امام علی مقصود فلاحی۔
متعلم: جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن۔
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد۔
امام غزالی کے تذکرہ میں شیخ مراغی نے لکھا ہے کہ جب مختلف علماء کا ذکر کیا جاتا ہے تو ذہن ان کی خصوصیات کی طرف منتقل ہوجاتا ہے جو ان میں بدرجہ اتم پائی جاتی تھیں، مثلاً جب ابن سینا اور فارابی کا نام آتا ہے تو انکی فلسفیانہ اور حکیمانہ حیثیت نکھر کر ذہن میں چھا جاتی ہے، اسی طرح جب امام بخاری ، مسلم احمد بن حنبل کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ حفظ صدق کے اونچے جیالوں کا تذکرہ کیا جارہا ہے،جو معرفت رجال میں ملکہ راسخہ رکھتے تھے۔
لیکن غزالی کا معاملہ اس سے جدا ہے کیونکہ جب انکا نام لیا جاتا ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ کسی ایک ہی آدمی کا تذکرہ نہیں کیا جارہا ہے، بلکہ کئی اشخاص زیر بحث ہیں، جن میں سے ہر ایک علم و فضل کا حامل ہے۔
ٹھیک یہی بات مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم و مغفور پر صادق آتی ہے۔
کیونکہ جب زبان پر انکا نام آتا ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ کسی ایک ہی شخص کا تذکرہ نہیں کیا جارہا ہے بلکہ کئی اشخاص زیر بحث ہیں اور ان میں سے ہر شخص علوم و فنون کا شہنشاہ ہے۔
کیونکہ مولانا ابوالکلام آزاد وہ شخص تھے جنہیں اللہ نے علم و فضل کی بے شمار دولتوں سے نوازا تھا، وہ دین کے معتبر عالم بھی تھے اور مختلف علوم دینیہ مثلاً تفسیر و حدیث و فقہ میں ایک وسیع نظر رکھتے تھے۔
مولانا اپنی فطری افتاد، اپنے فکر و تصور، اپنے رجحانات و میلانات کے لحاظ سے اس قدر غیر معمولی انسان تھے کہ بیک وقت نہ ہم انکے جملہ صفات کا محاسبہ کرسکتے ہیں نہ ہی انکے دماغ کو مختلف حصوں میں منقسم کر کے انکے ادبی، علمی ، مذہبی و صحافتی خصوصیات کے درمیان کوئی حد فاصل قائم کر سکتے ہیں۔ کیونکہ جہاں وہ ایک عالم دین تھے وہیں ایک مفکر و مدبر بھی تھے، جہاں وہ ایک مذہبی میدان کے شہسوار تھے تو وہیں وہ سیاسی میدان میں بھی چھاے ہوے تھے۔ جہاں وہ ایک وہ ایک ولولہ انگیز مقرر تھے،وہیں وہ ایک چلتے پھرتے صحافی بھی تھے۔
معزز قارئین!
لائڈ جارج سے کسی نے ایک بار پوچھا تھا کہ “صحافی بننے کے لئے ایک انسان کو کیا کیا جاننا چاہئیے؟”
تو انہوں نے جواب دیا کہ
“سب کچھ اور کچھ نہیں”، یعنی صحافی در اصل وہ ہے جو دنیا کی تمام باتوں کو جانے، لیکن ماہر کسی کا نہ ہو۔
لیکن مولانا آزاد کی یہ عجیب و غریب خصوصیت تھی کہ وہ بہت کچھ جانتے تھے وہ بھی ماہرانہ حیثیت سے۔
انکے اندر ایسی خصوصیات موجود تھی جنکی نظیر دنیائے صحافت میں مشکل ہی سے مل سکتی ہے۔
قارئین! ہمارے سامنے اگر مختلف رنگ کے پھول علحیدہ علحیدہ رکھ دیے جائیں تو ہم انکے رنگ و بو پر الگ الگ خیال ظاہر کریں گے، لیکن اگر ان سب کا گلدستہ بناکر ہمارے سامنے لایا جائے تو ہم بلا تفریق رنگ بو کے ایک گلدستے ہی کی حیثیت سے دیکھیں گے۔
بالکل یہی حالت مولانا ابوالکلام آزاد ذہنی اکتسابات کے تعدد و تنوع کا تھا کہ ہم ان کو ایک دوسرے سے علیحدہ کر ہی نہیں سکتے، خواہ وہ شعر و ادب کے تعلق سے ہو یا مذہب و حکمت سے وابستہ ہو۔ خواہ وہ صحافت کے تعلق سے ہو یا سیاست کے تعلق سے۔
مولانا ابوالکلام آزاد نے جس وقت الہلال اخبار جاری کیا اس وقت ہندوستان بڑے نازک دور سے گزر رہا تھا، اور روے زمین کی دوسری قوموں میں بھی انتشار پیدا ہو چکا تھا، ملوکیت بھی دم توڑ رہی تھی، ڈیمو کریسی کی مدعی حکومتوں کے چہرے بے نقاب ہورہے تھے، قومی آزادی اور خودداری کا احساس پنپنے لگا تھا، برطانوی حکومت کا سورج بھی گہن ہو چکا تھا،اور ہندوستان میں کانگریس آزادی کا بیج بھی بو چکی تھی، اس وقت ہندوستان میں دو اور قابل ذکر اخبار جاری تھے، ایک زمیندار، دوسرا مسلم گزٹ ۔
زمیندار کی توجہ تمام تر ترکی پر مرکوز تھی، اور اسکا مقصد شہدائے بلقان کے پسماندگان کے لئے چندہ جمع کرنا تھا، اور مسلم گزٹ اخبار کا مقصد صرف ملت پرستی تھا۔ سیاست کا نقطۂ نظر اس میں بہت کم ہوا کرتا تھا۔
ایسے حالات میں مولانا ابوالکلام آزاد نے الہلال اخبار کو جاری کیا، اور اس شان کے ساتھ جاری کیا کہ صحافت کا تمام اگلا پچھلا تصور لوگوں کے ذہن سے محو ہوگیا، اور لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ یہ آواز ہمارے ہی دنیا کے کسی انسان کی ہے، یہ تحریر ہمارے ہی ابناے جنس میں سے کسی ایک فرد کی ہے۔
ڈاکٹر طہ حسین اپنی مشہور کتاب “الفتنتہ الکبری” میں رقم طراز ہیں کہ جب میں مولانا آزاد کے صحافت پر غور کرتا ہوں تو مجھے تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ مولانا کی صحافت مغربی انداز کی صحافت سے بالکل مختلف تھی کیونکہ اسمیں شان خطابت بالکل نہیں ہوا کرتی تھی، مسلم گزٹ کے لب و لہجہ میں بےشک ایک قطعیت تھی، لیکن اسکا خطاب صرف عوام ہی ہوا کرتے تھے اور عوام ہی کے زبان میں ہوتا تھا۔
اس لئے مولانا آزاد کی صحافت کے متعلق ڈاکٹر طہ حسین کی زبان میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مولانا کی صحافت خود انکی اپنی صحافت تھی ، جسے انہوں نے خود ایجاد کیا اور جو انہیں کے ساتھ ختم ہو گئی۔
مولانا اپناے ملک اور بالخصوص مسلمانوں تک جن جن راہوں سے پہنچنا چاہتے تھے ان میں سب رے روشن راہ مذہب اسلام تھا۔
چنانچہ آپ الہلال کا فائل اٹھا کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ذہنی اور اخلاقی اصلاح کا کوئی پہلو ایسا نہیں ملے گا جس میں انہوں نے قرآنی دلائل پیش نہ کیے ہوں۔
بہر کیف معلوم یہ چلا کہ مولانا ابوالکلام آزاد کی صحافتی عظمت بے مثال و لا جواب ہے۔
الہلال کے بعد جب مولانا نے البلاغ جاری کیا تو اسکا نصب العین بھی وہی تھا جو الہلال کا تھا، لیکن طریقہ ابلاغ کچھ مختلف تھا۔
الہلال نفسیات عملی کا درس دیتا تھا جبکہ البلاغ نفسیات ذہنی کا درس دیتا تھا۔
الہلال حرکت و عمل، جوش و ولولہ کا پیغام دیتا تھا جبکہ البلاغ فکر و بصیرت اور روحانی عزم کا پیغام دیتا تھا۔
الہلال کا پیغام تھا:
شیر شو، شیرانہ در صحراے شیرا پائے نہ۔
اور البلاغ کا پیغام:
جلوہ بر خود کن و خود رابہ لگاہے در یاب۔ تھا۔
اس طرح ہم مولانا کے زمانہ صحافت کو تین ادوار میں تقسیم کر سکتے ہیں، ایک وہ دور جو لسان الصدیق، سے تعلق رکھتا ہے، دوسرا الہلال اور تیسرا دور البلاغ کا ہے۔
دور اول خالص ادبی و علمی تھا، دوسرا دور سیاسی اور تیسرا دور مذہبی و اصلاحی تھا۔ اور ان تینوں دور میں انہوں نے جو کچھ لکھا وہ انکی انفرادیت کا ایک زبردست مظاہرہ تھا۔
مولانا کے دینی و علمی مقالات کا فاضلانہ لب و لہجہ، سیاسی مضامین کا مجاہدانہ وقائدانہ انداز، مذہبی افکار کا حکیمانہ اسلوب، ہم کو نیا ولولہ حیات اور نیا جوش زندگی بخشا تھا۔
لیکن اب
پیری میں ولولے وہ کہاں ہیں شباب کے
اک دھوپ تھی کہ ساتھ گئی آفتاب کے۔