عباس دھالیوال
افغانستان میں طالبان کی واپسی کے بعد دنیا کے ملکوں کے اکثر لوگوں کے ذہن میں یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ آخر طالبان حکومت سازی کر نے کے بعد ملک کیسے چلائیں گے ؟ افغانستان کی اقتصادیات کا کیا ہوگا ؟ کہاں سے آئے گا پیسہ جو ملک کے اخراجات کو اٹھانے میں اہل ہو ؟
یہ سوال اس لیے اٹھ رہے ہیں کیونکہ امریکہ نے افغانستان کے اکاؤنٹس منجمد کر دیے ہیں اور ورلڈ بینک نے بھی تمام امدادی سہولیات بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایسے میں اگر دنیا کے ممالک طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کرتے جس کے نتیجے میں عالمی فنڈ نہیں ملنے کے سبب کیسے ممکن ہوگی افغانستان کی تعمیر نو ؟ یقیناً یہ ایک بڑا سوال ہے۔ ایسے بہت سے سوالوں کی وجہ سے تجزیہ کاروں اور دانشوروں کے بیچ افغانستان ایک بڑی بحث کا موضوع بنا ہوا ہے ۔ اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ جب دنیاوی اعتبار سے ہم افغانستان کے حالات کا مشاہدہ کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ گزشتہ قریب 4 دہائیوں سے جس طرح سے افغانستان کو مسلسل بیرونی و اندرونی خانہ جنگی کا شکار ہونا پڑا ہے اس کے نتیجے میں افغانستان آمدنی، تعلیم، صحت کے اعتبار سے دنیا کے پسماندہ ترین ممالک کی فہرست میں سب سے اوپر کے دو تین ملکوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
وہیں افغانستان کے ضمن میں اگر 2010 میں نیو یارک ٹائمز میں پینٹاگن کی رپورٹ کا تجزیہ کریں تو اس وقت افغانستان کم از کم دس کھرب ڈالر کے معدنی ذخائر سے مالامال ہے۔ اس ضمن میں امریکی محکمہ دفاع اور ارضیاتی سروے کے تعاون سے کیے جانے والے ایک تجزیے سے پتہ چلا کہ ان ذخائر میں ایک ایسی دھات شامل ہے جو اگر آج ختم ہو جائے تو کل تک تمام دنیا کا کاروبار ٹھپ ہونے کا خدشہ ہے ۔ دراصل اس دھات کو لیتھیئم کے نام سے جانا جاتا ہے، یہ دھات موبائل فون، ٹیبلٹس، لیپ ٹاپ، کیمروں، ڈرونز اور دوسری ڈیوائسز کی بیٹریز کے ساتھ ساتھ الیکٹرک کارز کی ری چارج ایبل بیٹریز میں بھی استعمال میں آتی ہے۔
وہیں 2017 میں ہونے والے ایک دوسرے سروے کے مطابق افغانستان کے معدنی وسائل کی مالیت 30 کھرب ڈالرز سے زائد ہے، لیکن اس سروے کو بھی حتمی نہیں کہا جا سکتا ہے کیونکہ ملک کے گزشتہ لمبے عرصے سے چلے آرہے کشیدہ حالات کی وجہ اب تک وہاں کوئی جامع سروے نہیںہو پایا ہے، جس سے معدنیات کے ذخائر کا صحیح طریقے سے پتا لگایا جا سکے۔
قابل ذکر ہے کہ 2001 میں جب امریکہ نے حملہ کرکے طالبان کی حکومت ختم کی تو اس وقت چین افغانستان کے صوبے لوگر میں ’مس عینک‘ ( پشتو اور فارسی تانبے کو مس کہتے ہیں اور عینک عربی لفظ ’عین‘ یعنی چشمے کی تخفیفی شکل ہے، جس کا مطلب ہے ماخذ)نامی تانبے کی ایک کان میں کان کنی کے منصوبے پر کام کر رہا تھا۔
جس طرح ہم جانتے ہیں کہ انٹرنیٹ کے اس عہد میں موبائل، ڈیوائسزاور الیکٹرک گاڑیوں کے استعمال کا رجحان فروغ پا رہا ہے۔ تو ایسے میں لیتھیئم کی مانگ بھی روزبروز بڑھ رہی ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق 2040 میں مذکورہ دھات کی ڈیمانڈ میں 40 گنا کا اضافہ ہونے کا امکان ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ جیسے تیل سے مشرقِ وسطیٰ کی معیشت دیکھتے ہی دیکھتے یکسر بدل گئی تھی بالکل اسی طرح سے مذکورہ معدنیات سے مالامال افغانستان بھی ان ذخائر سے فائدہ اٹھا کر اپنی تقدیر بدلنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر افغانستان میں کس قدر لیتھیئم موجود ہے تو اس ضمن میں پینٹاگن کی ایک رپورٹ میں افغانستان ’لیتھیئم کا سعودی عرب‘ قرار دیا گیا ہے۔ جبکہ مذکورہ رپورٹ کے حوالے سے امریکی فوج کے کمانڈر جنرل ڈیوڈ پیٹریئس نے کہا تھا، ’یہاں حیران کن پوٹینشل موجود ہے۔‘ فرق صرف اتنا ہے کہ سعودی عرب یا مشرقِ وسطیٰ کے دوسرے ملکوں میں تیل پایا جاتا ہے، جسے آج کی ماحولیاتی تشویش سے دوچار دنیا میں پسند نہیں کیا جاتا، جب کہ لیتھیئم صاف ستھری اور قابلِ تجدید توانائی کا اہم حصہ ہے۔ لیتھیئم افغانستان کے غزنی، ہرات اور نمروز صوبوں میں موجود ہے۔ ماہرین کے مطابق لیتھیئم کے علاوہ افغانستان میں تانبہ، سونا، لوہا اور کوبالٹ بھی بڑی مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق افغانستان میں کھربوں ڈالر کے معدنیات کے ذخائر موجود ہیں۔ ایک اندازہ یہ بھی ہے کہ افغانستان کی وادیوں، چٹانوں اور پہاڑوں میں کم و بیش 30 کھرب ڈالر کی معدنیات چھپی ہیں جو آج تک کسی کے ہاتھ نہیں لگیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان معدنیات کی وجہ سے افغانستان کو لیتھیئم کا سعودی عرب کہا جارہا ہے۔اس کے علاوہ افغانستان میں نایاب دھاتوں نیوہڈیمئیم، پریڑیڈیمئیم اور ڈسپروڑیم اور تانبہ کے بھی وسیع ذخائر پائے جاتے ہیں جو آنے والے وقتوں میں موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے دنیا کو کلین انرجی کے لیے بڑے پیمانے پر درکار ہیں۔
اس کے علاوہ افغانستان کی چٹانیں بھی جیسے نایاب پتھروں کی کانیں ہیں جہاں زمرد، یاقوت، لعل، سنگ تماری اور لاجورد جیسے قیمتی پتھر پائے جاتے ہیں۔ ان کانوں سے کوئلہ، لوہا کو بالٹ، سنگ مرمر اور ٹالک نکالا جاتا ہے۔
افغانستان میں موجود مذکورہ معدنیات کے ہونے کی وجہ سے ہی چین روس اور یورپ کے دیگر ممالک اب افغانستان میں ایک مستحکم سرکار دیکھنے کے خواہاں ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے ہی لگایا جا سکتا ہے کہ اس ضمن میں چین دنیا کا پہلا ملک ہے جس نے طالبان کے ساتھ ’دوستانہ تعلقات‘ قائم کرنے کے لیے آمادگی ظاہر کی ہے۔ ماہرین کے مطابق اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ چین کو اپنی تیزی سے پھلتی پھولتی ٹیکنالوجی پر مبنی معیشت کو مذکورہ معدنیات کی اشد ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ 28 جولائی کو چینی وزیرِ خارجہ وانگ یی نے طالبان کے وفد سے بیجنگ میں ملاقات کی اور کہا کہ ’طالبان افغانستان کے امن، مصالحت اور تعمیر نو میں اہم کردار ادا کریں گے۔ اس موقعہ پر افغان وفد کے سربراہ ملا عبدالغنی برادر نے امید ظاہر کی ہے کہ چین افغانستان کی تعمیر نو اور معاشی ترقی میں زیادہ بڑا کردار ادا کرے گا۔
قابل ذکر ہے کہ 2001 میں جب امریکہ نے حملہ کرکے طالبان کی حکومت ختم کی تو اس وقت چین افغانستان کے صوبے لوگر میں ’مس عینک‘ (پشتو اور فارسی تانبے کو مس کہتے ہیں اور عینک عربی لفظ ’عین‘ یعنی چشمے کی تخفیفی شکل ہے، جس کا مطلب ہے ماخذ)نامی تانبے کی ایک کان میں کان کنی کے منصوبے پر کام کر رہا تھا۔
ادھر آسٹریا کے انسٹی ٹیوٹ فار یورپین اینڈ سیکورٹی پالیسی کے سینئر فیلو مائیکل ٹینکم ڈوئچے ویلے کا کہنا ہے کہ ’طالبان کا افغانستان پر قبضہ ایسے وقت ہوا ہے، جب مستقبل قریب میں دنیا میں معدنیات کی کمی واقع ہونے والی ہے اور چین کو ان کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’چین پہلے ہی سے اس حالت میں ہے کہ وہ ان معدنیات کو نکال سکے۔
[email protected]