گِلۂ جفائے وفا نما کہ حرم کو اہل حرم سے ہے: عبیداللّٰہ ناصر

0

عبیداللّٰہ ناصر

ملک کے اندرونی حالات خاص کر اقلیتوں کے ساتھ مودی کے دور حکومت میں جو جو مظالم ہوئے ہیں، جمہوریت اور جمہوری اداروں کے ساتھ مودی سرکار میں جو ہو رہا ہے، آئین ہند کی روح تو درکنار اس کے الفاظ تک کی پاسداری نہیں کی جا رہی ہے۔ پریس کا گلا گھوٹا جا رہا ہے، تمام انٹرنیشنل رینکنگ میں ملک پچھڑتا چلا جا رہا ہے، ان سب کو لے کر عالمی برادری میں تشویش ظاہر کی جا رہی ہے اور مودی جی کی ذاتی امیج کو زبردست جھٹکا لگ رہا ہے چونکہ وہ150کروڑ کی آبادی والے ملک کے سربراہ ہیں اور ہندوستان ایک بہت بڑی مارکیٹ بھی ہے جس سے ساری دنیا خاص کر ترقی یافتہ ملکوں کے تجارتی اور معاشی مفاد وابستہ ہیں، اس لیے انہیں واجب پروٹوکول بھی ملتا ہے اور ملنا بھی چاہیے کیونکہ وہ ہمارے منتخب سربراہ ہیں۔ وہ ایوارڈ وغیرہ سے بھی نوازے جاتے ہیں، یہ سب بھی ملک کے لیے خوشی کی بات ہے لیکن ان ملکوں کی سول سوسائٹی، پریس، حقوق انسانی کے کارکن انہیں زبردست تنقید اور نکتہ چینی کا نشانہ بھی بناتے ہیں۔ امریکہ اور فرانس میں جو ہوا، اس سے بھلے ہی گودی میڈیا عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر چھپانے کی کوشش کرے لیکن سوشل میڈیا سب کچھ عوام کے سامنے رکھ رہا ہے۔ فرانس کے سب سے بڑے اخبار ’لے مونڈے‘ نے جو کچھ لکھا ہے وہ بھی ہندوستان میں سب کے سامنے آ چکا ہے۔اس سے پہلے امریکی اخبار ’وال اسٹریٹ جرنل‘ کی صحافی سبرینہ صدیقی اور امریکہ کے سابق صدر براک اوباما بھی ہندوستان کے اندروزنی حالات خاص کر مسلمانوں پر ہو رہے مظالم کی بات اٹھا چکے ہیں۔ یاد رہے کہ جب وہ ہندوستان بطور صدر آئے تو بھی انہوں نے مودی جی کو گاندھی اور نہرو کی راہ پر چلنے کی تلقین کی تھی۔
امریکہ میں جب ’وال اسٹریٹ جرنل‘ کی صحافی سبرینہ صدیقی نے مودی جی سے ہندوستان میں مسلمانوں پر ہورہے مظالم اور اس کی روک تھام کے لیے وہ کیا کریں گے، اس کے بارے میں سوال کیا تو مودی جی بڑی ہوشیاری سے اسے ٹال گئے اور رٹا رٹایا جواب دے دیا کہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور یہاں کسی کے ساتھ کوئی بھیدبھاؤ نہیں ہوتا چونکہ اس پریس کانفرنس میں ایک صحافی کو صرف ایک ہی سوال پوچھنے کی اجازت تھی، اس لیے سبرینہ ان سے اپنے سوال کے جواب نہ دینے کی بات نہیں کہہ سکیں۔ بھلے ہی مودی جی نے یہ کہہ کر بات ٹال دی ہو کہ ان کی حکومت کسی کے ساتھ مذہب، ذات اور علاقہ کی بنیاد پر تفریق نہیں کرتی لیکن دنیا دیکھ رہی ہے کہ آزادی کے بعد پہلی بار مودی جی کی ایسی اکلوتی حکومت ہے جس میں کوئی مسلمان وزیر تو درکنار حکمراں جماعت کا کوئی ممبر پارلیمنٹ تک نہیں ہے۔کیا دنیا نہیں دیکھ رہی ہے کہ بی جے پی کی حکمرانی والی ریاستوں میں مسلمانوں کا عرصۂ حیات کیسے تنگ کیا جا رہا ہے۔ بجرنگ دل کے کارکنوں کو خدائی فوجدار بنا دیا گیا ہے، قانون ان کے پاؤں کے نیچے ہوتا ہے اور پولیس ان کے اشاروں پر کام کرتی ہے، وہ کھلے عام مسلمانوں کو شہر محلہ علاقہ چھوڑنے کی دھمکیاں دیتے ہیں، جب چاہیں جس کی دکان پر دھاوا بول دیتے ہیں، گئو رکشہ کے نام پر تقریباً250نوجوانوں کو بے دردی سے تڑپا تڑپا کے موت کے گھا ٹ اتارا جاچکا ہے اور وزیراعظم، وزیرداخلہ سے لے کر بی جے پی کے کسی لیڈر کے منہ سے بھی اس کے خلاف ایک لفظ نہیں نکلتا، الٹے مرکزی وزیر قاتلوں کو ہار پھول پہنا کر انہیں مٹھائی کھلاتا ہے۔ مسلمانوں کی نسل کشی کا کھلے عام اعلان کیا جاتا ہے۔ 20 لا کھ مسلمانوں کو قتل کرنے کا منصوبہ ظاہر کیا جاتا ہے اور حکومت خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔ ’جنیو سائڈ واچ‘ نامی عالمی تنظیم کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نسل کشی کے جو 10مراحل ہوتے ہیں؟ ہندوستان ان میں سے آٹھ مراحل طے کر چکا ہے پھر بھی حکومت کو حالات کی سنگینی کا کوئی احساس نہیں ہے۔ دن رات حکومت کی سرپرستی میں مسلمانوں اور اسلام کو ولن کے طور پر پیش کر کے عام ہندوؤں کے دماغوں کو اس حد تک پراگندہ کیا جا چکا ہے کہ اب مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کو وہ نہ صرف حق بجانب سمجھتے ہیں بلکہ کھلے عام یہ کہتے بھی ہیں کہ یہ اسی لائق ہیں۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ عالمی برادری ان سب حقائق سے نابلد ہے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے، انٹر نیٹ کے اس دور میں دنیا کے کسی بھی حصہ میں ہونے والی چھوٹی سے چھوٹی واردات بھی منٹوں سیکنڈوں میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے پہنچ جاتی ہے۔ دوسرے یہ بھی دھیان رکھنا چاہیے کہ آج کی مہذب دنیا حقوق انسانی کے سلسلہ میں بہت حساس ہے اور حقوق انسانی کی پامالی کسی بھی ملک کا اندرونی مسئلہ نہیں رہ گیا، اس لیے جب حکومت ہند کی وزارت خارجہ دنیا بھر میں اٹھنے والی آوازوں کو ہندوستان کے اندرونی معاملوں میں مداخلت کہہ کر اسے نظر انداز کر دینا چاہتی ہے تو وہ دراصل خود کو ہی دھوکے میں رکھ رہی ہوتی ہے۔
ہندوستانی مسلمانوں کو کس کس طرح سے نشانہ بنایا جا رہا ہے اور برادران وطن کو ان کے خلاف کیسے کیسے بھڑکایا جا رہا ہے، اس کی تازہ ترین مثال آسام کے وزیراعلیٰ ہیمنت بسوا سرما کا یہ بیان ہے کہ سبزیوں کی گرانی کے ذمہ دار میاں(مسلمان)ہیں۔اگر آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کے چھوٹے بڑے کارکن نے یہ بات کہی ہوتی تو بھی وہ دفعہ153(الف) کے تحت جیل بھیجا جا سکتا تھا نہ کہ آئینی عہدہ پر فائز اور آئین ہند کے تحفظ کا حلف لینے والے ایک وزیراعلیٰ ایسی فرقہ وارانہ اور احمقانہ بات کر رہے ہیں۔ مسلمان اگر کسی عوامی جگہ پر دو رکعت نماز پڑھ لے تو جیل بھیج دیا جاتا ہے اور مہینہ بھر تک کانوڑ یاترا کے لیے سڑکیں خالی کرا دی جاتی ہیں، راستہ میں پڑنے والی گوشت کی دکانیں اورمسلم ہوٹل بند کرا دیے جاتے ہیں اور وزیراعلیٰ اور ان کی ہدایت پر افسران ان پر سرکاری پیسوں کے پھولوں کی بارش کرتے ہیں۔سرکاری زمینوں پر لاکھوں مندر بنے ہوئے ہیں اور روز بن بھی رہے ہیں جبکہ سو ڈیڑھ سو سال پرانی مسجدوں اور مزاروں کو زمین بوس کیا جا رہا ہے۔کھلے عام مسلمانوں کے خلاف تشدد پر اکسانے والوں کو نوازا جاتا ہے اور ذرا ذرا سی بات پر بنا کسی قانونی کارروائی کے مسلمانوں کے مکان ودکان بلڈوزر سے روندے جاتے ہیں۔کیا اس کھلی تفریق سے دنیا نا بلد ہے یا وزیراعظم اور ان کے معتمدین یہ سب نہیں جانتے اور دیکھتے ہیں۔
دہلی میں زبردست مسلم کش فساد ہوا۔ مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر، ممبر پارلیمنٹ پرویش ورما وغیرہ نے کھلے عام زہر اگلا، پولیس نے پوری بے شرمی سے جانب دارانہ رویہ اختیار کیا، مسلمان ہی مارے لوٹے گئے اور ان پر ہی الٹے مقدمات قائم ہوئے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جے این یو کے طلبا پر پولیس اور اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کے لڑکوں کی مشترکہ یلغار ہوئی، کوئی کچھ نہیں بولا، عمر خالد اور شرجیل امام جیسے قوم کے مایہ ناز بچے ابھی بھی جیل میں سڑ رہے ہیں۔ اجیت ڈوبھال چاہیں تو یہ بچے کل رہا ہو جائیں۔
انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر میں قوم کے درد میں حکام کے ساتھ ڈنر کے دوران بھلے ہی مہمان ذی وقار سے کچھ نہ کہا جاتا لیکن مودی حکومت کے سب سے طاقتور کارندے اجیت ڈوبھال سے تو کہا ہی جا سکتا تھا کہ حضور ہندوستانی مسلمانوں کے سلسلہ میں آپ جو بھی کہہ رہے ہیں اور ہندوستان کی کثرت میں وحدت کی خصوصیت کا چاہے جیسے بکھان کریں مگر ہمارے ناسور بن چکے زخموں کی تھوڑی مرہم پٹی بھی کر دیں، ہم آپ سے کچھ ایکسٹرا نہیں مانگ رہے، بس اس ملک میں قانون کی حکمرانی قائم کر دیں، ہمیں دوسرے درجہ کا شہری بنانے کا سلسلہ روک دیں، خدائی فوجدار بنا دیے گئے بجرنگ دل جیسی تنظیموں کے لمپٹ، خود سر، متشدد کارکنوں کو قانون کے دائرے میں لے آئیے، جھوٹے فرضی مقدموں میں پھنسا کر جیلوں میں سڑائے جارہے مسلم نوجوانوں اور سماجی کارکنوں کو رہا کر دیجیے، بلڈوزر انصاف ختم کیجیے، میڈیا کے ذریعہ مسلمانوں اور اسلام کو ولن کے طور پر پیش کر نے کا سلسلہ بند کرا دیجیے اور یہ سمجھ لیجیے کہ ایک نہیں ایک ہزار عالمی مسلم شخصیات سے توصیفی سند حاصل کر لیجیے، جب تک آپ یہ نہیں کریں گے، آپ کے لیڈر اور ملک کی وہ امیج نہیں سدھر سکتی جو ان حالات نے بنا دی ہے۔ چلئے اگر وہاں یہ سب کہنے کا موقع نہیں تھا تو اب انہی اکابرین ملت کا ایک وفد اجیت ڈوبھال سے مل کر ان مسائل کو حل کرائے، قوم آپ سب کی ممنون اور احسان مند ہوگی ۔
مودی جی، ان کے دست راست اجیت ڈوبھال جی، وزیر خارجہ جے شنکر اور تمام اراکین حکومت ایک بات اچھی طرح سمجھ لیں، آپ حقائق سے آنکھ چرا کر اور تلخ حقائق کو ملک کا اندرونی معاملہ بتا کر دنیا کی آنکھ میں نہ دھول جھونک سکتے ہیں اور نہ ہی دنیا کی زبان بند کر سکتے ہیں، ابھی صر ف مخالفت میں آوازیں اٹھ رہی ہیں کل اقدام کا بھی مرحلہ آسکتا ہے۔ گاندھی اور نہرو کے ہندوستان نے دنیا میں جو عزت اور نیک نامی کمائی تھی، وہ سب ملیا میٹ ہوتی جا رہی ہے۔ آپ لوگ انکار کے بجائے تھوڑا محاسبہ کرلیں اور غلطیوں کو سدھارنے کے ٹھوس اقدام کریں، ایسا نہ ہو کہ بہت دیر ہو جائے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS