میڈیا :جمہوریت کا لڑ کھڑاتا ستون

0

ہمارے ملک میں اس وقت ملک کے حکمران اور ملک کی جانبدار میـڈیا ملک کی عدلیہ کا کام کرنے لگے ہیں کیونکہ وقت سے پہلے ہی حکومتیں کوئی بھی ملزم ہویا مجرم یہ ثابت بھی ہو نہیں پاتا کہ وہ انکی سزا کے فیصلے طئے کردیتی ہیں دوسری طرف وہ قومی میڈیا جو پل پل کی خبروں پر نظر جمائے رکھنے کا دعوی تو کرتی ہیں لیکن وہ بھی پچھلے کئی سالوں سے ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت کام کررہی ہیں جب کبھی ملک میں حساس مسلئوں کا مقدمہ عدالتوں میں چلا یا گیا ہویا چل رہا ہو تو یہ اس مقدمہ کا کلیدی رول ادا کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتی فیصلہ سے قبل ہی ایک ایسا ماحول بنادیا جاتا ہے کہ جو واضح طور پر نظر بھی آتا ہیکہ مسلم مخالف پالیسی کے تحت اپنی نوکری کررہے ہیں بحث و مباحثوں کو اتنا طول دیا جاتا ہیکہ جس سے اشاروں ہی اشاروں میں جانبدار میڈیا فیصلہ بھی سنادیتا ہے جسکو کئی بار عدالت اعظمی نے لتھاڑا بھی ہے حال ہی میں سابقہ چیف جسٹس رمنا نے بھی میڈیا کو غیر ضروری بحث سے گریز کرنے کیلئے کہا اور یہ بھی کہا کہ میڈیا کے غیر ضروری مذاکروں سے عدلیہ کو فیصلے لینے میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے لیکن یہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آرہے ہیں ایک طرف حکومتیں عدلیہ کا کام کرتے ہوئے تانا شاہی کے فیصلے کررہی ہیں تو دوسری طرف جانبدار میڈیا جو بحث عدلیہ میں کی جانی چاہیئے اس بحث کو دن رات اپنے ہی مذاکروں میں چلا کر فیصلہ کرنے پر تلا ہوتاہے یوں مانا جائے بھی تو غلط نہ ہوگا کہ میڈیا کے پلیٹ فارم سے سماج میں کسی بھی اہم مسلئہ کے فیصلہ کی پیشن گوئی کردی جاتی ہے جس سے عدلیہ کی توہین بھی ہوتی ہے اور جمہوری و دستوری اعتبار سے بھی یہ غیر شائستہ عمل ہے۔

حجاب کے مسلئہ کی سماعت پچھلے دس

دنوں سے سپرم کورٹ میں زیر بحث تھی اس بنچ کی سماعت جسٹس ہیمنت گپتا جسٹس سدھانشو دھولیا کررہے تھے مسلم فریق کے وکیل نے بحث کے دوران قرآن کے حوالے سے مسلم خواتین کیلئے حجاب لازمی قرار دیا اور کئی دلائل بھی پیش کیئے جس پر جسٹس نے قرآن کا علم نہ ہونے کی بات کہی مسلم فریق کے وکیل نے حوالے دیئے حجاب مخالف وکیل نے کہا کہ قرآن میں حجاب کا ذکر ہوجانے سے حجاب پہننا لازمی نہیں ہوجاتا اور یہ ایک مذہبی شناخت کو ظاہر کرتا ہے جو سیکولر ملک کیلئے لازمی نہیں ہے حجاب مخالف وکیل نے موقع کا استعمال کرتے ہوئے کہا کہ مسلم ممالک میں بھی حجاب پر پابندی کو لیکر احتجاج کیا جارہا ہے جس پر جسٹس نے سوال کیا کہ کونسے ملک میں وکیل نے جواب میں کہا کہ ایران جیسے مسلم ملک میں ان دنوں حجاب کو لیکر خواتین احتجاج کررہی ہیں اسی دوران زبردست جرح ہوتی رہی لیکن معاملہ کی طویل سماعت جاری رہی اور سپرم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا ہے اس بحث کے دوران جانبدار میڈیا نے اپنے دلالی اڈوں پر حجاب مخالف زبردست مہم چھیڑی ہے اب اس نام نہاد قومی میڈیا کو مسلم ملک ایران پسند آنے لگا ہے جو بار بار ایران میں ہورہے  خواتین کے احتجاج کو اپنی سرخیوں کی زینت بنارہا ہے اور ایک واقعہ کو توڑ مروڑ کر پیش کررہا ہے دراصل ایران کے تہران میں سیر وتفریح کی غرض سے آئی ہوئی ایک خاتون مہسا امینی کو صحیح ڈھنگ سےحجاب نہ پہنے پر اسے پولیس کی حراست مین درد ناک ازیتیں دی گئیں اور وہ اپنے زخموں سے تاب نہ لاکر فوت ہوگئیں یہاں یہ جاننا ضروری ہیکہ ایران ایک خالص مسلم ملک ہے جہاں اسلامی جمہوریہ حکومت کا نفاذ ہے اور جسطرح سے یہ واقعہ پیش آیا یقیناً وہ قابل مذمت ہے وہاں کی عوام ایک خاتون کی جان چلے جانے کے سبب احتجاج کے زریعہ اپنے غصہ کا اظہار کررہی ہے جو ایک انسانی فطری عمل ہے اور وہاں کی حکومت بھی اس واقعہ کا سخت نوٹس لے رہی ہے اور اس پورے معاملہ کی تفتیش بھی کروارہی ہے لیکن ایسا نہیں ہیکہ پورا کا پورا ایران حجاب مخالف ہوچکا ہویہ احتجاج سراپا اس ایمنی کی موت پر ہے لیکن بھارت کی مجرم میڈیا اسکو حجاب سے جوڑ کر عوام میں غلط فہمیاں پھیلا رہی ہےاس مجرم میڈیا کوکیا یاد نہیں ہیکہ جب مسکان خان نے اسی حجاب معاملہ میں بھگوا شدت پسندوں کا مقابلہ اللہ اکبر کا نعرہ لگاکر کیا تھا جب اسی ایران کی عوام حجاب کے ساتھ کھڑی تھی اور مسکان کی شجاعت کو سراہابھی گیا یہی مجرم میڈیا کے سامنے جب افغانستان کے کسی اسلامی قانون کی بات کہی جاتی تو یہ کہتے ہیں کہ بھارت افغانستان تھوڑی ہے تو اب یہی میـڈیا سے کیا یہ سوال نہیں پوچھا جانا چاہیئے کہ کیا بھارت ایران تھوڑی ہے؟کیا بھارت کو ایران  کے اصولوں پر چلایا جاسکتا ہے ؟اگرچہ ایران میں زانی کو پھانسی کی سزا دی جاتی ہے تو کیا بھارت میں بھی دی جائے گی؟جواب ہے بالکل نہیں تو پھر آج یہ جانبدار میڈیا ایران کی دوہائی کیوں دے رہاہے؟ جبکہ ہمارے ملک اور ایران میں طرز حکمرانی میں بہت امتیاز ہے یہاں کی بنیاد سیکولرزم پر منحصر ہے اسی لیئے اس ملک میں ہر کوئی اپنی پسند نا پسند کا استعمال کرسکتا ہے اور دستور اس بات کی اجازت بھی دیتا ہے اور نہ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ ہر کوئی حجاب پہنے آج بھی کئی مسلم خواتین بھارت میں حجاب کا استعمال نہیں کرتی ہے جنھیں کوئی زبردستی بھی نہیں کرتا کہ وہ حجاب پہنیں لیکن جو استعمال کرنا چاہتا ہے پھر اسکو کیوں روکا جارہا ہے؟اور سوال حجاب پہننے یا نا پہننے کا نہیں بلکہ دستوری مذہبی آزادی کو سلب کیا جارہا ہے اور دستوری آزادی کو سلب کرنا بھی ایک جرم ہے۔

کب تک آخر یہ جانبدار میڈیا مسلم مخالف مہم چلائے گی اندرون ملک کی حالت تو یہ بتانے سے قاصر ہے اور بیرونی ممالک پر نظر رکھتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف جھوٹے پروپگنڈے چلارہی ہے لکھیم پور میں دو دلت بہنوں کا بہیمانہ قتل کرکے درخت سے لٹکا دیا جاتا ہے لیکن میڈیا اس اتنے بڑے واقعہ کو صرف سرسری طور پر چلا کر رفع دفع کردیتی ہے بلقیس بانو کے مجرمین کو برہمنی سسنکاری بتایا جاتا ہے پھول مالا پہنایا جاتا ہے یہی نہیں منہ میٹھا بھی کرتے ہوئے پرتپاک استقبال کیا جاتا ہے جنھیں دوبارہ گرفتار کرنے کیلئے ملک بھر میں احتجاج کیئے گئے لیکن یہ میڈیا زانیوں کا ساتھ دے رہا ہے اور یہی مجرم میڈیا صرف ایک دو دن اس واقعہ کو سرخیوں میں  دوڑاتا ہے اور اس معاملہ کو بھی اپنی جانبداری میں سمودیتا ہے گیان واپی مسلئہ پر سماعت کا جیسے ہی عدالت نے اعلان کیا یہی مجرم میڈیا ایسے خوشی سے امڈ پڑا کہ جیسے کوئی انکی دلی آرزو پوری ہوگئی ہو لیکن دو دلت بہنوں کے قتل کی واردات میں کسی جانبدار میڈیا کی اتنی ہمت نہیں ہوسکی کہ وہ یوگی حکومت کے لااینڈ آرڈر پر سوال کھڑا کرسکے کر بھی کیسے سکتے کیونکہ ٹی آر پی ان ہی سے تو ملتی ہے ابھی بدھ کے روز عدالت اعظمی کے جسٹس کے ایم جوزف نے نفرت آمیز عرضیوں کی سماعت کے دوران کہا کہ میڈیا اور سوشیل میڈیا پر سب سے ذیادہ نفرت آمیز بیان بازی ہورہی ہے لیکن مرکزی حکومت خاموش کیوں ہے؟انھوں نے ریگولیٹر میکانزم کو ترتیب دینے پر زور دیا اور مرکز سے دو ہفتوں میں جواب بھی طلب کیا یہاں یہ بتانا بے محل نہ ہوگا کہ ریگولیٹری میکانزم سے میڈیا کے اینکر کی غلطی پر اسے سزا سے بھی بھگتنا پڑے گا لیکن جسٹس جوزف نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایسا نظام نہیں ہے جسکی وجہ سے میڈیا کے سہارے سیاستدان فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔

حجاب کا معاملہ ہو یا گیان واپی کا معاملہ جو عدالتوں میں زیر التواء ہونے کے باوجود میڈیا اس پر غیر ضروری مباحثوں کو کیوں پیش کررہا ہے اس سے ملک کو تین بڑے نقصانات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ایک تو یہ کہ میڈیا مباحثوں کے دوران شرکاء سے غیر ضروری سوالات کرتے ہوئے ہر مسلئہ کو ہندو مسلم کی آنکھ سے دکھا رہا ہے جس سے سماج میں نفرت کو بڑھا وا مل رہا ہےاور یہی مذاکرے سوشیل میڈیا کا حصہ بنکر پر تعیش گفت و شنید کا حصہ بن رہے ہیں دوسرا میڈیا حد سے تجاوز کرتے ہوئے جمہوریت کو ہر روز داغدار بنارہا ہے جو دستوری حدود کے حاشیوں کو پار کررہا ہے جو اپنی آزادی کا تانا شاہ کی طرح استعمال کررہا ہے جس سے نقصان ملک کا ہورہا ہے تیسرا میڈیا ملک کے مسائل کو کوڑے دان میں ڈال چکا ہے اور حکومت کے خلاف اور نہ حکومت کی ناکام حکمرانی کے خلاف کچھ بھی کہنے سے ڈرتا ہے جس سے عوامی مسائل کے انبار لگ رہے ہیں بجائے اسکے میڈیا بڑے بڑے واقعات کو معمولی سرخیوں میں لاکر ہوا میں اڑا دیتا ہے اور صرف مسلم مخالف بیان بازی کرتے ہوئے ملک کی اکثریت کے زہنوں کو زہر آلود کررہا ہے جس سے نقصان ملک کے قومی اتحاد کو پہنچ رہا ہے اب یہ لازمی ہوچکا ہیکہ عدلیہ اپنے معیار اور دبدبہ کے زریعہ جمہوریت اور دستور کو قائم رکھنے کیلئے حکومتوں اور میڈیا پراپناقانونی شکنجہ کسنا چاہیئے کیونکہ یہی جمہوریت کا تحفظ  ہے اور یہی دستور کی بقاء کیلئے انتہائی ضروری ہے ورنہ اگر عدلیہ بھی خاموشی کا مظاہرہ کرے گی اور انھیں اپنی گرفت میں نہیں پکڑ ے گی تو وہ دن دور نہیں کہ یہ ملک کی عدلیہ کو بھی کٹہرے میں کھڑا کردیا جائے گا۔

  • سید سرفراز احمد

 

DISCLAIMER: Views expressed in the above published articles/Views/Opinion/Story/News/Contents are the author's own, and not necessarily reflect the views of Roznama Rashtriya Sahara, its team and Editors. The Roznama Rashtriya Sahara team and Editors cannot be held responsible for errors or any consequences arising from the use of
information contained.

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS