ذکر پھر سی اے اے کا!

0

کسی بھی ملک کی خوشحالی کے لیے ترقی کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن رکھنے کے لیے حکومتوں کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ لوگ خواہ مخواہ کی الجھنوں میں گرفتار نہ ہوں، خدشات ان کے اذہان کو یرغمال نہ بنائیں، وہ صرف ترقی کے بارے میں سوچیں، آگے بڑھنے کی جدوجہد کریں، انہیں ہر طرح کی سہولتیں فراہم کی جائیں۔ اسی لیے گنگا جمنی تہذیب، ہندو-مسلم ایکتا، بھائی چارے اور ہر اس بات کو اہمیت دی جاتی رہی ہے جو ملک کے لوگوں کو ایک دوسرے سے جوڑ کر رکھے مگر ادھر کے برسوں میں ملک کو بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے، نئے قوانین لائے جا رہے ہیں، انہی میں ایک سی اے اے بھی ہے جس کا ذکر وزیر داخلہ امت شاہ نے آج پھر کیا اور کہا کہ ’ہم سی اے اے کو ہرحال میں نافذ کریں گے، اس سے پیچھے ہٹنے کا کوئی سوال ہی نہیں اٹھتا ہے۔‘ سی اے اے کے خلاف بڑے پیمانے میں ملک اور دنیا کے دیگر حصوں میں احتجاج ہوچکا ہے، اس کی وجہ سے ہمارے ملک کے خلاف لوگوں کو بولنے کا موقع ملا ہے، اس کے باوجود وزیر داخلہ نے سی اے اے کے نفاذ کی یقین دہانی کی ضرورت کیوں محسوس کی، اس کی ظاہری وجہ ناقابل فہم نہیں ہے۔ اس یقین دہانی سے ایسا لگتا ہے کہ اترپردیش کے اس بار کے حالات 2017 کے حالات جیسے نہیں ہیں۔ پچھلی بار مظفرنگر فساد نے فرقہ وارانہ سیاست کرنے والوں کی چاندی کر دی تھی، یوپی کا سماج فساد کی بنیاد پر بٹا ہوا نظر آیا تھا مگر اس بار لوگوں نے بھائی چارے کی اہمیت نظرانداز نہیں کی ہے، اپنی ضرورتوں کو بھلایا نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اترپردیش میں پہلے مرحلے کے انتخاب سے قبل کیرانہ کا ذکر چھیڑا گیا، دنگوں کا ذکر کیا گیا مگر حالات نہیں بدلے۔ رام مندر کا ذکر چھڑا مگر سماج کو بانٹنے میں کامیابی نہیں ملی۔ پھر کرناٹک میں حجاب پر تنازع کی ابتدا ہوئی، اس کا بالواسطہ اثر بھی یوپی کے انتخابی ماحول پر نہیں پڑا، پڑنا بھی نہیں تھا۔ جس ملک کی تہذیب ہی لڑکیوں کو پردے کی اہمیت بتاتی ہو، اس ملک میں حجاب سیاست کا ایشو تو بن سکتا ہے، دھرم کا ایشو نہیں بن سکتا، اس کی بنیاد پر سماج کی تقسیم نہیں ہوسکتی، ووٹ حاصل نہیں کیے جا سکتے۔اب وزیرداخلہ امت شاہ نے سی اے اے نافذ کرنے کا ذکر کیا ہے، کیا یہ سمجھا جائے کہ یہ بی جے پی کے ترکش کا آخری تیر ہے؟
جذباتی ایشوز اثر تو دکھاتے ہیں مگر ان کا اثر دیر پا نہیں ہوتا۔ مہنگائی اور بے روزگاری نے حالات بدلے ہیں، لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ بے روزگاری ان کی نسل تباہ کر دے گی۔ اسی سال جنوری میں ریلوے ریکروٹمنٹ بورڈ کے امتحان کے سلسلے میں بہار کے ساتھ اترپردیش کے پریاگ راج میں بھی طلبا نے احتجاج کیا تھا، پولیس نے ان پر لاٹھی چارج کیا تو بے روزگاری ایک بڑا ایشو بن گئی، اتنا بڑا ایشو کہ کورونا میں لوگوںکی اموات اور مہنگائی کے ایشوز پس پشت چلے گئے۔ ایسی صورت میں طلبا کو اپنے مستقبل کے علاوہ کچھ اور نظر نہیں آرہا ہے، ان کا رجحان بس اس پر ہے کہ کون وکاس کی بات کر رہا ہے، کون روزی روزگار کی بات کر رہا ہے، اس لیے فرقہ پرستی کی سیاست زیادہ کام نہیں کر رہی ہے۔ ویسے اس سے بھی انکار ممکن نہیں کہ فرقہ پرستی کی دھار ماند کرنے میں کسان تحریک نے اہم رول ادا کیا ہے۔ ستمبر، 2021 میں مظفرنگر میں کسانوں نے مہاپنچایت کی تھی۔ اس میں ’اللہ اکبر‘ اور ’ہرہر مہادیو‘کے نعرے لگاکر کسانوں نے یہ اشارہ دے دیا تھا کہ وہ اب بنٹیں گے نہیں اور بانٹنے والوں کی سیاست کو بھی قبول نہیں کریں گے، چنانچہ انتخابات کے دوران فرقہ پرستی کے سہارے لوگوں کو بانٹنے کی کوشش جتنی بھی کی جائے، ایسا لگتا نہیں کہ یہ کوشش اس بار کے اسمبلی انتخابات میں زیادہ اثر دکھائے گی۔ رہی بات سی اے اے کے نفاذ کی تو 2019 میں اس کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں صرف مسلمانوں نے ہی شرکت نہیں کی تھی، تمام برادران وطن نے بھی شرکت کی تھی۔ اس وقت کسان تحریک نہیں ہوئی تھی، اس وقت تک موجودہ حکومت نے پارلیمنٹ سے پاس کسی قانون کو واپس نہیں لیا تھا مگر مستقل کسان تحریک کے نتیجے میں حکومت کو زرعی قوانین واپس لینے پڑے۔ اس تحریک میں مغربی اترپردیش، پنجاب، ہریانہ اور ملک کے دیگر علاقوں کے کسان بلاتفریق مذہب ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے نظر آئے تو اگر حکومت نے سی اے اے نافذ کرنے کی پہل نئے سرے سے کی تو حالات کیا ہوں گے، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ یوکرین کی وجہ سے دنیا کے جو حالات بنے ہیں اور جیسے حالات کے بننے کا اندیشہ ہے، چین کے ساتھ ہندوستان کے رشتے بیحد مشکل دور میں ہیں، اس کے مدنظر حکومت کو سی اے اے نافذ کرنے کی کوشش کرنے کے بجائے دنیا کے بدلتے حالات کی مناسبت سے ملک کو مستحکم بنانے، مہنگائی، بے روزگاری ختم کرنے پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS