جامع مسجد کی فصیل سے مولانا ابوالکلام آزاد کا تاریخی خطاب

0

میرے عزیز و! آپ جانتے ہیں کہ وہ کونسی چیز ہے، جو مجھے یہاں لے آئی ہے۔ میرے لیے شاہ جہاں کی اس یادگار مسجد میں یہ اجتماع کوئی نئی بات نہیں ہے۔ میں نے اس زمانہ میں جس پر لیل ونہار کی بہت سی گردشیں بیت چکی ہیں،تمہیں یہیں سے خطاب کیا تھا۔ جب تمہارے چہروں پر اضمحلال کی بجائے اطمینان تھا اورتمہارے دلوں میں شک کی بجائے اعتماد ۔ آج تمہارے چہروں کا اضطراب اور دلو ں کی ویرانی دیکھتا ہوں تو مجھے بے اختیار پچھلے چند برسوں کی بھولی بسری کہانیاں یادآجاتی ہیں۔ تمہیں یاد ہے، میں نے تمہیں پکارا، تم نے میری زبان کاٹ لی، میں نے قلم اٹھا یا اور تم نے میرے ہا تھ قلم کردیے۔ میں نے چلنا چاہا تم نے میرے پائوں کاٹ دیے۔ میں نے کروٹ لینی چاہی ، تم نے میری کمر توڑ دی۔ حتیٰ کہ پچھلے سات برس کی تلخ نو ا سیاست جو تمہیں آج داغ جدائی دے گئی ہے، اس کے عہد شباب میں بھی میں نے تمہیں خطرے کی شاہراہ پر جھنجھوڑا لیکن تم نے میری صدا سے نہ صرف احتراز کیا، بلکہ غفلت و انکار کی ساری سنتیں تازہ کردیں۔ نتیجہ معلوم کہ آج ان ہی خطروں نے تمہیں گھیر لیا ہے، جن کااندیشہ تمہیں صراط مستقیم سے دور لے گیا تھا۔
سچ پوچھو تو میں ایک جمود ہوں یا ایک دور افتادہ صدا، جس نے وطن میں رہ کر بھی غریب الوطنی کی زندگی گزاری ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو مقام میں نے پہلے دن اپنے لیے چن لیا تھا، وہاں میرے بال وپر کاٹ لیے گئے ہیں، یا میرے آشیا نے کے لیے جگہ نہیں رہی، بلکہ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میرے دامن کو تمہاری دست درازیوں سے گلہ ہے۔
’’ جو ہونے والا ہے اس کو کوئی قوم اپنی نحوست سے روک نہیں سکتی۔‘‘ ہندوستان کی تقدیر میں سیاسی انقلاب لکھا جاچکا ہے او راس کی غلامانہ زنجیریں بیسویں صدی کی ہوائے حریت سے کٹ کر گرنے والی ہیں۔ اگر تم نے وقت کے پہلو بہ پہلو قدم اٹھانے سے پہلو تہی کی اور تعطل کی موجودہ زندگی کو اپنا شعار بنائے رکھا تو مستقبل کا مورخ لکھے گا کہ تمہارے گروہ نے جو سات کروڑ انسانوں کا ایک غول تھا، ملک کی آزادی کے بارے میں وہ رویہ اختیار کیا جو ’ صفحہ‘ ہستی سے محو ہو جانے والی قوموں کا شیوہ ہوا کرتا ہے۔ آج ہندوستان کا جھنڈا اپنے پورے شکوہ سے لہرا رہا ہے۔ یہ وہی جھنڈا ہے جس کی اڑانوں سے حاکمانہ غرور کے دل آزار قہقہے تمسخر کیا کرتے تھے۔‘‘
میرے بھائی! میں نے ہمیشہ سیاست کو ذاتیات سے الگ رکھنے کی کوشش کی ہے، میں نے اس پرخار وادی میں قدم نہیں رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ میری بہت سی باتیں کنایوں کا پہلو لیے ہوتی ہیں۔ لیکن مجھے آج جو کہنا ہے، اسے بے روک ہو کر کہنا چاہتاہوں، متحد ہندوستان کا بٹوارہ بنیادی طور پر غلط تھا۔ مذہبی اختلاف کو جس ڈھب سے ہوا دی گئی اور اس کا لازمی نتیجہ یہی آثار ومظاہرتھے، جو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھے اور بدقسمتی سے بعض مقامات میں آج بھی دیکھ رہے ہیں۔
پچھلے سات برس کے روداد دہرانے سے کوئی فائدہ نہیں اور نہ اس سے کوئی اچھا نتیجہ نکل سکتاہے۔ البتہ ہندوستان کے مسلمانوں پر جو ریلا آیا ہے وہ یقینا مسلم لیگ کی غلط قیادت کی فاش غلطیوں کا ہی نتیجہ ہے لیکن میرے لیے اس میں کوئی نئی بات نہیں۔ میں پچھلے دنوں ہی سے ان نتائج پر نظر رکھتا تھا۔
اب ہندوستان کی سیاست کا رخ بدل چکا ہے۔ مسلم لیگ کے لیے یہاں کوئی جگہ نہیں ہے۔ اب یہ ہمارے اپنے دماغوں پر منحصر ہے کہ ہم کسی اچھے انداز فکر میں بھی سوچ سکتے ہیں یا نہیں۔ خوف و ہر اس کا موسم عارضی ہے۔ میں تم کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم کو ہمارے سوا کوئی زیر نہیں کرسکتا۔ میں نے ہمیشہ کہا اورآج پھر کہتا ہوں کہ تذبذب کا راستہ چھوڑ دو، شک سے ہاتھ اٹھالو، اور بدعملی کو ترک کردو یہ تین دھار کا انوکھا خنجر لوہے کی اس دو دھاری تلوارسے زیادہ کاری ہے، جس کے گھائو کی کہانیاں میں نے تمہارے نوجوانوں کی زبانی سنی ہیں۔
یہ دیکھو ، مسجد کے بلند مینار تم سے اچک کر سوال کرتے ہیں کہ تم نے اپنی تاریخ کے صفحات کو کہاں گم کر دیا ہے؟ ابھی کل کی بات ہے کہ جمنا کے کنارے تمہارے قافلوں نے وضو کیا تھا اور آج تم ہو کہ تمہیں یہاں رہتے ہوئے خوف محسوس ہوتا ہے۔ حالانکہ دہلی تمہارے خون سے سینچی ہوئی ہے۔
عزیزو! اپنے اندر ایک بنیادی تبدیلی پیدا کرو۔ جس طرح آج سے کچھ عرصے پہلے تمہارا جوش وخروش بے جا تھا ، اسی طرح آج تمہارا یہ خوف وہراس بھی بے جا ہے۔ مسلمان اور بزدلی، یا مسلمان او راشتعال ، ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے۔ سچے مسلمانوں کو نہ تو کوئی طمع ہلا سکتی ہے، او رنہ ہی کوئی خوف ڈراسکتاہے۔ چند انسانی چہروں کے غائب از نظر ہوجانے سے ڈرو نہیں۔ انہوںنے تمہیں جانے کے لیے اکٹھا کیا تھا۔ آج انہوںنے تمہارے ہاتھ سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ہے، تو یہ عیب کی بات نہیں۔ یہ دیکھو، تمہارے دل تو ان کے ساتھ ہی رخصت نہیں ہوگئے۔ اگر دل ابھی تک تمہارے پاس ہیں، تو اسے خدا کی جلوہ گاہ بنائو جس نے آج سے تیرہ سو برس پہلے عرب کے ایک امی کی معرفت فرمایا تھا ’’ جو خدا پرایمان لائے اور اس پر جم گئے تو پھر ان کے لیے نہ تو کسی طرح کا ڈر اور نہ کوئی غم۔‘‘ ہوائیں آتی ہیں اور گزرجاتی ہیں۔ یہ صر صر سہی، لیکن اس کی عمر کچھ زیادہ نہیں۔ ابھی دیکھتی آنکھوں سے ابتلا کا موسم گزرنے والا ہے۔ یوں بدل جائو جیسے تم پہلے کبھی اس حالت ہی میں نہ تھے۔
میں کلام میں تکرار کا عادی نہیں ہوں۔ لیکن مجھے تمہاری تغافل کیشی کے پیش نظر باربار یہ کہنا پڑتا ہے کہ تیسری طاقت اپنی گھمنڈ کا پشتائو اٹھا کر رخصت ہوچکی ہے۔ جو ہونا تھا، وہ ہو کررہا۔ سیاسی ذہنیت اپنا پچھلا سانچہ توڑ چکی ہے۔
میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ تم حاکمانہ اقتدار کے مدرسے سے وفاداری کا سرٹیفکیٹ حاصل کرو، اور کاسہ کیسی کی وہی زندگی اختیا ر کرو، جو غیر ملکی حاکموں کے عہد میں تمہارا شعار رہا ہے۔ ہندوستان میں ماضی کی یادگار کے طور پر نظرآرہے ہیں، وہ تمہارا ہی قافلہ تھا انہیں بھلائو نہیں، انہیں چھوڑ و نہیں۔ ان کے وارث بن کر رہو، اور سمجھ لو کہ اگر تم بھاگنے کے لیے تیارنہیں تو پھر تمہیں کوئی طاقت بھگا نہیں سکتی۔
آؤ ، عہد کرو کہ یہ ملک ہمارا ہے اور ہم اس کے لیے ہیں اور اس کی تقدیر کے بنیادی فیصلے ہماری آواز کے بغیر ادھورے ہی رہیں گے۔ آج زلزلوں سے ڈرتے ہو، کبھی تم خود ایک زلزلہ تھے۔ آج اندھیرے سے کانپتے ہو، کیا یادنہیں کہ تمہارا وجود ایک اجالا تھا۔یہ بادلوں نے میلا پانی برسایا ہے تم نے بھیگ جانے کے خدشے سے اپنے پائیجامے چڑھا لیے ہیں، وہ تمہارے ہی اسلاف تھے جو سمندروں میں اتر گئے ، پہاڑوں کی چھاتیوں کو روند ڈالا۔ بجلیاں آئیں، تو ان پر مسکرادیے، بادل گرجے تو قہقہوں سے جواب دیا، صر صر اٹھی ، تو اس کا رخ پھیر دیا، آندھیاں آئیں، تو ان سے کہا کہ تمہارا راستہ یہ نہیں ہے۔ یہ ایمان کی جان کنی ہے کہ شہنشاہوں کے گریبانوں سے کھیلنے والے، آج خود اپنے گریبانوں سے کھیلنے لگے، اور خدا سے اس درجہ غافل ہوگئے کہ جیسے اس پر کبھی ایمان ہی نہیں تھا۔
عزیزو! میرے پاس تمہارے لیے کوئی نیا نسخہ نہیں ہے۔ وہی پرانا نسخہ ہے، جو برسوں پہلے کا ہے۔ وہ نسخہ جس کا کائنات انسانی کا سب سے بڑا محسن لا یا تھا۔ وہ نسخہ ہے قرآن کا ، یہ اعلان کہ ’’ مفہوم: آج کی صحبت ختم ہوگئی مجھے جو کچھ کہنا تھا، وہ اختصار کے ساتھ کہہ چکاہوں پھر کہتا ہوں اور بار بار کہتاہوں : اپنے حواس پر قابو رکھو، اپنے گردوپیش اپنی زندگی خود فراہم کرو۔ یہ منڈی کی چیز نہیں کہ تمہیں خرید کرلادوں۔ یہ تو دل کی دکان ہی میں سے اعمال صالحہ کی نقدی سے دستیاب ہوسکتی ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS