نئ دہلی: آج کے انسان نے جتنی بھی ترقی کی ہے اپنے محنت ہی کے بل بوتے پرکی ہے۔ لوگوں نے اپنے خون پسینے کو بہا کر اور پہاڑوں کو تراش کر انہیں شاہراہوں میں تبدیل کیا ہے، صحراؤں کو لالہ زاروں میں بدل ڈالا ہے، سمندروں کو پھاڑ کر راستہ بنایا ہے، زمینوں سے معدنیات نکالا ہے، اور اب ستاروں سے آگے جہاں بنا رہا ہے۔ پتہ یہ چلا کہ کامیابی ہمیشہ محنت میں مخفی ہوتی ہے اور محنتی شخص ہی کامیابی حاصل کرتا ہے۔ لیکن یہاں پر کوئی بھولا بھالا شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ کامیابی محنت سے نہیں ملتی بلکہ مقدر سے ملتی ہے ، اگر تقدیر میں لکھا ہوگا تو کامیابی اسے مل کر رہے گی اور اگر کامیابی اسکے مقدر میں نہ ہوگی تو اسکی ساری محنت بیکار ہو جائے گی۔ تو اسکا جواب کچھ اس طرح دینا مناسب سمجھتا ہوں کہ انسان اس دنیا میں جو کچھ کرتا ہے ، وہ اللہ کی طرف سے مقدر ہے، محنت ومشقت کے نتائج بھی اللہ کی طرف سے مقدر ہیں ، یعنی اللہ تعالی کا یہ بھی ضابطہ ہے کہ جو شخص محنت و کوشش زیادہ کرتا ہے ، اس کا فائدہ بھی اس کو حاصل ہوتا ہے۔
اور یہ کہنا کہ جو نصیب میں ہوگا وہ مل جائے گا ، لہذا محنت کرنے کی ضرورت نہیں ہے یہ خیال غلط ہے۔
کیونکہ کام کا اچھا ہونا محنت کرنے پر موقوف ہوتا ہے اور یہ بھی اللہ کی طرف سے مقدر ہوتا ہے ، لہذا اس کو تقدیر سے الگ کر نا صحیح نہیں ہے ، بندے کو اللہ تعالی نے محنت و کوشش کا مکلف بنایا ہے اور نتائج کا ظاہر ہونا اللہ تعالی کی مشیت و قدرت سے متعلق ہے۔ قارئین! محنت مشقت صرف انسانوں کا ہی شیوہ نہیں ہے بلکہ ہر ذی روح کے لئے اللہ نے محنت و مشقت کو لازم بنا دیا ہے۔ ذرا چھوٹے چھوٹے پرندوں کو دیکھیں کہ وہ کس طرح صبح سویرے دانے اور تنکے کی کوشش میں پرواز کرتے ہیں، ٹھنڈی ہو یا گرمی بارش ہو یا آندھی وہ کچھ نہیں دیکھتے، بس اپنے رزق کی تلاش میں محنت و مشقت کو اپنے بازوؤں میں کس کر نکل جاتے ہیں، پھر شام کو شکم سیر ہوکر اور اپنی محنت کا پھل توڑ کر اپنے گھونسلوں کی طرف رواں ہوجاتے ہیں۔
اور اگر آپ نامور لوگوں کی زندگیوں کا مطالعہ کریں گے تو معلوم ہوگا کہ انکی شہرت کے پیچھے انکے سالہاسال کی انتھک محنت ہوگی، مشقت اور تگ و دو موجود ہوگی۔
کیونکہ اللہ نے ایک ایسا نظام بنایا ہے کہ ہر ایک کو سختیاں جھیلنی ہی پڑتی ہے، جیسا کہ سورہ بلد میں فرمان باری ہے:
“یقینا ہم نے انسان کو مشقت میں رہتا پیدا کیا”۔ (آیت نمبر 4). اس سورہ میں اللّٰہ تعالیٰ نے شہر مکہ کی ،حضرت ابراہیم علیہ السلام اور اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کھاکر ارشاد فرمایا کہ بیشک ہم نے آدمی کو مشقت میں رہتا پیدا کیا کہ وہ حمل کے دوران ایک تنگ و تاریک مکان میں رہے، ولادت کے وقت تکلیف اُٹھائے، دودھ پینے ،دودھ چھوڑنے ،مَعاش کے حصول اور زندگی و موت کی مشقتوں کو برداشت کرے۔ لہٰذا مشقت تو کرنی ہی پڑے گی، اس سے کسی کو مفر نہیں، یہ الگ بات ہے کہ کسی کو جسمانی مشقت زیادہ ہوتی ہے تو کسی کو ذہنی مشقت زیادہ ہوتی ہے۔ پھر جو شخص اس مشقت سے مسلسل دوچار ہوتا ہے اور صبر و تحمل کے ساتھ محنت کو اپنے بازوؤں میں کس لیتا ہے تو پھر کامیابی اسکا مقدر بن جاتی ہے،کامرانی اسکا پیچھا کرتی ہے، اور اسکی بقیہ زندگی کو فرحت و مسرت کا گہوارہ بنادیتی ہے جیسا کہ جیسا کہ قرآن پاک کی سورہ الم نشرح شاہد ہے، فرمان باری ہے: مشکل کے ساتھ آسانی ہے اور یقیناً مشقت کے بعد راحت ہے۔ (آیت نمبر 6) معلوم ہوا کہ جو شخص محنت و مشقت کو صبر و تحمل کے ساتھ اپنا لیتا ہے فتح و کامیابی کا تاج اسی کے سر پر سجتا ہے۔ قارئین ! شاہراہئی حیات مصائب و مشکلات اور نشیب و فراز سے بھری ہوئی ہے، صرف محنت و مشقت ہی کے ذریعے انسان ان مشکلات پر قابو پا سکتا ہے۔ لہٰذا زندگی کے ہر راستے کے لیے محنت لازمی ہے۔ محنت ہی کے ذریعے ہم اپنے ملک اور قوم کے مستقبل کو روشن کر سکتے ہیں نیز مسلسل محنت سے ہم اپنی مخفی صلاحیتوں کی نشوونما کر سکتے ہیں۔ انگلستان کا مشہور شاعر جان ملٹن نے کہا تھا کہ:
Fame is the spur that the clear spirit doth raise, (That last infirmity of noble mind) To scorn delights, and live laborious days;
یعنی انسان پیدا ہی اس لیے ہوا ہے کہ وہ عیش و عشرت سے نفرت کرے اور جفا کشی کی زندگی بسر کرے، سچی مسرت اسی کامیابی میں ہوتی ہے جس کے لیے ہم قلبی جدوجہد کرتے ہیں۔ کیونکہ محنت کا اصول ہی منزل مراد کی کنجی ہے. جیسا کہ برطانوی شاعر Henry Wadsworth Longfellow کہتا ہے:
“The heights by great men reached and kept were not attained by sudden flight, but they, while their companions slept, were toiling upward in the night.
یعنی عظیم لوگ جن بلندیوں تک پہنچتے ہیں وہ کسی اچانک پرواز کی بدولت نہیں پہنچتے بلکہ رات کے وقت جب ان کے ساتھی خواب خرگوش میں مست ہوتے اس وقت بھی یہ عظیم بزرگ سخت محنت کرتے ہیں اوراسی کی بدولت کامران ٹھہرتے ہیں۔ تاریخ میں ایسے واقعات بھرے پڑے ہیں جو اس بات کے گواہ ہیں کہ محنت سے ہی انسان کامیاب ہوتا ہے بابر، شیر شاہ سوری ، نیپولین، سکندر وغیرہ سبھی ابتدا میں عام آدمی ہی تھے۔ لیکن اپنی محنت سے انہوں نے بڑی بڑی حکومتیں کھڑی کر دی اور اس طرح تاریخ میں اپنا نام امر کر دیا۔ کولمبس نے سخت اور کڑی محنت کی بدولت ہی امریکہ کی کھوج کی تھی۔ شواجی کی کامیابی کا راز بھی انکی سخت محنت ہی تھی، اسکے برعکس انکا بیٹا سمبھا جی سستی کی وجہ سے ہی ناکام رہا۔ جھانسی کی رانی لکشمی بائی کی کامیابی کا سہرہ محنت کے ہی سر جاتا ہے ۔ ہم ہندوستانیوں نے آزادی بھی بہت محنت اور قربانی کے بعد حاصل کی ہے۔
دنیا کے سات بڑے عجوبے انسان کے اٹوٹ محنت کا ہی نتیجہ ہے۔ امریکہ، جاپان، روس، جرمنی وغیرہ ملکوں کی ترقی کا راز محنت ہی ہے۔ انسان کی چاند سمیت مختلف سیاروں کا سفر انکے مسلسل محنت کا ہی نتیجہ ہے۔ حقیقت میں محنت ہی خوشگوار زندگی کی بنیاد ہے ۔ یہی ترقی کی چابی ہے۔ زندگی کی سچائی صرف محنت ہے ۔ محنت کے بغیر خوش گوار زندگی بھی مرجھا جاتی ہے اسی لئے ہمیں اور ہمارے نوجوانوں کو محنت و مشقت کرنے کی بیحد ضروری ہے۔
بقلم : امام علی مقصود فلاحی
متعلم: جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن۔
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد۔