مرکزی کابینہ میں توسیع و تبدیلی کے معنی..!

0

عباس دھالیوال

مرزا غالب کا ایک مشہور شعر ہے کہ :
بے خودی بے سبب نہیں غالب
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
دراصل یہ شعر میرے ذہن میں گزشتہ دنوں اس وقت آیا جس روز وزیرِ اعظم نریندر مودی نے اپنی کابینہ میں نہ صرف بڑی سطح پر توسیع کی بلکہ اور اس کے ساتھ ہی بڑے پیمانے پر وزارت میں تبدیلی کرتے ہوئے صحت، آئی ٹی اور تیل کی وزارتوں کے لیے نئے وزیر بھی مقرر کردئے۔ ماہرین کی مانیں تو گزشتہ دو سال کی لمبی چْپی کے بعد جس طرح سے مرکزی حکومت کی وزارتوں میں اتنے بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ اس کو دیکھتے ہوئے تو غالب کے مذکورہ شعر کا ذہن میں گردش کر جانا ایک قدرتی بات ہے۔یہاں قابل ذکر ہے کہ کابینہ میں تبدیلیوں سے قبل بدھ کو 12 وزیروں نے استعفیٰ دئے تھے یا لیے گئے تھے..! اس کے بعد ہی 43 نئے وزرا نے حلف اٹھایا۔ اب ان نئے وزرا کی شمولیت کے بعد کابینہ میں وزیروں کی کل تعداد 78 ہوگئی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق مرکزی کابینہ میں اب 12 وزرا بی جے پی کے ہیں ویسے خصوصی طور پر ملک کی باگ ڈور انھیں کے ہاتھوں میں کہی جا سکتی ہے اس کے علاوہ دیگر طبقات کو خوش رکھنے کے لیے 11 خواتین، 12 دلت 8پسماندہ طبقات سے متعلقہ، جبکہ 27 او بی سی وزرا موجودہ کابینہ میں شامل ہیں۔
ویسٹ بنگال کے 4وزرا بھی اپنی وفاداری کے چلتے کابینہ میں جگہ پانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی آنے والے سال میں اترپردیش اور گجرات میں ہونے والے چناؤ کو مد نظر رکھتے ہوئے یہاں کے لوگوں کو بھی وزارت میں جگہ دی گئی ہے لیکن وہیں اگر دیکھا جائے تو اس ضمن میں پنجاب میں بی جے پی کا کوئی وزیر نہیں لیا گیا ہے۔
تجزیہ نگاروں کی مانیں تو کابینہ میں جو تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں ان کے پس پردہ جہاں ایک بڑی وجہ کورونا وبا میں مودی حکومت کی کارکردگی کا تنقید کا نشانہ بننے کا شاخسانہ ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ دوسری وجہ آنے والے سال میں پنجاب و اتر پردیش کے ساتھ ساتھ کئی دوسری ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونا بھی ہوسکتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ مذکورہ وزارتوں میں تبدیلیوں کے باوجود وزیر خزانہ، دفاع، داخلہ اور خارجہ امور کی وزارتوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔ وہیں کابینہ موجودہ ڈاکٹر ہرش وردھن کی جگہ 49 سالہ من سکھ لکشمن مانڈویہ کو وزیرِ صحت بنایا گیا ہے اور ان کے نائب وزیر بھی عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ جبکہ ادھر ’رائٹرز‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق وزیرِ صحت ہرش وردھن اور ان کے نائب کو دیش میں کورونا کی دوسری لہر کے دوران حکومت پر ہونے والی تنقید کی سیاسی قیمت چکانا پڑی ہے۔ جیسے کہ ہم سبھی جانتے ہیں کہ اس سال مئی میں کورونا وبا کی دوسری لہر کے دوران ملک کے دارالحکومت نئی دہلی جیسے بڑے شہروں کے اسپتالوں میں بھی بستروں اور آکسیجن کی قلت کے سبب حکومت کی اہلیت پر کڑے سوالات کھڑے کیے گئے تھے۔ اس کے علاوہ حکومت کو ملک میں ویکسی نیشن کے عمل میں سست رفتاری اور کورونا سے بچاؤ کی ویکسین کی قلت کے باعث بہت زیادہ تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ کابینہ میں مذکورہ تبدیلی کے ضمن میں ایک نیوز رپورٹ میں جین یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر سندیپ شاستری کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ کابینہ میں تبدیلیاں کورونا وبا کی دوسری لہر میں حکومت کی امیج کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کرنے کی کوشش ہے۔بقول ان کے ایسے وزیروں کو رخصت کیا گیا ہے جو سیاسی ہوشیاری کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہے۔

اب دیکھنا یہ ہوگا کہ اس وقت ملک کی گر رہی معیشت، بڑھ رہی بیروزگاری اور کمر توڑ مہنگائی پہ قابو پانے کے لئے سرکار کو کابینہ کی وسعت اور تبدیلی کے علاوہ یقینا ان چیلنجز پہ قابو پانے کے لئے کچھ ٹھوس اقدامات اور زمینی سطح پر کارآمد اور کارگر ثابت ہونے والی پالیسیوں کے بنانے کی بھی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ گزشتہ الیکشن کے دوران موجودہ سرکار نے جو نعرہ دیا تھا کہ ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس، اور سب کا وشواس‘ اس نعرے پر حقیقی معنوں میں عمل درآمد کی اشد ضرورت ہے۔۔

دوسری طرف کچھ تجزیہ نگاروں کا یہ بھی ماننا ہے کہ بھارتی معیشت کے حجم میں گزشتہ برس 7فی صد کمی واقع ہوئی ہے، جس کے نتیجے میں مبینہ طور پر لاکھوں روزگار ختم ہوئے اور بالخصوص غریب اور متوسط طبقات میں مایوسی بڑھی ہے۔ وبا کی دوسری لہر نے رواں برس معیشت کی بہتری کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ سیاسی مبصرین کے ان خیالات کو بھی قطعاً نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے کہ آئندہ برس ہندوستان کی 7ریاستوں میں انتخابات ہونے والے ہیں جن کو دھیان میں رکھتے ہوئے ہی کابینہ میں مذکورہ وسعت اور تبدیلیاں کی گئی ہیں۔اس کے علاوہ ماہرین کا یہ بھی کہنا بہت حد تک درست لگتا ہے کہ اس سال جس طرح سے مغربی بنگال کے انتخابات میں وزیر اعظم مودی و ان کے وزرا کی بھرپور کوششوں کے باوجود بھی بی جے پی کو مقامی سیاسی جماعت ترنمول کانگریس سے مات کھانا پڑی ہے۔اس کا اثر آئندہ ریاستی انتخابات بالخصوص اْتر پردیش (یوپی) میں بی جے پی کی کامیابی کے امکانات پر کئی طرح کے شبہات و سوالات کھڑے کر دیے تھے۔ اس وجہ سے بھی کابینہ میں مذکورہ اضافہ و تبدیلیاں کی گئی ہیں۔اگر نئے وزرا سے ہم روشناس ہونا چاہیں تو نئے وزیر صحت من سکھ لکشمن مانڈویہ کی بات کریں تو ان کا تعلق ریاست گجرات سے ہے اور وزارت صحت کا قلمدان سنبھالنے سے قبل وہ کیمیکل اور فرٹیلائزرز کے جونیئر وزیر تھے۔ وہ صحت کے ساتھ کیمیکلز اور فرٹیلائزرز کی وزارت کی ذمہ داریاں بھی سنبھالیں گے۔ وہیں حکومت جب ٹوئٹر، گوگل اور فیس بک جیسی بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر نئے قوانین کے نفاذ کی کوشش کررہی ہے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وزیر اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے نمایاں رہنما روی شنکر پرساد کی جگہ سابق بیوروکریٹ اشون ویشنو کو یہ ذمہ داری دینے کا جو عزم کیا گیا ہے وہ سرکار کے لیے کس قدر فائدہ مند ثابت ہوگا یقینا اس کا پتہ تو آنے والے وقت میں ہی چل سکے گا۔
ویسے روی شنکر پرساد بھی سوشل میڈیا سے متعلق مودی حکومت کی پالیسیوں کا پْر زور دفاع کرتے تھے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق روی شنکر پرساد کا استعفیٰ کئی حلقوں کے لیے حیرانی کا باعث بنا ہوا ہے۔ جبکہ ‘ٹائمز آف انڈیا‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق روی شنکر ٹوئٹر کے ساتھ پیدا ہونے والے تنازع کو درست انداز میں سنبھال نہیں سکے جس کی وجہ سے انہیں وزارت سے ہاتھ دھونا پڑا ہے۔ جبکہ وزارتِ ہوابازی کے لیے جیوترادتیہ سندھیا کا انتخاب کیا گیا ہے جو حال ہی میں حزبِ اختلاف کی جماعت کانگریس چھوڑ کر حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی میں شامل ہوئے تھے۔ انھیں دیش کی خسارے میں چلنے والی سرکاری ایئرلائن ’ایئرانڈیا‘ اور کورونا سے متاثرہ ہوابازی کی صنعت سے متعلق چیلنجز کا سامنا کرنا ہوگا۔
دوسری طرف ہردیپ سنگھ پوری کو تیل کی وزارت دی گئی ہے اس سے قبل ان کے پاس سول ایوی ایشن کا قلمدان تھا۔ یہ تبدیلی بھی ایسے وقت میں کی گئی ہے جبکہ بڑھتی تیل کی عالمی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے حکومت کے لیے عوامی سطح غم و غصہ کی لہر میں لگاتار تیزی آ رہی ہے۔ کل ملا کر اب دیکھنا یہ ہوگا کہ اس وقت ملک کی گر رہی معیشت، بڑھ رہی بیروزگاری اور کمر توڑ مہنگائی پہ قابو پانے کے لئے سرکار کو کابینہ کی وسعت اور تبدیلی کے علاوہ یقینا ان چیلنجز پہ قابو پانے کے لئے کچھ ٹھوس اقدامات اور زمینی سطح پر کارآمد اور کارگر ثابت ہونے والی پالیسیوں کے بنانے کی بھی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ گزشتہ الیکشن کے دوران موجودہ سرکار نے جو نعرہ دیا تھا کہ ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس، اور سب کا وشواس‘ اس نعرے پر حقیقی معنوں میں عمل درآمد کی اشد ضرورت ہے۔
اگر مذکورہ بالا باتوں پر اب بھی دھیان نہیں دیا گیا تو بہت دیر ہو جائے گی اور بعد میں ہم بقول کسی شاعر کے یہی کہنے کے لیے مجبور ہوں گے کہ :
نشیمن جل چکا اب سوچتے ہیں اس کی بنیادیں
یہاں رکھتے تو اچھا تھا وہاں رکھتے تو اچھا تھا..
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS