عبدالماجد نظامی
ہندوتووادی ہندوؤںنے اپنے رام نومی تہوار کے جشن کو ملک بھرمیں جس ذہنیت کے ساتھ منایا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک دھرم کا تصور اپنی روح کی اصلاح اور ذاتی و سماجی زندگی کو کائنات کے مالک کی تعلیمات کے مطابق گزارنا بالکل نہیں ہے۔ انہوں نے اپنے مذہبی عقیدہ کو مکمل طور پر ایک انتہاپسند گروپ کی تشکیل کی غرض سے استعمال کیا ہے جس کا مقصد سوائے مسلم دشمنی کے کچھ اور نظر نہیں آتا۔ دھرم کے تصور میں اس حیرت انگیز بدلاؤ سے کیا ہندومت کی کوئی اچھی شبیہ دنیا بھر میں بنے گی یا یہ ملک ایک عالمی قوت بن کر ابھرے گا؟ اس کا امکان قطعاً نظر نہیں آتا۔ آج کی دنیا اپنی وسعت کے باوجود ایک مربوط دنیا ہے اور ایک حصہ کی خبر دنیا کے دوسرے حصہ تک سیکنڈوں میں پہنچ جاتی ہے۔ میڈیا میں ایک مقابلہ آرائی رہتی ہے کہ کون سب سے پہلے نیوز بریک کرے گا تاکہ ٹی آر پی کی فہرست میں اس کا نام اوپر رہے۔ ٹی آر پی کے لیے ایسی سرتوڑ کوشش اس لیے جاری رہتی ہے کہ اسی سے تشہیر کے لیے اشتہارات آتے ہیں جس سے آمدنی پیدا ہوتی ہے اور میڈیا ہاؤس کے مالکان کی پونجی میں بے تحاشہ اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ اب چونکہ ہندوستان دنیا کے دیگر ممالک کی طرح عالمی منڈی سے منسلک ہے اور بے شمار خارجی کمپنیاں ہندوستان کے بازار میں انوسٹمنٹ کرتی ہیں لہٰذا دنیا کا میڈیا بھی یہاں موجود ہے جو ہمارے ملک میں وقوع پذیر ہونے والے تمام اہم واقعات و حادثات کو دنیا کے مختلف گوشوں میں چشم زدن کے اندر پہنچا دیتا ہے جس سے ملک اور ملک کے باشندوں کے بارے میں ایک امیج تیار ہوتی ہے۔ یہ امیج کا معاملہ بہت اہم ہوتا ہے کیونکہ اسی سے انوسٹمنٹ کے مواقع ہاتھ آتے ہیں جس سے ملک کی ترقی کا دروازہ کھلتا ہے اور عوام کی زندگی خوشحال ہوتی ہے۔ نریندر مودی سے قبل ہندوستان کے جتنے بھی وزرائے اعظم ہوئے،انہوں نے اس امیج کی حفاظت میں بڑی دلچسپی دکھائی کیونکہ دنیا بھر میں اپنی ساکھ بنانے کے لیے ایسا کرنا بہت ضروری تھا۔ وہ ہندو تشدد پسند جن میں ایسے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہندو بھی شامل ہیں جو آج کل فاشزم کا دفاع کر رہے ہیں یا ہندو دہشت گردی کو جواز فراہم کر رہے ہیں، انہیں بھی اس بات کا اندازہ ہے کہ اگر لبرل ڈیموکریسی کے اصول کے مطابق ملک ہندوستان کو نہیں چلایا جاتا تو آج وہ اس لائق نہیں ہوپاتے کہ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی زندگی کو سنوارسکیں۔ اگر آزادی کے بعد اس ملک کو جواہر لعل نہرو جیسا دانشور وزیراعظم اور مولانا آزاد جیسا وزیر تعلیم میسر نہ آتا اور وسیع مشرب والے مجاہدین آزادی اس ملک کو مذہبی جنونیوں کے نظریہ سے بالکل الگ ایک ایسی جمہوریت میں تبدیل نہ کرتے جہاں تمام طبقوں کی یکساں ترقی کے لیے مواقع فراہم کیے جاتے ہوں اور مذہب و دھرم پر عمل کی آزادی کے باوجود ملک کو سیکولر نظریہ پر چلانے کا عزم نہ کیا ہوتا تو آج یہ ملک کئی چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہو چکا ہوتا اور اس کی وہ اہمیت ہرگز نہ ہوتی جو آج اسے حاصل ہے۔ دنیا کی دیگر قومیں بھی بڑی حیرت کے ساتھ ہندوستان کی جمہوریت کی کامیابی کو دیکھتی رہی ہیں۔ انہیں یقین نہیں ہوتا کہ لسانی، تہذیبی، فکری اور مذہبی تکثیریت والا ملک اس قدر کامیابی سے چلایا جا سکتا ہے۔ ہندوستان کی یہ تہذیبی اور مذہبی رنگا رنگی کبھی بھی اس کے لیے منفی ثابت نہیں ہوئی۔ خود یوروپ بھی ملٹی کلچرلزم یا کثیرالثقافتی کے میدان میں وہ کامیابی حاصل نہیں کر سکا جو برسوں نہیں بلکہ صدیوں سے ہندوستان کا امتیازی وصف بنا رہا۔ لیکن یہ سب کچھ تب تک کامیابی سے چلتا رہا جب تک ہندوستان کی سیاست میں ہندوتو کے نظریہ کو وہ قوت حاصل نہیں ہوئی تھی جو نریندر مودی کے انتخاب کے بعد اس کو حاصل ہوگئی۔ نریندر مودی کی شخصیت کی تشکیل میں آر ایس ایس کے نظریہ کو جو اہمیت حاصل ہے اس سے کوئی ناواقف نہیں ہے۔ آر ایس ایس کا نظریہ ہٹلر کے نازی ازم پر مبنی ہے۔ ہٹلر نے اپنے نظریہ کو مقبول بنانے اور پاور کے سرچشمہ پر قابض ہونے کے لیے یہودیوں کو اپنا دشمن قرار دیا تھا اور عداوت میں اس نظریہ کے حاملین اس قدر اندھے اور بے رحم ہوگئے تھے کہ انہوں نے ساٹھ لاکھ یہودیوں کو ذلت آمیز اور دردناک موت کے کنویں میں دھکیل دیا۔ لیکن کیا اس سے یہودیوں کا خاتمہ ہوگیا یا ان کی قوت کمزور پڑ گئی؟ یہودیوں نے اپنے اوپر ڈھائے گئے مظالم کو ہی ہتھیار بنایا اور زندگی کے تمام میدانوں میں انہوں نے ترقی کا خاکہ تیار کیا اور اس کو نافذ کرنے کے لیے ہر قسم کے اخلاقی اور غیراخلاقی اصولوں کو بروئے کار لاکر اپنی حیثیت اس قدر مضبوط کرلی کہ وہ خود ظالم بن کر فلسطینیوں کے ساتھ وہی کچھ روا رکھنے لگے جو کبھی ان پر نازی جرمنی نے روا رکھا تھا۔ یہ تاریخ اور بحث کا دوسرا موضوع ہے جس پر تبصرہ کرنا اس مضمون میں مقصود نہیں ہے۔ یہاں صرف اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ نازیوں کے ظلم نے یہودیوں کو کمزور نہیں بنایا البتہ ہٹلر کا نظریہ اپنی محدود کامیابی کے بعد دنیا کے نقشہ سے ہمیشہ کے لیے مٹ گیا۔ ہٹلر اپنے ہی بنائے جال میں پھنس گیا اور زندگی سے عاجز آکر خودکشی کرلی۔ اسی جرمنی میں جہاں دوسری جنگ عظیم سے قبل تک ہٹلر خوف کی علامت بنا ہوا تھا، وہاں آج حالت یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے بچہ کا نام تک ہٹلر نہیں رکھ سکتا۔ جرمنی اپنی اس تاریخ پر اس قدر شرمندہ ہے کہ اس نام تک سے اپنا کوئی رشتہ رکھنا باعث عار تصور کرتا ہے۔ دنیا کے تمام انسانیت سوز نظریوں کا حشر یہی ہوا ہے۔ آج بھی جن ممالک نے نفرت اور شرانگیزی کو اپنا مقصد بنالیا ہے، انہیں اس کی بڑی قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔ میانمار ہو یا سری لنکا، ہر جگہ سخت مایوسی کی حالت میں لوگ زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ عالمی برادری ان کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتی اور اقتصادی و سماجی بحران سے ان کا دم گھٹ رہا ہے۔ کیا ہندوستان کو بھی اسی راستے پر ڈالنے کی کوشش ہو رہی ہے؟ بظاہر تو ایسا ہی لگتا ہے کہ ہندو دھرم کے جنونی مسلم دشمنی میں اس درجہ کو پہنچ چکے ہیں جس پر کبھی نازیوں کا بے مہار جھنڈ پہنچ چکا تھا۔ جس منظم ڈھنگ سے ہندو جنونیوں اور بی جے پی کی سرکاروں نے مسلمانوں کے گھروں اور تجارت کو نشانہ بنایا ہے، اس سے ایک بات تو صاف ہوجاتی ہے کہ پولیس اور انتظامیہ بھی ان مجرموں کے جرم میں برابر کی شریک ہے۔ مدھیہ پردیش کے کھرگون شہر میں جس مجرمانہ ڈھنگ سے پولیس اور انتظامیہ نے کارروائی کی ہے، اس سے تو یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ قانون پر عمل درآمد اب ان کا مقصد نہیں رہا۔ دستور ہند کے اصول و ضوابط کے بجائے اس نظریہ کے ساتھ وفاداری کو انہوں نے اپنا شیوہ بنالیا ہے جو ملک کو ٹکڑوں میں بانٹنے اور باشندگان ملک کو باہم برسرپیکار رکھنے میں یقین رکھتا ہے۔ پولیس اور انتظامیہ نے اگر تھوڑی بھی وفاداری دستور کے ساتھ دکھائی ہوتی تو نہ کرولی، راجستھان میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتا اور نہ ہی کھرگون میں ان کے مکانات اور تجارت کو ختم کیا جاتا۔ اس بار رام نومی کے جشن کے بہانہ جس طرح سے گجرات، مدھیہ پردیس، راجستھان، مغربی بنگال، جھارکھنڈ اور بہار میں مسلمانوں کے گھروں اور مسجدوں کو نقصان پہنچایا گیا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں بی جے پی کی سرکار نہیں ہے وہاں بھی اسی شدت کے ساتھ نفرت انگیزی اور شرارت جاری رہی۔ اپوزیشن پارٹیاں بھی خاموش ہیں اور میڈیا پر بھی بس ہندوتو کا رنگ چڑھا ہوا ہے۔ ایسے میں ہندوستانی مسلمان مجبور ہوجائیں گے، وہ اپنا دفاع خود کریں گے اور اپنے تحفظ کے لیے اپنے دست و بازو پر بھروسہ کرلیںگے۔ مسلمانوں کو اس قدر دیوار سے لگانا کسی کے حق میں نہیں ہوگا۔ شاید اسی خطرہ کو بھانپتے ہوئے بی جے پی کے قدآور لیڈر اور کرناٹک کے سابق وزیراعلیٰ یدی یورپا نے مشورہ دیا ہے کہ مسلمان بھائیوں کو وقار کے ساتھ زندگی بسر کرنے دیں۔ میرا خیال ہے کہ یہی سب کے حق میں ہے۔ اگر مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ ظلم کا یہی سلسلہ جاری رہا تو ملک کو شدید خطرہ لاحق ہوجائے گا اور ہندوتو کا جو نظریہ اس کو پروان چڑھا رہا ہے، وہ خود بھی اپنی موت ہمیشہ کے لیے مر جائے گا۔ جو حشر نازی ازم کا تاریخ میں ہوچکا ہے وہی آئندہ بھی ہوگا۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]