گورکھپور // رپورٹ عبید الرحمن الحسینی
دارالعلوم دیوبند کے مایہ ناز استاذ ، عربی رسالہ الداعی کے ایڈیٹر حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی کے انتقال پر ملال پر آل انڈیا ملی کونسل مشرقی اترپردیش کے صدر مولانا طارق شفیق ندوی نے اپنے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم طبعاً باذوق اور باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے، ان کا درس علم و آگہی سے لبریز ہوتا تھا، ان کا قلم سیال اور ان کے اندرون کے حسن و جمال کا مظہر تھا، ان کی تحریریں ادب عالیہ سے عبارت ہیں ، ان کی قابلیت ، صلاحیت اور خدمات کو زمانہ نے تسلیم کیا ہے اور اس عبقری ادیب سے محرومی پر عرب وعجم کی علمی و ادبی دنیا سوگوار ہے۔
مولانا طارق شفیق ندوی نے کہا کہ مولانا نور عالم خلیل امینی دسمبر / ١٩٥٢ میں مظفر پور کے شیخ صدیقی خاندان میں پیدا ہوئے ، ١٩٧٠ میں مدرسہ امینیہ دہلی سے فارغ التحصیل ہوئے اور حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے ، جوہر شناس نے جون ١٩٧٢ میں ندوہ کا استاذ مقرر کیا اور پھر کم و بیش آٹھ سال تدریسی فرائض انجام دینے کے بعد ١٩٧٩ میں نور اپنی نورانیت کے ساتھ ندوہ سے رخصت ہو گئے۔
مولانا نور عالم ندوی رحمہ اللہ ندوہ کے قابل فخر اور ممتاز اساتذہ میں تھے ( خلیل الامینی کا اضافہ ندوہ سے جانے کے بعد کا ہے ) وہ سلیمانیہ ہاسٹل بالائی منزل کمرہ نمبر ١٦ میں رہتے تھے ، ندوہ میں ادب و انشاء کے باکمال استاذ تھے ، اصطلاحات و تعبیرات کا استعمال کرنے میں مہارت رکھتے تھے ، الفاظ پر گرفت تھی ، لفظوں کی حقیقی معنویت کو سمجھانے کا بہترین طریقہ اور ہنر جانتے تھے ، جاڑے کا موسم تھا ، تحت الثریٰ کے معنی سمجھانے کے لئے اپنے مفلر کو کئی مرتبہ تہہ کیا اور پھر بتایا کہ اس نچلے حصہ کو تحت الثریٰ کہتے ہیں۔
مولانا مرحوم نے اپنے محسن استاذ حضرت مولانا ڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی ندوی مدظلہ العالی سے باقاعدہ انشاء پڑھی اور بلا خوف تردید یہ بات کہتا ہوں کہ ان کی بلند ، معیاری اور شگفتہ انشاءپردازی اور مؤثر اسلوب میں ڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی ندوی مدظلہ العالی کی خصوصی توجہ اور سرپرستی کا خاص دخل ہے۔ مولانا مرحوم نے اپنے محسن مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی نور اللہ مرقدہ کی صحبت اور جامعیت سے بھی خوب خوب استفادہ کیا اسی کے ساتھ ہی عربی کے نامور ادیب و انشاء پرداز مولانا محمد الحسنی علیہ الرحمہ سے قریب ہوکر اپنے نوک پلک میں حسن اور دھار پیدا کیا۔
مولانا اپنی علمی صلاحیت ، جولانی طبیعت ، خوش پوشاکی و خوش گفتاری کی وجہ سے طلباء اور اساتذہ میں حد درجہ مقبول و محبوب تھے ، مولانا ہر وقت معطر رہتے تھے ان کی آنکھوں میں ایک خاص قسم کی چمک تھی ، چہرہ پر نور تھا ، اس پر غضب کی مسکراہٹ ، اللہ اللہ مردانہ حسن کے شاہکار تھے۔