کوئی بھی پارٹی جیتنے کے لیے ہی انتخابی میدان میں اترتی ہے اور اسی لیے وہ نفع نقصان کا خیال کرتے ہوئے ہی کسی اتحاد سے الگ ہوتی ہے یا کسی اتحاد میں شامل ہوتی ہے۔ اتحاد کی سربراہی اکثر وہی پارٹی کرتی ہے جو سب سے زیادہ سیٹیں لاتی ہے یا لانے کی سکت رکھتی ہے۔ 2014 اور 2019 کے انتخابات میں کانگریس کی کارکردگی اس کی سابقہ کارکردگی سے مختلف تھی۔ اس کے باوجود اپوزیشن پارٹیوں میں سب سے بڑی پارٹی بن کر وہی ابھری تھی۔ اسی لیے یہ بات کہی جارہی تھی کہ اگر کسی بڑے اپوزیشن اتحاد کی تشکیل ہوتی ہے تو اس کی سربراہی کانگریس ہی کرے گی۔ کچھ لیڈروں کی سیاسی سرگرمیوں سے ایسا لگتا تھا کہ وہ بی جے پی کی سربراہی والے اتحاد کی تشکیل کرنا چاہتے ہیں لیکن مہاراشٹر میں شندے گروپ کے الگ ہونے اور بہار میں نتیش کمار کے بی جے پی کا ساتھ چھوڑ کر راشٹریہ جنتا دل کے ساتھ آجانے سے سیاسی حالات بڑی تیزی سے بدلنا شروع ہوگئے۔ اپوزیشن پارٹیوں کے ایک بڑے اتحاد کی تشکیل کے لیے نتیش کمار اور تیجسوی یادو نے جس طرح جدوجہد کی، یہ اسی کی وجہ سے ممکن ہوا کہ 23جون، 2023 کو پٹنہ میں اپوزیشن پارٹیوں کی ایک بڑی میٹنگ ہوسکی۔ اس میں ممتابنرجی، اکھلیش یادو، اروندکجریوال جیسے ان لیڈروں نے بھی شرکت کی جن کی شرکت کرنے کی بات پہلے دعوے سے نہیں کہی جاسکتی تھی، کیوں کہ دہلی اور پنجاب میں جس پارٹی کو شکست دے کر عام آدمی پارٹی اقتدار میں آئی، وہ کانگریس تھی۔ ممتابنرجی کی آل انڈیا ترنمول کانگریس پارٹی اور اکھلیش یادو کی سماجوادی پارٹی کے بارے میں بھی یہ اندیشہ تھا کہ وہ کانگریس کی سربراہی والے اتحاد کا حصہ نہیں بنیں گی لیکن راہل گاندھی کی ’بھارت جوڑو یاترا‘ اور کانگریس کی کرناٹک اسمبلی انتخابات کی جیت نے حالات بدل دیے ہیں۔18جولائی ، 2023کو میٹنگ میں شامل ہونے کے لیے بنگلورو پہنچنے والے لیڈروں کے بیانات سے ایسا لگتا ہے کہ اتحاد کے سلسلہ میں ان کا ذہن بن چکا ہے۔ اکھلیش یادو کا کہنا ہے کہ ’اس بار دو تہائی آبادی بی جے پی کو شکست دینے جارہی ہے۔ مجھے امید ہے کہ ملک کے لوگ بی جے پی کو بڑی شکست دیں گے۔‘
یہ بات طے سی ہے کہ 18جولائی، 2023کی اپوزیشن پارٹیوں کی میٹنگ بڑا اتحاد بنانے کے لیے ایک اہم میٹنگ ہوگی۔ سمجھا جاتا ہے کہ اس میٹنگ میں سیٹوں کی شیئرنگ، انتخابی تعاون اور پارٹیوں کے درمیان کمیونی کیشن پر گفتگو ہوگی۔ ممتابنرجی میٹنگ میں شرکت کے لیے بنگلورو پہنچ چکی ہیں۔ ایم کے اسٹالن بھی بنگلورو پہنچ چکے ہیں۔ عام آدمی پارٹی کے نمائندے کی میٹنگ میں شرکت پر تذبذب نہیں۔ اس بار راشٹریہ لوک دل کے جینت چودھری بھی میٹنگ میں شرکت کررہے ہیں۔ آج شردپوار اپنی پارٹی کے ممبران اسمبلی کی میٹنگ کی صدارت کی وجہ سے اپوزیشن پارٹیوں کے ڈنر میں شامل نہیں ہوسکے، البتہ ان کی بیٹی سپریاسلے نے یہ بات واضح کردی ہے کہ وہ 18جولائی کو اپوزیشن پارٹیوں کی میٹنگ میں شامل رہیں گے۔ اپوزیشن پارٹیوں کی پٹنہ میٹنگ کے مقابلہ اس بار 10نئی پارٹیوں کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے، اس لیے بھی اپوزیشن پارٹیوں کی بنگلورو میٹنگ بے حد اہم ہے۔
ادھر 18جولائی کو قومی جمہوری محاذ یعنی این ڈی اے کی بھی اہم میٹنگ ہورہی ہے، کیوں کہ اس کی صدارت وزیراعظم نریندر مودی خود کریں گے۔ اس میٹنگ کے سلسلہ میں کانگریس صدر ملکارجن کھرگے کا کہنا ہے کہ ’راجیہ سبھا میں بولتے ہوئے وزیراعظم نے کہا تھا، ’’میں اکیلا کافی ہوں سارے اپوزیشن کے لیے۔‘‘ پھر وہ کیوں 30پارٹیوں کو ساتھ لارہے ہیں۔‘ لیکن یہ بات نظرانداز نہیں کی جانی چاہیے کہ قومی جمہوری محاذ کی تشکیل ابھی نہیں ہورہی ہے، اس کی ایک اہم میٹنگ ہورہی اور انتخابات کے قریب آنے پر ایسی میٹنگوں کا ہونا، نئی پارٹیوں کا اتحاد سے وابستہ ہونا کوئی حیرت کی بات نہیں ہوتی، البتہ این ڈی اے کی یہ میٹنگ اس بات کا اشارہ ضرور ہے کہ 2024کے عام انتخابات کے بارے میں دعوے سے کوئی حتمی بات کہنا ممکن نہیں۔ اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد کا امتحان سیٹوں کی شیئرنگ پر ہوگا۔ اگر وہ مرحلہ آسانی سے گزر گیا تو پھر حالات 2019کے حالات جیسے نہیں رہ جائیں گے مگر اس سلسلہ میں فی الوقت کوئی بات کہنا تو قبل ازوقت ہی ہوگا۔
[email protected]
اتحاد کیلئے میٹنگ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS