کیا روز روز کشمیری جنگجوؤں کا مارا جانا کسی مسئلے کا حل ہے؟

    0

    سرینگر: صریرخالد،ایس این بی
    جموں کشمیر پولس کے انسپکٹر جنرل وجے کمار نے گذشتہ دنوں سرینگر میں ایک ’’کامیاب‘‘جنگجو مخالف آپریشن کرنے پر پولس اور دیگر سرکاری فورسز کو شاباشی دی۔اس آپریشن میں تین مقامی جنگجو مارے گئے جو ماہ بھر قبل ہی بندوق اٹھا چکے تھے۔سرکاری فورسز کا یہ آپریشن اس ’’کامیاب‘‘سلسلے کی ایک کڑی تھی کہ جو مہینوں سے چلتا آرہا ہے اور جسکے دوران ابھی تک زائد از ایک سو جنگجوؤں کو مارا جاچکا ہے۔تاہم وادیٔ کشمیر میں لوگوں کا کہنا ہے کہ مارے جارہے جنگجوؤں کی تعداد گننے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ اس سے نوجوانوں کی بے گانگی اور بھی زیادہ بڑ جائے گی۔پھر جب آج وجے کمار نے ہی یہ اعلان کیا کہ سرینگر کے ایک لاپتہ پی ایچ ڈی اسکالر حزب المجاہدین میں شامل ہوگئے ہیں تو یہ خدشات سچ ہوتے محسوس ہونے لگے ہیں۔
    سرینگر کے بمنہ علاقہ کے پی ایچ ڈی اسکالر ہلال احمد ڈار چند روز سے لاپتہ تھے۔ذرائع کے مطابق وہ اپنے چند دوستوں کے ہمراہ گاندربل علاقہ میں تفریحی مہم جوئی پر تھے کہ جب سے انکا کوئی اتہ پتہ نہیں مل رہا تھا۔انکے لواحقین مسلسل کئی دنوں سے احتجاجی مظاہرے کرتے ہوئے ڈار کو ڈھونڈ لئے جانے کا مطالبہ کر رہے تھے اور آج وجے کمار نے ایک تقریب کے دوران پوچھے جانے پر ڈار کے جنگجو بن جانے کا انکشاف کیا۔
    کشمیر یونیورسٹی کے منیجمنٹ شعبہ کے اسکالر ہلال کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ ماہ بھر قبل سرینگر کے نواکدل علاقہ میں مارے گئے حزب کمانڈر اور حریت لیڈر اشرف صحرائی کے فرزند جنید صحرائی کے قریبی دوست رہے ہیں اور صحرائی کے مارے جانے سے ہی انہیں بندوق اٹھانے کی تحریک ملی۔
    دلچسپ ہے کہ ہلال ڈار ایسے حالات میں جنگجو بن گئے ہیں کہ جب  سرکاری فورسز کا پلڑا بھاری ہے اور جنگجوؤں کو کہیں امان نہیں مل پارہی ہے یہاں تک کہ پولس نے جنگجوئیت کا گڈھ بنے ہوئے جنوبی کشمیر کو جنگجوئیت سے آزاد کرنے کا اعلان کیا ہوا ہے۔مبصرین کا کہنا ہے کہ ان حالات میں ہلال جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان کا جنگجو بننا ایک بڑے خطرے کی نشانی ہوسکتی ہے۔کشمیر یونیورسٹی کے شعبۂ سماجیات کے ایک استاد کہتے ہیں’’سرکاری فورسز جنگجوؤں کی لاشیں گنتے ہوئے ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہی ہیں لیکن دوسری جانب ایک اسکالر بندوق اٹھاتا ہے،آپ سمجھ سکتے ہیں کہ حالات کتنے خراب ہیں‘‘۔کشمیر یونیورسٹی کے ہی ایک اور استاد کا کہنا ہے’’حالیہ مہینوں میں روز ہی کئی کئی جنگجو مارے جاتے رہے ہیں اور اب تو سرکار انکی لاشیں تک انکے لواحقین کے سپرد نہیں کرتی ہیں لیکن یہ کوئی کجامیابی نہیں ہوسکتی ہے۔سرکار سب کی ہوتی ہے اور اسے سمجھ لینا چاہیئے کہ لاشوں کی تعداد بڑھنا کوئی کامیابی نہیں ہوتی بلکہ صلح جوئی اور مسائل کے حل میں کامیابی ہی اصل کامیابی ہے۔‘‘ انکا نام نہ لئے جانے کی شرط پر مذخورہ استاد نے کہا ’’سرکاریہ فورسز کا پلڑا بے شک بھاری ہو لیکن میرے خیال میں لاشیں گننے سے آگے بڑھتے ہوئے مسائل کے حل کی ٹھوس کوششوں کے ذرئعہ قیامِ امن کی کوششیں کی جانی چاہیئے‘‘۔

     

    سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS