ہے۔ یہی NCRT ہے۔ اس کے برخلاف مدارس کی وقار کا تحفظ اور
اس کے تعلیمی ترقی کا ضامن اور اقلیت کی تہذیب و ثقافت کی محافظت کی ذمہ داری مدرسہ بورڈ کو سونپی گئی ۔۔۔۔ اور
حکومتی اداروں میں یہی اس کا کام بھی انجام پایا ۔ لیکن جب سے مودی گورنمنٹ اقتدار میں آتی ہے تو مدارس کو لےکر طرح
طرح کے شکوک و شبہات اور قوانین لاگو کرنے کی باتیں کی جاتی ہیں لیکن ہمیں سوچنا پڑے گا کہ اس مختلف ادیان و ثقافت
والی سر زمین پر اپنے اپنے الگ الگ بورڈ ہیں اور وہ اپنی زبان و ثقافت کو ترقی دینے کے لیے مختلف حربے اپناتے ہیں ۔ نا
کہ وہ دوسروں کے حربے سے متاثر ہوکر اپنے ہی خانہ خرابی میں منہمک ہوجاتے ہیں ۔ واضح رہے کہ مدارس کا بنیادی
وجود قرآن و سنت اور اقلیت کے مذہب ، زبان و ثقافت کو ترقی دینے میں مضمر ہے ۔یہ چیزیں اگر مدارس سے سلب ہوتی
ہیں تو مدارس کے مقاصد کہاں تک باقی رہیں گے ؟ یہ ہم سب پر عیاں ہیں ۔ مدرسہ ایجوکیشنل بورڈ کو تو یہ چاہئے کہ جس
طریقے سے دوسرے بورڈ کے اراکین اپنے قائم کردہ نصاب پر ،بغیر تبدیلی و تغیر کے یونیورسٹیوں کی اعلی تعلیمی درجات
اور شعبہ جات محکمات سے منسلک کرائے ہوئے ہوئے ہیں اسی طریقے سے اراکین بورڈ کی کوششیں ہوتی تو ضرور یہ خشک
ماحول اور شکستہ رائے اور احساس کمتری کا لا ابالہ پن ظاہر نہیں ہوتا ۔
ملک کی اعلی یونیورسٹیوں میں مدارس کی تہذیب و ثقافت کے فروغ کے لیے سیمینار کے قیام اور مدارس کے ماتحت چلنے والے شعباجات کا حقیقی تعارف ، پیش کیا جانا ، وقتی ضرورت ہے ۔۔۔۔۔۔ نا کہ مدارس کی بنیادوں کو کھوکھلہ کرکے ڈھانچے پر مدارس کا سلوگن لگانے کی مہم ۔۔۔۔۔۔ شاعر مشرق علامہ اقبال نے بہت پہلے اس طرف اشارہ کردیا تھا کہ ۔۔ یہ اہل کلیسا کا نظام تعلیم فقط سازش ہے دین و مروت کے لیے مدرسہ ایجوکیشنل بورڈ کے اراکین سے مودبانہ عریضہ ہے کہ وہ مدرسے سے جڑی پالیسیوں پر کام کریں اور اس کے فروغ و استحکام پر باتیں کریں مدارس کے ستھرا ماحول ، مضبوط سے مضبوط تر تعلیمی ماحول کو بنانے کے لیے جد و جہد کریں نا کہ خارجہ پالیسیوں سے متاثر ہوکر اپنا وجود ہی کھو دینے کی راہ تلاش کریں ۔

متعلم : جامعہ ملیہ اسلامیہ ، دہلی

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS