خواجہ عبدالمنتقم
میرے عزیز ہندوستانیو!
میں آج تم سے بہت دور سے مخاطب ہوں۔ میں افق کے اِس پار ہوں اور تم اُس پاراور میری گلی سڑی ہڈیاں اُس دہلی کی جامع مسجد کے قریب منوں مٹی کے نیچے دفن ہیں، جواس شہر جہاں کے عہد رفتہ کی ایک معتبر نشانی ہے، جس کا ذرہ ذرہ عظمت ہند اور ہمارے اسلاف کی یادگاروں کا امین ہے۔
تمہیں میری یاد بہت کم آتی ہوگی مگر میں جب بھی تمہارے مضمحل چہروں کو اورتمہاری کشاکش کو دیکھتا ہوں تو مایوس ہو جاتا ہوں۔ میں ہندوستان میں رہنے والے سبھی لوگوں کو ہمیشہ شیرو شکر اور ایک دوسرے سے گلے ملتے دیکھنا چاہتا ہوں، خواہ ان کا کوئی بھی مذہب ہو، کوئی بھی لباس یا کوئی بھی کھان پان۔ میں مذہبی معاملات میں بھی رواداری کا خواہاں ہوں۔ تم سب اپنے مذہب پر اپنے اپنے طریقے سے چلو، ایک دوسرے کے مذہب کا احترام کرو،کوئی چھینٹا کشی نہ کرو۔ اپنا مذہب اور اکابرین سب کو پیارے ہوتے ہیں۔مجھے بھی اپنا مذہب اور اکابرین پیارے ہیں۔ میں نے اب سے تقریباًنودہائی قبل اپنے ایک خطاب میں کہا تھا:
’’میں مسلمان ہوں اور اس بات سے بخوبی واقف ہوں کہ مجھے گزشتہ چودہ سو سال کی شاندارروایات ورثے میں ملی ہیں مگر میں اس کے ایک چھوٹے سے حصے سے بھی دستبردار نہیں ہوسکتا۔ اسلام کی تاریخ، اس کی تعلیم، علوم وفنون، ثقافت اور تہذیب میرے لیے ایک قیمتی سرمایہ ہے اور میرا یہ فرض ہے کہ میں نہ صرف اس کی حفاظت کروں بلکہ اسے عزیز جانوں۔۔۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ مجھے اس بات کا بھی شدید احساس ہے اورفخر بھی کہ میں ہندوستانی ہوں اور میرے احساس کو میری زندگی کے تجربات سے برابر تقویت حاصل ہوتی رہی ہے اور اپنے مذہب کے تئیں جو میرا جذبہ ہے وہ اس میں کبھی مانع نہیں ہوا اور میں ایک ہندوستانی ہونے کے ناطے ہندوستانی قومیت کے غیر منقسم اتحاد کا ایک اہم حصہ ہوں اور جن بنیادوں پر ہندوستانی قومیت کی یہ شاندار عمارت کھڑی ہوئی ہے، ان بنیادوںکا شماراس عمارت کی شان وشوکت برقرار رکھنے کے لیے لازمی عوامل میں ہوتا ہے۔ ‘‘
میرا جسم اب روح کی شکل اختیار کرچکا ہے مگرمیں آج بھی اپنے قول بالا پر قائم ہوں ۔ میں نے ہمیشہ ہندو مسلم اتحاد کی وکالت کی ہے اور ہمیشہ اس کا حامی و حمایتی رہا ہوں۔آج مجھے نہ جانے کیوں شاہجہاں آباد (دہلی) کے اس قدیم باشندے کی یاد آرہی ہے جس کی دہلی والوں نے کبھی کماحقہ قدر نہیں کی اور وہ اپنے تعلیمی مشن کو عملی جامہ پہنانے کے لیے دربدر بھٹکتا پھرا۔ میرے اور میرے بہت سے ساتھیوں کے سر سید سے سیاسی اختلافات رہے لیکن اگر کوئی اچھی بات کہتا ہے تو اس کی کم ازکم اس بات کے حوالے سے تعریف کی جانی چاہیے۔ آج ہمیں ان کی ہندو مسلم اتحاد کے بارے میں تقاریر کے کچھ حصے یاد آرہے ہیں جن کی معنویت تاہنوز برقرار ہے اور ان کے یہ اقوال کسی بھی فرقہ وارانہ صورت حال میں مرہم رکھنے کا کام کر سکتے ہیں۔
اقتباس از تقریر سرسید احمد خاں، مقام پٹنہ، سال 1883
اے عزیزو!
’’جس طرح ہندوؤں کی شریف قومیں اس ملک میں آئیں اسی طرح ہم بھی اس ملک میں آئے۔۔۔ پس اب ہم دونوں ایک ہی ہوا میں سانس لیتے ہیں۔۔۔ مقدس گنگا جمنا کا پانی پیتے ہیں۔۔۔ ایک ہی زمین کی پیداوار کھاتے واستعمال کرتے ہیں۔ مرنے جینے میںدونوں کا ساتھ ہے۔۔۔ یہاں تک کہ ہم دونوں آپس میں ملے کہ ہم دونوں نے مل کر ایک نئی زبان اردو پیدا کرلی جو نہ ہماری زبان تھی نہ ان کی۔۔۔ ہم دونوں کے اتفاق اور باہمی ہمدردی اور آپس کی محبت سے ملک کی اور ہم دونوں کی ترقی وبہبودگی ممکن ہے اور آپس کے نفاق، ضد،عداوت اورایک دوسرے کی بدخواہی سے ہم دونوں برباد ہونے والے ہیں۔۔۔جو لوگ اس نکتے کو نہیں سمجھتے اور دونوں فرقوں کے درمیان تفرقہ ڈالنے میں مصروف ہیں وہ خود اپنے پاؤں پرکلہاڑی ماررہے ہیں۔
اے میرے دوستو!
’’میں نے بارہا کہا ہے اور پھر کہتا ہوںکہ ہندوستان ایک دلہن کی مانند ہے جس کی خوبصورت اور رسیلی دوآنکھیں ہندو ومسلمان ہیں۔ اگر وہ دونوں آپس میں نفاق رکھیںگے تو ہماری دلہن بھینگی ہوجاوے (ہوجائے)گی اور اگر ایک دوسرے کو برباد کردیںگے تو وہ یک چشم ہو جاوے گی۔ پس اے ہندوستان کے رہنے والے ہندو اور مسلمانو! اب تم کو اختیار ہے کہ چاہے اس دلہن کو بھینگا بناؤ چاہے کانا۔‘‘
میں نے رام گڑھ کے اجلاس میں بہ بانگ دہل کہا تھا:
’’اگر ہم پوری دنیا کوبھی اپنا ملک تصور کرلیں اور اس تصور کوپوری پوری اہمیت دیں تو بھی میرے نزدیک ہندوستان کی مٹی کو ہی اولیت حاصل رہے گی اور اگر سب انسانوں کو بھائی بھائی کہنے کی بات آئے گی تو بھی میرے نزدیک ہندوستانیوں کو حیثیت سربفلک حاصل ہوگی۔‘‘
میں نے رام گڑھ میں متحد ہندوستان اور غیرمنقسم قوم کی بات کرتے ہوئے اور مسلمانوں کی بڑی تعداد کا حوالہ دیتے ہوئے سوالیہ انداز میں یہ بھی کہا تھا کہ کیا انسانوں کے اتنے بڑے ہجوم (ہندوستانی مسلمان) کے دل میں ایسا خدشہ پیدا ہونے کی کوئی معقول وجہ ہوسکتی ہے کہ آزاد اور جمہوری ہندوستان میں وہ اپنے حقوق اور مفادات کی حفاظت نہ کرسکیں یا بالفاظ دیگر انہیں اس طرح کا تحفظ نہ فراہم کیا جائے۔
گاندھی جی نے بھی اقلیتوں کے بارے میں کتنی اچھی اور قابل قدر بات کہی تھی:
’’کسی ملک کے مہذب ہونے کے دعوے کی صداقت اس بات پر منحصر ہے کہ وہ اپنی اقلیتوں کے ساتھ کیسا رویہ اختیار کرتا ہے۔‘‘
ہمیں اس وقت سردار پٹیل کی آزادی کے بعد لکھنؤ میں کی جانے والی وہ تقریر بھی یاد آرہی ہے جس میں انہوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب ہندوستا ن آزاد ہے اور ہم سب ایک ساتھ جئیں گے اور ایک ساتھ مریں گے۔
اب میری سنو جو گوش حقیقت نیوش ہے
ہے رنگ لالہ و گل و نسریںجدا جدا
ہر رنگ میں بہار کا اثبات چاہیے
پھولوں کے رنگ جدا ہونے کے باوجود بھی ان کی رنگت اور ان کی حیثیت اس طرح برقرار رہتی ہے جس طرح مختلف رنگوں یا صورتوں کے لوگوں کی۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان سب کا اس طرح خوش رہنا ضروری ہے جس طرح موسم بہار میں ہرپھول میں بہار کا ثبوت ملتا ہے۔ اسی طرح ہمارا ملک بھی ایک گلدستے کی مانند ہے اور اس گلدستے کا مکمل طور پر سرسبز رہنا ضروری ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ؎
غیر لیں محفل میں بوسے جام کے
ہم رہے یوں تشنہ لب پیغام کے
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ سبھی مذاہب کے ماننے والے قریب سے قریب تر آئیں،ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کریں اور ہماری ہندو مسلم اتحاد کی دیرینہ خواہش دلخواہ کو پورا کرنے کی کوشش کریں۔
ہمارا یہ پیغام کسی خاص فرقے کے لیے نہیں ہے۔ ہم سب سے محبت کے قائل ہیں اور تکثیریت میں یقین رکھتے ہیں۔کاش ہم زندہ ہوتے اور فریقین کو اپنے سامنے بیٹھا کر سمجھاتے۔
خوش باش!
(مضمون نگار آزاد صحافی، مصنف، سابق بیورکریٹ اور عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تاحیات رکن ہیں)
[email protected]