شاید کہ ترے دل میں اتر جائے مری بات

0

پروفیسر اخترالواسع

آرایس ایس کے سربراہ شری موہن بھاگوت نے ناگپور سے نکلنے والے ایک اخبار ’’لوک مت‘‘ کی گولڈن جبلی تقریبات میں خطاب کرتے ہوئے وہ کہا جس کو سننے کے لیے پورا ملک نہ جانے کب سے منتظر تھا۔ انہوں نے کہا کہ دھرم سنسدوں میں نفرت انگیزی کو ہندوؤں کے الفاظ نہیں مانا جا سکتا۔ خوشی کی بات ہے کہ مسلمانوں کی اکثر جماعتوں اور ان سے جڑے ہوئے اکثر اہم افراد نے شری بھاگوت کے اس بیان کا خیرمقدم کیا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ شری بھاگوت نے اسی تقریب میں یہ بھی کہا کہ انہیں ہندوستانی آئین میں ہندوتو نظر آتا ہے اور ہندوتو ہندوستانی کلچر اور رسم و رواج کی پانچ ہزار سال کی روایت سے ماخذ ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمہ جہت اور ہمہ گیر سچائی وہی ہے جسے ہم ہندوتوکہتے ہیں۔ یہ ہماری قومی شناخت ہے۔ ہم شری بھاگوت کے دھرم سنسدوں کے بارے میں دیے گئے بیان کا خیرمقدم کرتے ہیں لیکن ان کے بیان کے دوسرے حصے کے بارے میں یہ ضرور جاننا اورسمجھنا چاہتے ہیں کہ اگر ہندوستانی آئین میں ہندوتو پہلے ہی سے ہے تو پھر اس دستور کے خلاف جو مہم چلائی جا رہی ہے اور جس میں سنگھ سے جڑے ہوئے لوگ ہی آگے آگے ہیں تو ان کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی جاتی؟ مثال کے طور پر ہری دوار کی دھرم سنسد میں بی جے پی کے ترجمان رہ چکے شری اشونی اپادھیائے ایڈووکیٹ نے پھر دستور ہند کا ایک متبادل ڈرافٹ کیوں کر پیش کیا؟ ہمیں خوشی ہے کہ شری موہن بھاگوت نے یہ بھی مانا کہ سیکولرزم ہمارے ملک میں برسوں سے موجود ہے اور تنوع میں اتحاد کا نظریہ قدیم زمانے سے ہندوستانی کلچر کا ایک موروثی حصہ رہا ہے اور ہندوستانی کلچر کی شناخت ہے۔ اسی بات کو جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہندوستان کی پہچان اور طاقت اس کی یک رنگی میں نہیں رنگا رنگی میں ہے اور کثرت میں وحدت اس کی امتیازی شناخت ہے تو پھر کاہے کو لوگ ہمارے پیچھے پڑ جاتے ہیں؟ ہم بھی ہمیشہ سے یہ مانتے اور کہتے آئے ہیں کہ ہمارا سیکولرزم مغرب سے مستعار نہیں ہے بلکہ ہندو آستھا ’’ سرو دھرم سمبھاؤ‘‘ اور مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق قرآنی فرمان ’’ لکم دینکم ولی دین ‘‘ سے عبارت ہے۔ اگر شری موہن بھاگوت سیکولرزم کو ہندوستانی سماج کا زمانۂ قدیم سے حصہ مانتے ہیں تو آج پھر اس کی اتنی مخالفت کیوں ہو رہی ہے؟ ہم ہمیشہ یہ کہتے آئے ہیں کہ ہندو مذہب میں سناتن دھرم پرمپرا شمولیت پسند ہے۔ وہ آستک ہو یا ناستک، سب کو اپنے ساتھ رکھنے اور چلنے کے لیے آمادہ رہتی ہے اور اس بات پر سناتن پرمپرا کے ماننے والے جتنا بھی فخر کریں کم ہے کہ اسلام اور عیسائیت کے تقریباً ایک ہزار سال کے اقتدار کے باوجود اگر ہندوستان میں آبادی کی مذہبی شکل نہیں بدل سکی اور ہندوستان ہندو مذہب کے ماننے والوں کی غالب ترین اکثریت کا گہوارہ ہی رہا اور اس کے لیے اگر کسی کو کریڈٹ دیا جا سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف سناتن پرمپرا کو۔ جس کی لچک اور شمولیت پسند کی پالیسی نے کبھی ہندوؤں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل ہونے نہیں دیا۔ آج جو لوگ ہندوستان کی مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف زہر اگل رہے ہیں وہ نہیں جانتے کہ وہ ہندوستان اور ہندو مذہب دونوں کو نقصان پہنچانے کے در پے ہیں۔
اب کوئی مانے یا نہ مانے، ایک ہزار سال کی ہندوستانی تاریخ کو آپ کہیں نہیں لے جا سکتے، وہ دریابرد نہیں کی جاسکتی۔ شہروں، اسٹیشنوں، سڑکوں کے نام تبدیل کرنے سے تاریخ نہیں بدل جائے گی۔
اگر آر ایس ایس والے واقعی تنوع میںیقین رکھتے ہیں تو پھر کرناٹک میں کیا ہو رہا ہے؟ ایک ایسے ملک میں جہاں سر کو ڈھکنا اور گھونگھٹ لگانا بلا تفریق مذہب ہماری قدیم زمانے سے چلی آ رہی تہذیبی روایت کا حصہ ہے تو پھر اگر مسلمان بچیاں اپنے اسکول اور کالجوں میں آتے وقت حجاب کا استعمال کرتی ہیں تو ان کی اس لاج لجّاکی قدر کی جانی چاہیے نہ کہ اسے نفرت کا نشانہ بنانا چاہیے۔ وہ لوگ جو مسلمانوں پر یہ الزام ہمیشہ لگاتے آئے ہیں کہ وہ اپنی بچیوں کو تعلیم کے لیے گھر سے نہیں نکالتے ہیں، انہیں تو اس طرح کی کوئی پابندی نہیں لگانی چاہیے جو بے حجابی کی شرط کو لازم و ملزوم قرار دیتی ہو۔ سوال یہ ہے کہ کون کیا کھائے، کیا پیئے، کیسے رہے، کیا پہنے اور کیا اوڑھے اس کا فیصلہ صرف اور صرف ہر شخص کا چاہے وہ مرد ہو یا عورت، اس کا اپنا ہونا چاہیے۔ دوسرا کوئی اس کا فیصلہ کرنے والا کون ہوتا ہے؟ اور یہ دستور کے ذریعے عطا کی گئی فرد کی آزادی کے بھی سراسر خلاف ہے۔
اسی طرح وصل خواہی اور صلح کل جو کسی سماج میں پُرامن استحکام اور باہمی خیرسگالی کے لیے ناگزیر ہے، یہ بھی ضروری ہے کہ ہر شخص کو اس کے مذہبی عقیدے کے مطابق عبادت کی آزادی ہو لیکن بلاشبہ اس طرح کہ کسی کو کوئی پریشانی لاحق نہ ہو اور وہ صوتی آلودگی کا ذریعہ بھی نہ بنے لیکن جو کچھ گڑگاؤں میں جمعہ کی نماز(سرکار کے ذریعے اجازت شدہ مقامات پر) ادا کرنے کے خلاف بعض لوگوں کی انتہائی تکلیف دہ اور تشدد آمیز مہم نیز کرناٹک ہی میں ایک اسکول کی ہیڈ مسٹرس کو اسکول کے احاطے میں اپنے مسلمان طالب علموں کو نماز ادا کرنے کی اجازت دینے پر جس طرح سب وشتم کا نشانہ بنایا گیا اور معطل کردیا گیا، اسی طرح بعض مقامات پر یہ کہا گیا کہ مسجدوں میں اگر لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر پابندی نہ لگی تو پھر اس کے خلاف احتجاج میں باہر سے لاؤڈ اسپیکر بجائے جائیں گے۔ ایک ایسے وقت میں جب شہروں اور قصبوں کے حدود میں آبادی کا بے انتہا اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے تو لوگوں کو خدائے بزرگ و برتر کی طرف بلانے کے لیے اگر معقول سطح پر لاؤڈ اسپیکر سے اذان دی جائے تو اس سے کسی کا کیا بگڑتا ہے؟ مسجدوں کی اذانیں، مندروں کی گھنٹیاں اور بھجن اس ملک کے مذہبی حسن کو دوبالا ہی کرتے ہیں۔ اپنی اس معاشرتی جمالیات کے خلاف صف آراء ہونا کہاں کی دانشمندی ہے؟ یہ کوئی بھی بتانے کو تیار نہیں۔ آج ملک کے مختلف علاقوں میں جو کچھ ہرزہ سرائی، نفرت انگیزی اور تشدد آمیز رویے دیکھنے کو مل رہے ہیں ان کا حل آر ایس ایس جیسی نظریہ ساز ہندو جماعت اور اس سے ذہنی و فکری غذا حاصل کرنے والی مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے پاس ہی ہے۔ اس لیے کہ اس وقت سوال صرف مسلمان کا نہیں بلکہ ہندوستان کا ہے۔ کچھ لوگ مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں اور انہیں مٹا دینے کے در پے ہیں(جو کسی طرح بھی ممکن نہیں) جب کہ مسلمان اس ملک سے محبت کرتے ہیں اور اسے بچانے کے لیے فکرمند ہیں۔ انہیں خوب معلوم ہے، ملک بچے گا تو ہم بھی بچیں گے لیکن اُن نادانوں کا کیا کیا جائے جو جس شاخ پر بیٹھے ہیں، مسلم دشمنی میں اسی کو کاٹنے کے درپے ہیں؟
شری موہن بھاگوت نے جو کچھ دھرم سنسدوں میں استعمال کی گئی زبان کے بارے میں کہا، ہم اس کا شروع ہی میں خیرمقدم کر چکے ہیں لیکن خالی ایک بیان دینے سے بات نہیں بنے گی جب تک کہ سرکاری طور پر ایسے لوگوں کی زہریلی زبان اور شرپسند لہجے پر لگام نہیں کسی جائے گی۔ جب تک بھارت ماتا کی عزت و ناموس کے نام پر سیاست کرنے والے لوگ ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی نہیں کریں گے۔وہ لوگ جو ایک مخصوص فرقے کی نسل کشی کی بات کرتے ہیں، نفرت کا کاروبار کرتے ہیں، زہریلے خیالات کی کاشت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ بنیادی طور پر صرف مسلمانوں کے ہی نہیں دراصل ملک کی سلامتی، آشتی، معاشی ترقی اور سماجی ہم آہنگی کے دشمن ہیں۔ وہ شاید نہیں جانتے کہ اپنے اس جارحانہ، متشدد اور زہریلے رویے سے ہندوستان کو وشوگرو نہیں بننے دیں گے۔ دنیا میں جو کہ اب ایک عالمی گاؤں بن چکی ہے، جہاں نقل و حمل اور ترسیل و ابلاغ کی تیز رفتاری نے سب کو ہر وقت ضرورت سے زیادہ باخبر بنا دیا ہے، وہ اس طرح اپنے قول و عمل سے ملک کے لیے بدنامی کا سامان کر رہے ہیں۔
ہماری نظر میں اس صورتحال سے نمٹنے کا حل یہی ہے کہ ہم آر ایس ایس کے سربراہ شری موہن بھاگوت کے ان خیالات کے اظہار کے بعد ان سے یہی گزارش کریں کہ وہ ہندوستان کے تمام مذاہب کی نمائندہ جماعتوں کے سربراہوں اور ان کے سربرآوردہ لوگ جن کی ان کی کمیونٹیز میں ایک معتبر اور معتمد حیثیت ہے، ان کو لے کر بیٹھیں اور ایک نئے مکالمے کا آغاز کریںتاکہ غلط فہمیوں کا ازالہ ہوسکے۔ سیاسی تبدیلیاںہر الیکشن کے بعد آتی اور جاتی رہیں گی لیکن اصل فکر ملک کی ہونی چاہیے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم سب مستعد ہوکر، متحد ہوکر، ایمانداری سے اپنے اپنے راونوں اور یزیدوں سے لڑنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ کیا واقعی ہم سب مل جل کر ایسا کریں گے؟ اسی پر منحصر ہے ہندوستان کا مستقبل بھی اور اس کی عزت و عظمت بھی۔
(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS
Previous article’تھوک‘ اور ’پھونک‘ میں فرق ہے!
Next articleرہائی منچ کی مہموں کے سوال اور الیکشن
Akhtarul Wasey (born September 1, 1951) is the president of Maulana Azad University, Jodhpur, India, and a former professor of Islamic Studies. He taught at Jamia Millia Islamia (Central University) in New Delhi, where he remains professor emeritus in the Department of Islamic Studies. Early life and education: Wasey was born on September 1, 1951, in Aligarh, Uttar Pradesh to Hairat bin Wahid and Shahida Hairat. He is the oldest of six children. Wasey attended Primary School No. 16, the City High School of Aligarh Muslim University, and Aligarh Muslim University where he earned a Bachelor of Arts (Hons.) in Islamic studies in 1971, a Bachelor of Theology in 1975, a Master of Theology in 1976, and an Master of Arts in Islamic studies in 1977. He also completed a short-term course in the Turkish language from Istanbul University in 1983. Career: On August 1, 1980 he joined Jamia Millia Islamia, Delhi as lecturer and worked there till 31 August 2016.Wasey was a lecturer, reader and professor at Jamia Milia Islamia University in New Delhi from 1980-2016, serving as the director of Zakir Husain Institute of Islamic Studies and later becoming head of the Department of Islamic Studies and Dean of the Faculty of Humanities and Languages. He is currently the president of Maulana Azad University in Jodhpur and remains a Professor Emeritus in the Department of Islamic Studies at Jamia Millia Islamia. In March 2014, Wasey was appointed by Indian President Shri Pranab Mukherjee to a three-year term as Commissioner for Linguistic Minorities in India, and became the first Urdu-speaking commissioner since 1957. Wasey is the editor of four Islamic journals: Islam Aur Asr-e-Jadeed; Islam and the Modern Age; Risala Jamia; and Islam Aur Adhunik Yug. Awards and honors: 1985 Award from Urdu Academy, Delhi and UP Urdu Academy on "Sir Syed Ki Taleemi Tehreek" 1996 Maulana Mohammad Ali Jauhar Award 2008 Fulbright Fellowship 2013 Padma Shri award from President Pranab Mukherjee of India 2014 Makhdoom Quli Medal from the President of Turkmenistan 2014 Daktur-e-Adab from Jamia Urdu, Aligarh