مسجد مبارک بیگم، دہلی

0

سید عینین علی حق:  
دارالسلطنت دہلی ہمارے عہدزریں کی یاد دلاتا رہا ہے، لیکن المیہ اس بات کا ہے کہ ہمارے قائدین، علماء اور مذہبی مقامات کی بازیابی کا راگ الاپنے والی ملی، مذہبی، سماجی تنظیمیں اور وقف بورڈ  کے عہدے داران چرب زبانی کے سوا کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں۔
دہلی میں بے شمار مساجد، درگاہیں، امام بارگاہیں اور دیگر مذہبی مقامات تھے اور ہیں، جن کی تباہی و بربادی کا ذمہ دارصرف محکمہ آثار قدیمہ اور انتظامیہ کو ٹہرانا مناسب نہیں ہوگا، اس کے ذمہ دار عوام اور مساجد کے وہ ذمہ داران بھی ہیں، جو مسجد کے صدر،سیکریٹری اورخازن کا عہدہ حاصل کرنے کے لیے ساری محنت صرف کردیتے ہیں، لیکن مسجد کی خستہ حالی کی جانب توجہ نہیں دیتے۔
ان باتوں کا احساس انھیں ہمیشہ کرایا بھی جاتا رہا ہے، لیکن کسی کے سروں پر جوں تک نہیں رینگتی۔
آج صبح صبح موصول ہوئی خبر نے مجھے رنجیدہ کردیا۔ حوض قاضی تھانہ کے قریب واقع تاریخی "مسجد مبارک بیگم" کا درمیانی بڑا گنبد بارش کے سبب منہدم ہوگیا۔ گنبد کمزور ہوچکا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ بجلی کے ہائی ٹینشن وائر مسجد کے بڑے گنبد کے اوپر سے گزر رہے تھے اور گنبد کی خستہ حالی کا اہم سبب تھا، اس جانب انتظامیہ کو توجہ بھی دلائی گئی تھی، لیکن کوئی اقدامات نہیں کیےگئے اور آخر کار آج صبح 6بجکر45منٹ پر "مسجد مبارک بیگم" کا گنبد ڈھہ گیا۔
"مسجد مبارک بیگم" کے تاریخی پس منظر پر نظر ڈالی جائے تو "مسجد مبارک بیگم" 1822تا1823 عیسوی میں تعمیر ہوئی، یہ مسجد سرتاپا سنگ سرخ سے تعمیر کی گئی تھی، جس مناسبت سے  "لال مسجد"  نام رکھا گیا تھا، نہایت ہی خوبصورت مسجد تھی اور عہد مغلیہ کے فن تعمیر کی منفرد مثال، جس کے محرابوں، زینوں اور طاق پر دیدہ زیب تزئین کاری کی گئی تھی اور سنگ مرمر پر فارسی شعر بھی کتبہ ہے:
مبارک بیگم ایں مسجد بنا کرد
کہ باشد بر ترا از چرخِ مقوس
کم از بیت المقدس نیست شانش
بگو ایں ثانی بیت المقدس
یہ مسجد ایک طوائف مبارک بیگم کی تعمیر کردہ تھی، مبارک بیگم ایک انگریز ڈیوڈ آکٹرلونی کی داشتہ تھی، جس بنا پر اس مجسد کو "رنڈی کی مسجد" بھی کہا جاتا تھا۔ "مسجد مبارک بیگم" حوض قاضی تھانہ کے قریب لب سڑک واقع ہے، حوض قاضی میٹرو اسٹیشن کا داخلی راستہ جو چاؤڑی بازار سے لال کنواں ہمدرد کی جانب جاتا ہے۔
"مسجد مبارک بیگم" کا ذکر دیگر تاریخی اور قدیمی کتابوں میں بھی ہے، خصوصاً ("واقعات دارالحکومت دہلی، مصنفہ بشیر الدین احمد، حصہ دوم، ص نمبر 329) میں تفصیل کے ساتھ ذکر ملتا ہے۔
بیگم مبارک النسا کے حوالے سے اردو کے عظیم ادیب شمس الرحمن فاروقی نے اپنے ناول "کئی چاند تھے سر آسماں" میں بھی ذکر کیا ہے، جدیدیت کے امام فاروقی لکھتے ہیں:
"وزیر خانم کو یہ تو بہر حال معلوم تھا کہ صاحبان کے عقیدے میں ذات پات نہ سہی، لیکن مراتب اور خاندان کا لحاظ ان کے یہاں اہل ہند سے کم نہ تھا اور اہل ہند کا حال یہ تھا کہ ان کا اپنا صاحب چاہے جس کو بیاہ لاتا گھر میں ڈال لیتا، اس عورت کو تو ملکہ تخت و تال تسلیم کرنے میں کچھ عار نہ رکھتے، لیکن صاحبان فرنگ کی عورتوں کے معاملے میں وہ سخت متعصب تھے۔ جرنیل اختر لونی نے ایک مرہٹی خادمہ کو مسلمان کرکے اس سے شادی کی اور اسے اپنے وصیت نامے میں بی بی محترم مبارک النسا بیگم عرف بیگم اختر لونی" کے نام سے یاد کیا اور بہت مال و املاک بھی اس کے لئے چھوڑا، لیکن اہل ہند نے اس کی نوابی تو کیا، اس کے ایمان کی بھی کوئی عزت نہ کی۔ مبارک النسا بیگم کی حویلی، جس میں بقول مرزا فرحت اللہ بیگ، مولوی کریم الدین کا مطبع بعد میں قائم ہوا، اور مسجد حوض قاضی پر آج بھی موجود ہیں، لیکن مسجد غیر آباد ہے اور رنڈی کی مسجد کہلاتی ہے۔ ایسی صورت میں وزیر خانم کو اپنے وطن کے ہاتھوں بھلا کسی بہتر سلوک کی توقع کب ہوسکتی تھی"۔ 
(کئی چاند تھے سر آسماں، شمس الرحمن فاروقی، ص186) 
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس مسجد کے ٹوٹنے کا ذمہ دار کسے قرار دیا جائے، اگر یہ مسجد کسی ہندو مسلم فساد کے دوران شہید کی جاتی تو آج حشرات الارض کی مانند سبھی قائدین، لیڈران اور علماء سڑکوں پر اتر آتے اور اپنے ولولہ خیز بھاشنوں سے آسمان سروں پر اٹھا لیا ہوتا اور اس سانحہ کو آزاد ہندوستان کی تاریخ کا، جمہوریت کا اور ملک  کی قومی یکجہتی کے لیے بدنما داغ بتایا ہوتا، جیسا کہ اب تک ہوتا چلا آیا ہے، خواہ وہ بابری مسجد انہدام کا معاملہ ہو یا دہلی اور دوسری ریاستوں کی دیگر مساجد کا۔
بھائیوں بابری مسجد کی شہادت پر سیاست ختم کرکے اب یہ سوچیں کہ ملک میں سیکڑوں ایسی مساجد اور دیگر مذہبی مقامات ہیں، انہیں کیسے محفوظ کیا جائے، آپ لوگوں کی تھوڑی سی توجہ سے سیکڑوں خستہ حال اور قبضہ شدہ مساجد کی بازیابی کی جاسکتی ہے۔
دہلی وقف بورڈ کو چاہئے وہ آگے آئے اور  "مسجد مبارک بیگم" کی تعمیر کرائے، یوں تو وقف بورڈ نے اپنی سیاست کی بھٹی گرم کرنے کے لیے وقف بورڈ کے لاکھوں روپے لٹائے ہیں لیکن اس کے پاس خستہ حال مساجد اور عارضی ملازمین اور ائمہ کو تنخواہ دینے کے لیے فنڈ نہیں ہوتا۔

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS