محمدرفیع کے آج بھی لاکھوں دیوانے : شیخ ساجد اقبال

0

شیخ ساجد اقبال
بر صغیر کے عظیم گلوگار ، سروں کے شہنشاہ محمد رفیع کے گائے ہو ئے سدا بہار گیت آج بھی سننے والوں پر سحر طاری کر دیتے ہیں ۔ محمد رفیع کو ہندوستان کا سب سے سریلا گلو کار تسلیم کیا جا تا ہے وہ بہت منکسر اورحلیم انسان تھے ، بہت سادہ زندگی بسر کر تے تھے ۔ ایک دفع گلو کاروں نے رائلٹی کے لئے ہڑتال کر دی ، لتا منگیشکر سے لے کر کشور کمار تک تمام گلوکارروں نے گیت ریکارڈ کرانے سے انکار کر دیا ، پوری فلمی صنعت ایک بحران میں مبتلا ہو گئی، لیکن محمد رفیع گیتوں کی ریکارڈنگ کراتے رہے ، اس پر باقی گلو کاروں کو بہت افسوس ہوا۔ ان میں سے کچھ پلے بیک سنگر ز نے محمد رفیع صاحب سے ملاقات کی اور انہیں سمجھایا کہ ہم لوگ رائلٹی کے حصول کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں اور آپ ہمارا ساتھ نہیں دے رہے ہیں ۔ اب آپ اسے محمد رفیع کی بے نیازی کہیئے یا سادہ لوحی، انہوں نے پوچھا ’’ یہ رائلٹی کیا ہو تی ہے ؟
اب ذرا ان کی شخصیت کا ایک اور پہلو ملا حظہ کریں ۔ اپنے ملک کے سابق وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو آرٹ کے بہت قدر دان تھے اور فنکاروں کا بہت احترام کر تے تھے ۔ ہر سال ملک کے یوم آزادی کے موقع پر ایک تقریب میں شرکت کر تے تھے جس میں فلمی صنعت سے تعلق رکھنے والے افراد اور گلو کار بھی ہو تے تھے ۔ عام طور پر جواہر لا ل نہرو دلیپ کمار سے ایسی تقریبات کے انعقاد کے لئے کہا کر تے تھے ۔ ایک ایسی ہی تقریب میں محمد رفیع بھی موجود تھے ۔ جہاں پنڈٹ جواہر لال نہرو نے ان سے یہ فلمی گیت گانے کے لئے کہا ، جس کے بو ل تھے ’’ چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو ۔ محمد رفیع نے یہ گیت گایا تو پوری محفل جھوم اُٹھی۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے خوش ہو کر محمد رفیع صاحب سے کہا ’’ آپ اپنی کوئی خواہش بتائیں ‘‘ اس پر محمد رفیع تھوڑی دیرکے لئے خاموش ہو گئے پھر انہوں نے بڑی معصومیت سے کہا ’’ وزیر اعظم صاحب آل انڈیا ریڈیو پر جب میرے گیت نشر کئے جا تے ہیں تو یہ کہا جا تا ہے ’’ رفیع کی آواز میں فلاںفلم کا گیت سنیئے ‘‘ براہِ کرم آپ ہدایت جاری کریں کہ میرا پوارا نام لیا جا ئے ۔ میرا پورا نام محمد رفیع ہے ، بس اس کے علاوہ مجھے اور کچھ نہیں چاہیئے ۔ بس پھر کیا تھا پنڈ ت نہرو کی ہدایت پر اگلے ہی روز عمل در آمد کر دیا گیا ۔
پنجاب کے کوٹلہ سلطان سنگھ گائوں میں 24 دسمبر 1924 کو پیدا ہو نے والے آواز کی دنیا کے بے تاج بادشاہ محمد رفیع صاحب کو گلو کاری کی تحریک ایک فقیر سے ملی تھی ۔ ایک متوسط مسلم خاندان میں جنم لینے والے محمد رفیع ایک فقیر کے نغمہ کو سنا کر تے تھے جس سے ان کے دل میں موسیقی کے تئیں دلچسپی پیدا ہو گئی ۔ رفیع صاحب کے بڑے بھائی حمید نے محمد رفیع کا موسیقی کے تئیں رحجان دیکھ لیا تھا اور انہوں نے اس راہ پر آگے بڑھانے میں ان کی حوصلہ افزائی کی ۔ محمد رفیع لاہور میں موسیقی کی تعلیم استاد عبد الواحد خان سے لینے لگے اور ساتھ ہی انہوں نے غلام علی خان سے کلاسیکی موسیقی بھی سیکھنی شروع کی ۔ ایک بار حمید رفیع صاحب کو لے کرکے۔ ایل سہگل کے موسیقی پروگرام میں گئے، لیکن بجلی نہ ہو نے کی وجہ سے کے ایل سہگل نے گا نے سے انکار کر دیا ۔ حمید صاحب نے پروگرام کے کنوینر سے گذارش کی کہ وہ ان کے بھائی کو پروگرام میں گانے کا موقع دیں ۔ کنوینر کے راضی ہو نے پر محمد رفیع نے پہلی بار 13 سال کی عمر میں اپنا پہلا نغمہ اسٹیج پر پیش کیا ۔ شائقین کے درمیان بیٹھے موسیقار شیام سندر کو ان کا گا نا اچھا لگا اور انہوں نے رفیع صاحب کو ممبئی آنے کی دعوت دی۔
شیام سندر کی موسیقی میں رفیع صاحب نے اپنا پہلا گانا زینت بیگم کے ساتھ پنجابی فلم ’’ گل بلوچ ‘‘ کے گانے گایا ، جس کے بول ’’ سونیئے نی ہیر ینی ‘‘ تھے۔ 1944میں نوشاد کی موسیقی میں انہوں نے اپنا پہلا ہندی گا نا ’’ ہندوستان کے ہم ہیں ‘‘ فلم پہلے آپ کے لئے گا یا ۔ 1969میں نوشاد کی موسیقی میں فلم دلاری کے گیت ’’ سہانی رات ڈھل چکی ‘‘ کے ذریعے ان کے لئے کا میابی کے دروازے کھُل گئے ۔ دلیپ کمار ، دیوآنند، شمی کپور ، راجندر کمار ، ششی کپور ، راجکمار جیسے نامورہیرو کی آواز کہے جا نے والے رفیع صاحب نے اپنے طویل کیریئر میں تقریبا ً 700فلموں کے لئے 4516سے بھی زیادہ گا نے گا ئے جو ایک ورلڈ رکارڈ ہے ۔
1977میں انہیں مقبول تر ین گا نا ’’ کیا ہوا تیرا وعدہ ‘‘ پر پہلا نیشنل ایوارڈ دیا گیا، جبکہ حکومت نے انہیں 1967میں پدما شری ایوارڈ سے نوازا۔ محمد رفیع کو کلاسیکی کے ساتھ ساتھ شوخ چنچل گانوں پر بھی مہارت حاصل تھی ۔ شمی کپور پر فلمائے گئے ’’چاہے کوئی مجھے جنگلی کہے ‘‘ جیسے ان کے گیت بے حد پسند کئے گئے ۔ محمد رفیع صاحب نے ایس ۔ ڈی بر من ، شنکر جئے کشن ، مدن موہن ، کلیان جی آنند جی ، خیام ، روی ،ا وپی نیئر ، چندر گپت ، اقبال قریشی کے ساتھ کام کیا اور 1942سے 1980کے دوران ان کی آواز میں ہندوستانی سنیما کے تقریبا ً ہر ہیروز پر گا نے فلمائے گئے۔ لیجینڈ گلو کار محمد رفیع صاحب کے مقبول تر ین گا نوں میں ’’ کیا ہوا تیرا وعدہ وہ قسم وہ ارادہ ‘‘ ’’ لکھے جو خط تجھے وہ تیری یاد میں ‘‘ ، ’’ بہاروں پھول بر سائو میرا محبوب آ یا ہے ‘‘ ، ’’ بابل کی دعائیں لیتی جا ‘‘ ، ’’ یہ ریشمی زلفیںیہ شربتی آنکھیں ‘‘ ،’’ یہ جوچلمن ہے دشمن ہے ہماری‘‘، ’’ تیری گلیوں میں نہ رکھینگے قدم ‘‘ ، ’’ آ جا تجھ کو پکارے میرے گیت رہے ‘‘ ،’’ خوش رہے تو سدا یہ دعا ہے میری ‘‘، جیسے سینکڑوں گیت شامل ہیں ۔ محمد رفیع صاحب نے اردو ، ہندی مراٹھی کے ساتھ ساتھ گجراتی ، بھوجپوری اور تامل زبانوں میں بھی ہزاروں گیت گا ئے ، ان کے گائے ہو ئے گیت آج بھی سننے والوں پر سحر طاری کر دیتے ہیں ۔
محمد رفیع صاحب کو اپنے کیریئر میں چھ بار فلم فیئر اور پدم شری ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ۔ رفیع صاحب اداکار امیتابھ کے بہت بڑے پرستار تھے جبکہ انہیں فلمیں دیکھنے کا شوق نہیں تھا لیکن کبھی کبھی وہ فلم دیکھ لیا کر تے تھے ۔ ایک بار انہوں نے امیتابھ بچن کی فلم دیوار دیکھی تھی ، اس کے بعد ہی وہ امیتابھ کے پر ستار بن گئے ۔ 1980میں ریلیز ہو ئی فلم نصیب میں محمد رفیع کو امیتابھ کے ساتھ ’’ چل چل میرے بھائی‘‘ گا نا گا نے کا موقع ملا ۔ امیتابھ کے ساتھ گا نا گا نے پر وہ بیت خوش ہو ئے تھے ۔ امیتابھ کے علاوہ انہیں شمی کپور اور دھر میندر کی فلمیں بھی بہت پسند آتی تھیں ۔ انہیں امیتابھ اور دھر میندر کی فلم شعلے بہت بے حد پسند تھی اور انہوں نے اسے تین بار دکھا تھا ۔ 30جولائی 1980کو فلم ’’ آس پاس‘‘ کے نغمے ’’ شام کیوں اداس ہے دوست ‘‘ مکمل کر نے کے بعد جب رفیع صاحب نے لکشمی کانت پیارے لال سے کہا ’’ کیا میں جا سکتا ہوں ‘‘جسے سن کر وہ حیران ہو گئے کیونکہ اس سے پہلے رفیع صاحب نے ان سے کبھی اس طرح اجازت نہیں مانگی تھی۔ اگلے دن31 جولائی 1980 کو انہیں دل کا دورہ پڑا اور وہ دنیا سے رخصت ہو گئے ۔
محمد رفیع کواس دنیا سے رخصت ہو ئے تقریبا ً 43 سال ہو چکے ہیں ، لیکن ان کے مداحوں کی تعداد میں کسی طرح کی کوئی کمی نہیں آئی ۔ محمد رفیع صاحب کو یہ خداداد صلاحیت حاصل تھی کہ انہوں نے ہر موقع پر نغمے گا ئے ، لیکن ان کے جذباتی اور دکھ بھرے گیتوں کو آج بھی پسند کیا جا تاہے بلکہ ان کے بھجن ہندوئوں کے تہواروں پر بجائے جا تے ہیں ۔ یہ عام خیال ہے کہ وقت کے ساتھ ہر ستارہ اپنی چمک کھو دیتا ہے ، لیکن محمد رفیع کے بارے میں یہ صحیح نہیں ہو گا ۔ تقریبا ً چار دہائیوں کے بعد بھی ان کے مداحوں میں کوئی کمی نہیں آئی اور آج بھی ہندوستان اور بر صغیر ہی نہیں بلکہ دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی انہیں احترام سے یاد کیا جا تا ہے اور سنا جا تا ہے ۔
rvr

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS