’ بلڈوزر کا انصاف ‘

0

ایسا لگتا ہے کہ ہندوستان میں اب قانون کی حکمرانی کادور ختم ہوگیا ہے۔ سزااور جزا کے تمام اختیارات سیاسی ناخدائوں نے اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں۔ ان کے کنج لب سے پھوٹنے والے الفاظ ہی قانون ہیں اور گھروں کو زمین بوس کرکے موقع پر ہی انصاف فراہم کرنے کی نئی ریت آئین بن گئی ہے۔اب نہ تو ملک کو عدالتوں کی ضرورت ہے اور نہ جج ہی درکار ہیں۔اس لیے عدالتوں کو بند کرکے ججوں کو گھر بھیج دیاجانا چاہیے تاکہ ان پر خرچ ہونے والے قومی وسائل کو بچانے کے ساتھ ہی نزاع و فساد کے تمام معاملات حکومتیں اپنی مرضی سے طے کرسکیں۔ پسندیدہ لوگوں کو نوازیں اور ناپسندیدہ شہریوں کو کھولہو میں پلوادیں۔
یہ الفاظ کسی جلے دل کے پھپھولے نہیں بلکہ اظہار حقیقت ہیں۔ ہندوستان کی کئی ریاستو ںمیں یہ چلن اب عام ہے۔ ’ گڈ گورننس‘ کے نام پر حکومتیں کھلی قانون شکنی کررہی ہیں اور دادبھی سمیٹ رہی ہیں۔ اترپردیش سے شروع ہونے والی بلڈوزر کی سیاست مدھیہ پردیش میں پہنچ کرآئین اور قانون سے ماورا ہوگئی ہے اور سماعت و دلیل اور وکالت و پیروی کے ہر کھکھیڑ سے آزاد ہوکر موقع پر ہی انصاف فراہم کررہی ہے۔مدھیہ پردیش میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی شیو راج چوہان حکومت نے اپنی اسی ‘ گڈ گورننس‘ کا ثبوت دیتے ہوئے کھرگون میں فرقہ وارانہ کشیدگی کے بعد بلڈوزر سے ایسے بہت سے مکانات کو گرا دیا جن کا تعلق ملزمین سے تھا۔ یعنی موقع پر ہی فیصلہ کردیا، کسی عدالت، جج، مقدمہ، سماعت، پیشی، شہادت، اقبال جرم کی ضرورت نہیں پڑی اور ’ انصاف‘ کا علم بھی بلند ہوگیا۔اپنی اس کھلی قانون شکنی کیلئے شیوراج چوہان حکومت درجنوں دلیل تراش سکتی ہے، سیکڑوں وضاحتیں اور جواز پیش کرسکتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اپنے اس اقدام سے اس نے آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کاتصور تار تار کردیا ہے۔
رام نومی کے جلوس کے دوران مدھیہ پردیش کے کھرگون میں جو کچھ ہوا وہ ملک کی دوسری ریاستوں میں بھی ہوا، شرپسندوں نے ’ مریاداپرشوتم رام‘ کے نام پر نکالے گئے اس جلوس کو مسلمانوں کے خلاف خوف و دہشت کی علامت بنادیا اور جان بوجھ کر مسلم اکثریتی علاقوں میں تنگ گلیوں اور مسجدوں کے سامنے سے جلوس گزارتے ہوئے اشتعال انگیز مسلم مخالف نعرے لگائے حتیٰ کہ خواتین کی کھلے عام بے حرمتی کااعلان بھی کیا۔ مسلمانوں کو اتنا دہشت زدہ کیا کہ وہ تنگ آمدبجنگ آمد کے مصدا ق مقابلہ پر آگئے اور رفع شر کی اپنی سی کوشش کی۔ اس دوران پتھرائو بھی ہوااور ہندو اور مسلمان دونوں کے گھروں اور دکانوں کو آگ لگادی گئی۔یہ سارے کام ریاستی پولیس فورس کی موجود گی میں ہوئے لیکن پولیس نے معاملہ کو ختم کرانے کی کوئی کوشش نہیں کی، اس کے برخلاف یک طرفہ کارروائی کرتے ہوئے مسلمانوں کو فساد میں نامزدکیا اور ان کے گھروں کو منہدم کر نا شروع کردیا۔ علاقہ میں کرفیو لگاکر پولیس اور ضلع انتظامیہ نے حکومت کی ہدایت پر منگل کی شام تک50 سے زائد مسلمانوں کے مکانات کو منہدم کر ڈالا۔ آج تیسرے دن بھی کھرگون میں کرفیو نافذ ہے اور مسلمانوں کے خوف کا یہ عالم ہے کہ وہ اپناگھر بار چھوڑ کر دوسری جگہوں پر پناہ گزین ہیں۔ ہرچند کہ اس بارے میں کوئی سرکاری اعداد و شمار جاری نہیں کیے گئے ہیں کہ کتنے لوگ علاقہ چھوڑ چکے ہیں لیکن بتایا جا رہا ہے کہ کم از کم ایک ہزار مسلمان علاقہ چھوڑ کر محفوظ مقامات پر چلے گئے ہیں۔ فسادیوں، پولیس اور حکومت کے ظلم سے بچنے کیلئے کچھ خاندان نے مساجد میں بھی پناہ لے رکھی ہے۔
یہ درست ہے کہ کھرگون میں رام نومی کے جلوس پر پتھرائو کی مذمت کی جانی چاہیے اور پتھرائوکرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی بھی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ جلوس کو مسلمانوں کے خلاف دہشت بنادینے والے شرپسندوں خاص کر اس جلوس میں شامل بدنام زمانہ بی جے پی لیڈر کپل مشرااوراس کے حواریوں کے خلاف کارروائی کی جانی بھی ضروری ہے۔لیکن ایسا نہ کرکے حکومت یک طرفہ طورپر مسلمانوں کو نہ صرف مورد الزام ٹھہرارہی ہے بلکہ اس کی دانست میں وہ مجرم بھی ہیں اورا نہیں بغیر کسی قانونی کارروائی کے موقع پر ہی سزایاب کرنا ’انصاف‘ کا تقاضا ہے۔ جلوس میں شامل شرپسندوں کی اشتعال انگیزی، مسلم مخالف نعرے بازی اور مسلم خواتین کی توہین، مسلمانوں کی دکانوں اور مکانوں کو نذر آتش کیاجانا نہ تو قابل تعزیر ہے اور نہ ہی مدھیہ پردیش کی شیو راج چوہان حکومت اس کی پابند ہے کہ وہ مسلمانوں کو شر پسندوں سے تحفظ فراہم کرے۔
دنیا کے کسی بھی مہذب معاشرے میں یہ تصور نہیں کیا جاسکتا ہے کہ حکومت آئین اور قانون سے ماورا ہوکرکسی فرقہ اوراس کے پیروکاروں کے خلاف ایک فریق بن جائے اور ہجوم کی طرح ان پر پل پڑے۔’بلڈوزر کاانصاف‘ آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کا کھلا مذاق ہے اور یہ مذاق خود حکومت کررہی ہے۔ قانون کے دائرہ میں رہ کر مظلوموں کی دادرسی اور مجرموں کو قانون کے عمل سے گزار کرسزایاب کرنا حکومت کا بنیادی فرض ہے، اس سے رو گردانی ملک اور معاشرہ کیلئے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS